سلطان ٹیپو ایک غیرت مند شہید حکمران
دنیا کی کوئی خوددار رعایا اور اس کے غیرت مند حکمران کسی طور پر بھی برداشت نہیں کرتے کہ ان کی دھرتی ماں پر تجارت کے بہانے کوئی دیارِ فرنگ سے آکر قبضہ جمائے اور ان کی صنعت و حرفت اور خوشحالی کو افلاس میں بدل دے۔
سلطان ٹیپو شہید اور اس کے بہادر باپ حیدر علی کا نام دنیا کے غیرت مند حکمرانوں کی تاریخ کے صفحات پر ہمیشہ جگمگاتا رہے گا۔ انہوں نے اپنی قوم وطن معیشت کو غیروں سے آزاد کروانے کے لئے آخری سانس تک جدوجہد کی حتیٰ کہ شہادت کے مقام بلند تک جا پہنچے۔اپنے باپ حیدر علی کے انتقال کے بعد سلطان ٹیپو 1782ء میں میسور کا حکمران بن گیا۔
اس کی سلطنت مغرب میں کرناٹک مالا بار جنوب میں دکن شمال میں منگلور اور مشرق میں میسور اور سرنگا پٹم تک پھیلی ہوئی تھی۔ اقتدار اعلیٰ سنبھالتے ہی سلطان ٹیپو نے حلف اٹھایا کہ جب تک وہ قابض غیر ملکیوں کو اپنی مقدس سرزمین سے نکال باہر نہیں کرے گا تب تک نہ قیمتی لباس پہنے گا نہ تخت پر سوئے گا۔
اس نے اپنی رعایا کو حکم دیا کہ وہ غیروں کے ملک سے آئی ہوئی کسی بھی چیز کو ہاتھ نہ لگائیں۔ سلطان ٹیپو کی غیرت مندی کی مثال اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتی ہے کہ وہ کپڑا اور عیش و عشرت کی چیزیں تو درکنار اپنے دستر خوان پر غیر ملک کا نمک تک گوارہ نہ کرتاتھا۔ سلطان ٹیپو بیک وقت ایک سچا محب وطن اور پکا مسلمان بھی تھا۔
اس نے اپنی ریاست میسور کا نام بدل کر سلطنتِ خداداد رکھ دیا تھا۔ ہندوستان کی تاریخ میں وہ پہلا مسلمان حکمران تھا جس نے اپنی سلطنتِ خدا داد میں جاگیرداری سسٹم کو ختم کر کے وڈیروں کے ظلم و ستم سے کسانوں کو نجات دلا کر انہیں خوشحال بنایا یہی وجہ تھی کہ نظام دکن اور مرہٹے اس کی جان کے دشمن ہو گئے تھے۔
انگریز مورخ میجر ڈبلیو ٹامسن اپنی کتاب Empire of Asia کے صفحہ نمبر 210 پر لکھتا ہے کہ ٹیپو کے زیر حکمرانی سلطنت خدا داد تمام ہندوستان میں سب سے زیادہ سرسبز اور اس کی رعایا سب سے زیادہ خوشحال تھی۔
مشہور فرانسیسی سیاح کیپٹن لٹل اپنے سفر نامہ میں لکھتا ہے: جب ہم ٹیپو کے ملک سلطنتِ خداداد میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ صنعت و حرفت کی ترقی کی وجہ سے نئے نئے شہر آباد ہوتے جا رہے ہیں۔
رعایا اپنے کاموں میں مصروف و مُنہمک ہے۔ زمین کا کوئی بھی حصہ بنجر نظر نہیں آیا۔ قابل کاشت زمین جس قدر بھی دکھائی دی اس پر کھیتیاں لہلہا رہی ہیں۔ ایک انچ بھی زمین بیکار نہ تھی۔ رعایا اور فوج کے دل میں بادشاہ کا احترام بدرجہ ء اتم موجود ہے۔ فوج کی تنظیم اور اس کے ہتھیاروں کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ یہ یورپ کے کسی مہذب ملک کی فوج سے کسی حالت میں پیچھے نہیں ہے۔
میسور آرکیالوجیکل رپورٹ 1917ء کے مطابق سلطان ٹیپو کا سلطنتِ خداداد میں رہنے والے غیر مسلموں، ہندو، سکھ، پارسی، عیسائی اور بدھوں کے ساتھ اس قدر احسن برتاؤ تھا کہ تمام مذاہب کی عبادت گاہوں میں سلطان کی بھیجی ہوئی کوئی نہ کوئی چیز آج بھی موجود ہے۔
حکیم الامت حضرت علامہ اقبالؒ نے سرنگا پٹم سے واپسی پر سلطان ٹیپو شہید کی عظمت کو اپنی کتاب جاوید نامہ میں شائع کر کے شہرت و غیرت کو اور نمایاں کر دیا۔
مشرق اندر خواب او بیدار بود
سلطان ٹیپو کا دورِ حکمرانی اٹھارہویں صدی کا آخری زمانہ ہے۔ تجارت کے بہانے ہندوستان وارد ہونے والے قابض غیر ملکی ایسٹ انڈیا کمپنی بنا کر اپنا قصرِ حکومت تعمیر کرنے کی سازش کر رہے تھے۔ سلطان ٹیپو اس خطرے کو بھانپ چکا تھا۔
اس نے ہندوستان کی تمام ریاستوں کے حکمرانوں نظام حیدر آباد دکن، مرہٹے، راجپوت، سکھ بلکہ گورکھوں تک کو اس خطرہ کی جانب توجہ دلائی اور کہا کہ اپنے تمام اختلافات کو ختم کر کے قابض فرنگیوں کے مقابل متحد ہو جائیں۔ ادھر قابض فرنگی یہ جان چکے تھے کہ سلطان ٹیپو کو شکست دینا ان کے بس کی بات نہیں ہے۔
انہوں نے خفیہ سازشوں کے ذریعے مراعات اور اقتدار کا لالچ دے کر نظام دکن اور مرہٹوں کو اپنے ساتھ ملا لیا۔ 1799ء میں میسور کی چوتھی جنگ شروع ہونے سے قبل سلطان ٹیپو نے اپنے آخری خطاب میں کہا کہ سلطنتِ خدا داد سب رعایا کا ہے۔
ما بدولت نے سات سال تک بہت کچھ اس کی نگہداشت کی تدبیریں کیں لیکن اکابرین سلطنت ہر وقت در پردہ اس کی تباہی میں مصروف رہے۔ جنگ شروع ہوتے ہی نظام اور مرہٹے انگریزوں سے مل گئے۔
سلطان شہید کے سپہ سالار کھنڈے راؤ اور میر صادق غداری کر کے انگریزوں کے طرف دار ہو گئے۔ سلطان شہید اپنے وفادار ساتھیوں سمیت سرنگا پٹم کے قلعہ میں محصور ہو کر رہ گیا۔ سلطان ٹیپو جواں مردی سے انگریزی فوج کا مردانہ وار مقابلہ کرتارہا۔
میر صادق جیسے ضمیر فروش غدار نے انگریزی فوج کو سرنگا پٹم کے قلعہ کے اندر داخل ہونے کے لئے فصیل کا کمزور حصہ بتا دیا۔ سلطان ٹیپو کے ایک ساتھی راجہ خان نے سلطان سے کہا کہ وہ انگریزوں کے آگے ہتھیار ڈال دے۔ اس طرح اس کی جان بخشی ہو جائے گی۔
سلطان ٹیپو شہید نے جواب دیا۔ گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے۔
4 مئی 1799ء کو عین صلٰوۃ المغرب کے قریب ملتِ اسلامیہ کا یہ فرزندِ عظیم تین اطراف سے انگریزی فوج کے گھیرے میں آ گیا اس طرح امت مسلمہ کا یہ بطلِ جلیل اولوالعزم، بہادری اور غیرت مندی کا پیکر، آزادی کا پرستار حکمران شہادت کے مقامِ بلند تک جا پہنچا۔
مر کے جی اٹھنا فقط آزاد مردوں کا ہے کام
گرچہ ہر ذی روح کی منزل ہے آغوشِ لحد