سلنڈر دھماکے…… ذمہ دار انتظامیہ یا حکمران؟
60ء کی دہائی میں لاہور سے پاکستان ٹیلیویژن کی نشریات کا آغاز ہوا تو پانچ سال کے ایک بچے کے دماغ میں خوشی کا جو احساس ہوسکتا ہے وہ یقینا ہمارے دماغ میں بھی تھا، وقت گزرتا گیا ہم بڑے ہوتے گئے، ٹی وی کے پروگرامز کا دورانیہ بھی بڑھتا گیا، یعنی ہمارے قد کے ساتھ ٹی وی کے پروگرام بھی بڑھتے گئے۔ وہ ٹیلیویژن جو ابتدا میں بمشکل تین گھنٹے کی نشریات دیتا تھا، اس نے 70ء کے عام انتخابات میں 24 گھنٹے نان سٹاپ نشریات جاری رکھیں، لیکن آج جب ہم اپنی عمر گزار کر بڑھاپے میں آگئے ہیں تو یہ ٹیلیویژن کچھ زیادہ ہی ”جوان“ ہو گیا ہے۔ اس کی ”ڈھیر ساری اولادیں“ بھی آگئی ہیں۔ رنگ برنگے ٹیلیویژن چینلز یقینا پی ٹی وی کی اگلی نسل ہیں، لیکن یہ نئی نسل جو کچھ دکھا رہی ہے اسے دیکھ کر روزانہ آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔ ایسے ایسے موضوع اور انہیں ایسے انداز میں پیش کیا جاتا ہے کہ آنسوؤں پر کنٹرول نہیں رہتا۔ بچے کہتے ہیں جذبات پر کنٹرول کیوں نہیں رکھتے؟ انہیں کون سمجھائے کہ کسی کے بچے کو مرتا دیکھنا، کسی کی بیٹی کی عزت لوٹے جانے کو چٹخارے لیکر بیان کیا جانا، بھوک، ننگ، غربت اور افلاس کا خاتمہ کرنے کے لئے کچھ کرنے کی بجائے اسکا تماشہ دکھایا جانا اور اور پتہ نہیں کیا کیا۔ بیان کرنا شروع کیا تو یہ کالم پورے صفحے پر پھیل جائے گا۔ گزشتہ تین دن سے ٹی وی سکرین پر جو کچھ دکھایا جا رہا ہے اور اس کے اوپر ہمارے حکمرانوں کے جو بیانات آرہے ہیں اس سے تو ایسا لگتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں کو ہمارا کوئی احساس ہی نہیں ہے،ان میں سے کسی نے اس مسئلے کے مستقل حل کے بارے میں ایک لفظ اپنے منہ سے نہیں نکالا، ہاں ان ماؤں کو دکھایا جا رہا ہے جن کے بچے پریٹ آباد (حیدر آباد) کے بم دھماکے (معذرت سلنڈر دھماکے) میں مارے گئے اور بار بار یہ الفاظ سنائے جا رہے ہیں کہ مرنے والے تو وہاں ”بس دیکھنے“ گئے تھے اور یہ ان بچوں کی ماؤں اور بہنوں کے منہ سے کہلوایا جا رہا ہے کہ جیسے ہی آگ لگی ہمارا بچہ دوسرے بچوں کے ساتھ ”وہاں دیکھنے“ کے لئے گیا تھا۔ یہ بچے ایسے ”تماشے“ ہی دیکھیں گے جب ان کے پاس کھیلنے کے لئے کوئی گراؤنڈ نہ ہو جہاں وہ کرکٹ، ہاکی، فٹ بال، والی بال، باسکٹ بال کھیل سکیں۔ یہ گراؤنڈ جہاں ہم کھیلا کرتے تھے کہاں گئے؟ کس نے انہیں ”ہڑپ“ لیا اور کس نے انہیں ”ایسا کرنے سے نہیں“ روکا؟ بچوں کے پاس کوئی تفریح نہیں رہے گی تو ان کے لئے پھر یہ ”خونی تماشے“ ہی رہ جائیں گے، لیکن اس سے بھی بڑا تماشہ یہ ہے کہ ”وہ لوگ“ جو ان دھماکوں کے ذمہ دار ہیں ان کی زبان سے یہ نہیں نکلا کہ آئندہ یہ دھماکے نہیں ہوں گے، ایسا نہیں ہونے دیں گے، انکو روکیں گے، مگر وہ کیوں روکیں ان کا بچہ تو محفوظ ہے، وہ تو کسی ”ٹینک نما لینڈ کروزر“ میں سکول جاتا اور واپس آتا ہے، یا شاید اس لئے کہ وہ خود ان محفوظ علاقوں میں رہتے ہیں جو ”پوش آبادیاں“ کہلاتے ہیں، جہاں ایسا دھماکہ نہیں ہوتا، جہاں کرکٹ، فٹ بال، والی بال اور دیگر کھیلوں کی گراؤنڈز ہیں، جہاں سڑکیں ہی اتنی چوڑی ہیں کہ آپ چاہیں تو وہاں کچھ بھی کھیل سکتے ہیں، لیکن کیا ”ان“ کے کوئی ہمارے جیسے غریب عزیز و اقارب نہیں جو غریب اور متوسط آبادیوں میں رہتے ہیں، کیا ان کے بچے بھی محفوظ ہیں؟یا شاید ان کے لئے اپنے ان عزیز و اقارب اور ان کے بچوں کی حیثیت بھی کیڑے مکوڑوں جیسی ہے؟ یہ رونا دھونا اس لئے ہے کہ تین دن سے تمام ٹی وی سکرین حیدر آباد کے سلنڈر دھماکے (میں تو بم دھماکہ کہوں گا) بارے بھری پڑی ہیں۔ ٹی وی چینلز شاید موت کے تماشے دکھانے کے قابل رہ گئے ہیں۔ کہیں کسی کے بچے کی موت دکھائی جاتی ہے، کہیں کسی غریب بچی کی عزت لوٹنے کا تماشہ دکھایا جاتا ہے، کہیں کسی ہسپتال میں ”سیکرٹری صاحب“ کو سمع خراشی سے بچانے کے لئے سٹور روم میں چھپانے کے بعد بھلائے گئے بوڑھے کی گلی سڑی، تعفن زدہ لاش برآمد ہوتی ہے، کہیں بچے کی موت پر نوحہ کرتے باپ اور بھائیوں کو ”مسیحاؤں“ کے ہاتھوں پیٹے جانے اور پھر پولیس کے حوالے کئے جانے کے مناظر دکھائے جاتے ہیں اور ہمارے حکمران کہتے ہیں ہم نوٹس لیں گے، انکوائری کرائیں گے۔ ہم 75 سال سے انکوائری، انکوائری کھیل رہے ہیں۔ پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کے سرعام قتل کی انکوائری رپورٹ کہاں ہے؟ دہشت گردوں کو مارنے کی اس لئے ضرورت ہے کہ وہ بم پھوڑتے اور پاکستانیوں کو مارتے ہیں، مگر ہم تو خود اپنے ملک میں اپنے گھر میں یہ بم (سلنڈر) بنا رہے ہیں جو ہمارے بچوں اور فیملیز کو مار رہے ہیں۔ دہشت گردوں کے خلاف ہماری بہادر فوج چار دہائیوں سے جنگ میں مصروف ہے لیکن یہ سلنڈر بم بنانے والے دہشت گردوں کو کون پکڑے گا، ان کو پکڑنا کون سا مشکل ہے۔ یہ سلنڈر بم گوجرانوالہ کی فیکٹریوں میں دھڑلے سے بنائے جا رہے ہیں لیکن ان فیکٹریوں سے کیا بن کر نکل رہا ہے اس کو کون دیکھے گا؟ ان بموں کے بنائے جانے کا ذمہ دار کون ہے؟ ہر بم دھماکے کے بعد کیا کسی صوبے اور پاکستان کے حکمران نے یہ کہا کہ آج کے بعد اس ملک میں کوئی ناقص سلنڈر نہیں بنا سکے گا، ایسا کرنے والوں کو عبرت کا نشان بنا دیا جائے گا، کسی کو اپنے بچے مارنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ کان ترس گئے ایسی آواز سننے کو، 74 سال ہوگئے ایسی آواز نہیں سنائی دی۔ کاش ایسی کوئی آواز سنائی دے کہ آج کے بعد اس ملک میں کوئی ملاوٹ نہیں کرسکے گا، کوئی میرے نونہالوں کو کیمیکل سے بنا دودھ نہیں پلا سکے گا، کوئی میرے بیماروں اور بزرگوں کو جعلی ادویات فراہم کرکے انہیں سسک سسک کر مرنے پر مجبور نہیں کرسکے گا۔ آخر کب ایسی آواز سنائی دے گی؟
مجھے کسی حضرت عمر بن عبد العزیزؓ کی تلاش نہیں ہے، کیونکہ ہم اتنے خوش قسمت نہیں ہیں۔ ہمارے نصیب میں تو سسک سسک کر مرنا لکھ دیا گیا ہے، جہاں گورنر جعلی ادویات کھاتا ہو وہاں ہم کیڑے مکوڑوں کی کیا اوقات، لیکن کیا ہمارے حکمران گوجرانوالہ کی فیکٹریوں سے بن کر نکلنے والے ”سلنڈر بموں“ کی چیکنگ اور پھر جزا و سزا کا کوئی ایسا سسٹم نہیں بناسکتے کہ آئندہ کوئی یہ ”بم“ بنانے کی جرأت نہ کرسکے۔ ”اعلیٰ تعلیم یافتہ بیوروکریٹوں“ سے بھی گزارش ہے کہ ”چند ٹکوں“ کے لئے گلی محلے میں گیس سلنڈر بھرائی کی دکانیں کھولنے کی اجازت دینے والے اپنے ”ماتحتوں“ کا احتساب کریں۔ ان ماتحتوں سے ”کچھ لینے“ سے پہلے یہ ضرور پتہ کر لیں یہ ”کمائی“ کیسے اکٹھی کی تھی۔ یہ ”چھوٹے چھوٹے کام“ کرنے سے عام آدمی کی زندگی اگر بہتر اور محفوظ ہو جائے گی تو وہ دعائیں ضرور دے گا۔ یاد رکھیں حکمرانوں اور ان کے ”دست بازوؤں“ کو دعاؤں کی ضرورت سب سے زیادہ ہوتی ہے۔