سیاسی استحکام سے گڈ گورنس کی وابستگی!

 سیاسی استحکام سے گڈ گورنس کی وابستگی!
 سیاسی استحکام سے گڈ گورنس کی وابستگی!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


میں پہلے بھی کئی بار توجہ دلا چکا ہوں کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام کے اثرات مہنگائی اور بے روز گاری کی صورت میں تو مرتب ہوئے ہیں لیکن گورننس کی حالت بہت خراب ہو چکی۔ محکمہ اور ان میں کام کرنے والے سرکاری اہل کار حتی الوسع اپنے فرائض کی ادائیگی سے گریز کرتے ہیں اس بناءپر بگاڑ ہی بگاڑ دکھائی دیتا ہے بہتری کی صورت نظر نہیں آتی اور یہ سب ہر شعبہ ہائے زندگی میں ہے۔ اس کے ساتھ ہی ہم بحیثیت قوم بھی زوال کا شکار ہیں اور ہم از خود بھی کسی ضابطے کی پابندی نہیں کرتے اس کی سب سے بڑی مثال مہنگائی ہی ہے جب کبھی بجلی، گیس اور پٹرولیم کے نرخ بڑھیں تو فوری طور پر ہر شے کے نرخ بڑھ جاتے ہیں اور جب کبھی ان شہری سہولتوں کے نرخ کم ہوں تو بازار پر اس کا اثر مرتب نہیں ہوتا ہمارے ملک میں پٹرولیم مصنوعات کے نرخ بڑھے تو کرایوں سے لے کر ہر ضروری شے کی قیمت بڑھ گئی۔ اب نہ صرف پٹرولیم بلکہ ایل پی جی کے نرخ کافی کم ہوئے ہیں۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مسلسل دوسری مرتبہ کمی کی گئی ہے اور یوں اس کو پندرہ روز سے زیادہ کا عرصہ ہو گیا۔ لیکن رکشا سے لے کر نجی ٹرانسپورٹ تک کسی نے بھی کرایوں میں کمی نہیں کی اور نہ ہی ہمارے اضلاع کا وہ نظام متحرک ہوا جو عوامی رائے لے کر کرائے مقرر کرتا ہے یوں ہم عوام وہیں کے وہیں ہیں جہاں تھے اور لٹتے چلے جا رہے ہیں۔


اس سلسلے میں میں دور ایوبی کی ایک مثال سے واضح کر دوں کہ یہ رویہ آج کا نہیں ہمارے تاجر بھائی جو پوری قوم سے زیادہ دیندار بھی ہیں ہر موقع پر اپنا منافع سیدھا رکھتے چلے آ رہے ہیں۔ ایوبی دور میں جب قیمتوں میں اضافہ ہوا تو ضلعی انتظامیہ پر دباﺅ آیا تب لاہور میں اے ڈی سی (جی) لودھی صاحب اور سٹی مجسٹریٹ ناصر علی شاہ تھے۔ سٹی مجسٹریٹ نے نرخوں میں کمی کے لئے اہل کاروں کو متحرک کیا تو احتجاج شروع ہو گیا چنانچہ لاہور کی سطح پر ایک پرائس کنٹرول کمیٹی تشکیل دی گئی۔ اس میں تجارت کے ہر شعبہ سے ایک نمائندہ لینے کے علاوہ صحافیوں میں سے مجھے اور مشرق کے احمد مظہر خان کو شامل کیا گیا۔ پھر ہم نے یہ نظارہ دیکھا کہ کمیٹی کے اجلاس ہوتے۔ مختلف مارکیٹوں اور منڈیوں کی تنظیموں کے نمائندہ حضرات کو بلایا جاتا یوں تھوک اور پرچون والے موجود ہوتے ہر اجلاس میں جھگڑا ہوتا اور ایک دوسرے پر الزام دھرے جاتے۔ فیصلہ ہونا مشکل ہو جاتا۔ کسی نہ کسی طرح نرخ مقرر ہوتے جو تھوک سے پرچون تک مقرر کئے جاتے اور طے ہوتا کہ خلاف ورزی پر کاروائی ہوگی اس سے کچھ اثر تو ہوتا لیکن عمومی حالت جوں کی توں رہتی ۔


اسی دور کی یہ بات بھی عرض کر دوں کہ اشیاءضروریہ کے نرخوں کے اتار چڑھاﺅ کے حوالے سے جب خبریں چھپتیں تو بازار میں دو طرح کے اثرات ہوتے جس شے کے نرخ میں اضافہ ظاہر ہوتا اس کے نرخ بڑھ جاتے اور جس کے نرخ کم ہوتے وہ نرخ معمول پر رہتے جب پرچوں فروشوں یا دوسرے دوکان داروں سے پوچھا جاتا تو وہ جواب دیتے یہ سابقہ نرخوں پر خریدا مال ہے جب نئے نرخوں والا آئے گا تو نئے نرخ وصول کریں گے۔ لیکن جونہی خبر چھپتی کہ نرخ بڑھ گئے اسی وقت دوکان دار قیمت بڑھا لیتا تھا ایک روز اجلاس میں اس پر بھی بڑی بحث ہوئی اور یہ طے پایا کہ رپورٹر حضرات نرخوں میں اضافے کی خبر سے گریز کریں گے اور جب کمی ہو گی تو خبر کو نمایاں کیا جائے گا (تب الیکٹرونک میڈیا نہیں تھا) اس پر عمل شروع ہوا تو کچھ اچھے اثرات بھی مرتب ہوئے اور نرخ ایک حد تک معمول پر آنے لگے۔ ان دنوں مجھے شکایت ہے کہ رپوٹر حضرات دفتر میں بیٹھ کر نرخنامہ بناتے ہیں اور اکثر اشیاءکے نرخ خود ہی بڑھا دیتے ہیں ہمارے الیکٹرونک میڈیا کے پاس معمول کے ٹکر اور گفتگو میں ”مہنگائی نے مار ڈالا“ ان کو نرخوں سے کوئی غرض نہیں اور نہ ہی میں نے کبھی ایسی تحقیقی خبر دیکھی، سنی اور پڑھی کہ مرغی کے گوشت کے نرخ کیوں بڑھتے ہیں۔ اس میں مرغی خانے کے ماکان پر ملبہ ڈالا جاتا ہے لیکن پوری تحقیق نہیں ہوتی یہی صورت حال دوسری اشیاءکی بھی ہے۔ بازار میں آج کل آم کی بہار ہے بڑی دوکانوں والے اچھی اقسام کے آموں کے دام تین سے ساڑھے تین سو روپے فی کلو بتا کر سودا بازی کرتے ہیں یہی آم اب ریڑھیوں پر دو سو روپے فی کلو تک آ گئے ہیں۔ لیکن خبروں میں آسمان توڑ مہنگائی ہے۔ میرے دوست ذرا توجہ کریں۔


مہنگائی کے حوالے سے عرض کروں کہ نئی گندم بازار میں آنے سے نرخ گر گئے لیکن بازار میں آٹے سے متاثر اشیاءکے نرخ جوں کے توں ہیں دیسی آٹا چکی والوں نے اعلان کیا کہ آٹا دس روپے فی کلو قیمت کم کر کے 160 روپے فی کلو کر دیا گیا۔ لیکن فلور ملز والوں کی طرف سے کوئی رعایت نہیں ہوئی اور نہ ہی روٹی نان کے نرخ کم ہوئے ہیں۔ اگر بیکری والی بڑی صنعتوں کی بات نہ کی جائے تو زیادتی ہو گی ان حضرات نے بتدریج نرخ بڑھائے بسکٹ وغیرہ کے نرخ 50 سے 60 فیصد بڑھا دیئے۔ 20 روپے والا پیکٹ اب 40 روپے کا ہے۔ ڈبل روٹی سادہ (بڑی) 220 روپے کی ہے۔ اسی طرح آلو کے چپس وغیرہ کے نرخ بھی کئی گنا بڑھ گئے ان کو کوئی پوچھتا نہیں ادویات کی مہنگائی تو خود حکومت نے کر دی اور ڈالر کے نرخ بڑھنے کے آسرے میں نرخ بڑھانے کی اجازت دے دی سرکاری دفاتر کے حوالے سے بات نہ کریں تو بہتر ہے کوئی کلرک، ریڈر، اہلمد حتیٰ کہ کارپوریشن کے اہل کار اپنے فرائض تو انجام نہیں دیتے۔ رشوت کے بہانے ڈھونڈھتے رہتے ہیں۔ سیاسی عدم استحکام ہی نے سٹریٹ کرائم میں اضافہ کر دیا اور انصاف بھی مہنگا ہو گیا اور ضرورت مندوں کے لئے بہت تاخیر ہوتی ہے جبکہ سیاسی مقدمات فوراً نمٹا دیئے جاتے اور انصاف کی تاریخ بنا دی جاتی ہے جیسے گزشتہ دنوں ایک محیر العقول فیصلہ ہوا کہ نگران صوبائی حکومت بھی چیخ اٹھی۔ میں نے بھی اپنی زندگی میں ایسے فیصلے کی مثال نہیں دیکھی، سابق وزیر اعلیٰ چودھری پرویز الٰہی میرے سمیت صحافیوں کی نظر میں عزت والے ہیں ان کو مبینہ طور پر کک بیکس کے مقدمہ میں گرفتار کر لیا گیا۔ قانون کے مطابق اگلے روز ان کو جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا گیا۔ اینٹی کرپشن نے جسمانی ریمانڈ کا مطالبہ کیا اور صفائی کی طرف سے مخالفت کی گئی فاضل عدالت نے فیصلہ محفوظ کیا اور کچھ دیر کے بعد اپنے چودھری صاحب کو اس کیس سے بری کرنے کا حکم جاری کر کے حیران کر دیا اور ایک نئی تاریخ رقم کر دی خیال کیا جا رہا تھا کہ ان کی ضمانت ہو جائے گی۔ یہ صورت حال ایسی تھی کہ فاضل عدالت جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کر کے جوڈیشل ریمانڈ منظور کرتی اور اگر فاضل مجسٹریٹ کے مطابق کیس بہت کمزور تھا تو ضمانت لے کر رہا کر دیتے لیکن انہوں نے تو کسی مزید کارروائی اور بریت کی کسی درخواست اور اس پر رپورٹ کے بغیر ہی بری کر کے رہا کرنے کا حکم دے دیا یہ الگ بات کہ اینٹی کرپشن والوں نے ایک دوسرے کیس میں گرفتاری ڈال دی سیاسی عدم استحکام کی بنا پر بہت کچھ اور بھی بتایا جا سکتا ہے اور نچلی سطح پر لوٹ مار بتائی جا سکتی ہے تاہم آج اتنا ہی کافی ہے شاید کہ اتر جائے راہنماﺅں کے دلوں میں یہ بات۔

مزید :

رائے -کالم -