وہ والا عمران کہاں گیا؟
یہ میں 70اور80 کی دھائی کی بات کر رہا ہوں۔ہماری جوانی کے دِنوں میں جب یہ شہزادہ کرکٹ کے حوالے سے نمایاں ہونا شروع ہوا اور تمام پاکستانیوں کے دلوں کا جانی بن گیا۔ بلکہ اسے کرکٹ کی دنیا کے تمام حکمران اور عوام ایسے جانتے تھے جیسے کہ عمران خان انکے ہی ملک کا باشندہ ہو۔ کیا برطانیہ، کیا آسٹریلیا، ہندوستان، ساوتھ افریقہ، سری لنکا، ویسٹ انڈیز، ان سب ملکوں میں ہر Household میں عمران خان کا نام جانا جاتا تھا۔ ہر نازک دھڑکتے دل میں اس خوابوں کے شہزادے کے لئے چاہت تھی۔ صنفِ نازک کی اس کمزوری کا فائدہ بھی عمران خان نے خوب اُٹھایا۔ دنیائے فلم کی کون سی حسینہ تھی جس سے اس بندے کا نام نہیں جوڑا گیا۔
پاکستان کے کسی سرکاری یا غیر سرکاری شخص کو اتنی Intimateقسم کی شہرت نہیں ملی تھی۔ بھٹو صاحب سے لے کر نواز شریف اور بی بی بے نظیر کو بھی اتنی شہرت نہ ملی تھی، ایک وقت تھا کہ نواز شریف کے بھی دل کا جانی تھا وہ والا عمران خان۔ عمران خان کی وجہ شہرت اس کی کرکٹ تو تھی ہی لیکن اس کے انسان دوست منصوبوں اور اس کی یونانی دیوتاؤں والی وجاہت مغربی اشرافیہ کو بھی بھا گئی، میَں عمران خان کو اچھی طرح سے 1974 سے جانتا ہوں، پتہ نہیں کس ناہنجار نے اس کے دماغ میں سیاست ڈال دی، اس کھلندڑے سے آدمی نے فلاح اور بہبود کا کام کیا بہت ٹھیک کیا۔ لوگوں نے بڑھ چڑھ کر اس کے نیک کام میں حصہ ڈالا، اس نے نمل یونیورسٹی بنائی، ہر خاص و عام نے دِل کھول کر اپنا اپنا حصہ ڈالا،لیکن اسکو نہ State Craft کا پتہ تھا نہ ہمارے کرپٹ نظامِ عدل کا، نہ ہی پاکستان میں موجود سیاسی کرپشن کا پتہ تھا اور نہ ہی معیشت کی گھمن گھیریوں کا کوئی ادراک تھا۔ محض ایماندار ہونے سے کار ِ حکومت تو نہیں چل سکتے تھے۔
پاکستان ایک مشکل اور نہایت ہیComplexملک ہے۔ یہاں کے عوام انفرادی طور پر بہت ذہین ہیں، قابل بھی ہیں لیکن اجتماعی طور پر ہم اچھے نہیں ہیں۔ ہم بطور عوام ملک کی بہبود کے لئے سوچتے ہی نہیں۔ ہم نعروں پر زندہ رہتے ہیں اور نعروں پر ہی مرنے مارنے پر تیار ہو جاتے ہیں، قومیتوں میں بٹا ہوا یہ علاقہ 14اَگست 1947 کو اچانک ایک ملک بنا دیا گیااورکہہ دیا گیا کہ اَب ہم ایک قوم ہیں، کتنی سطحی سوچ تھی ہمارے لیڈروں کی، ہم اَب بھی قومیتوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ ہم 1965 میں قوم نہیں بنے تھے بلکہ ہماری Herd instinct نے خطرے سے بچنے کے لئے اور ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر ملّی نغمے سُنا کر ہمیں یہ احساس دلایا گیا تھا کہ ہم ایک قوم ہیں۔ اَب تو ملّی نغمے بھی دِلوں کو نہیں گرماتے۔ 1947 میں ہم 3.5 کروڑ تھے۔ بچوں کی bumper پیداوار نے ہمیں 22کروڑ تک پہنچا دیاہے۔ ہم کتنے ہی جتن کر لیں بے تحاشہ بڑھتی ہوئی آبادی ملک کو پنپنے ہی نہیں دے گی، سیاسی پارٹیوں کے مالکوں کی موجاں ہی موجاں۔ فوجیوں کی بھی موجیں کہ بھرتی کے لئے نفری ملتی رہے گی۔ عوام زندہ باد، مردہ باد کے نعرے لگاتے رہیں گے اتنے بڑے اور بے ہنگم Crowd کو ہمارے مولانا عمران خان ریاست ِ مدینہ میں بدلنا چاہتے ہیں۔
اگلے الیکشن میں اگر میں زندہ رہا، میں اور میری فیملی ووٹ عمران کو ہی دیں گے کیونکہ پاکستان میں جن لوگوں کے آنے کا خدشہ ہے وہ میرے لیڈر نہیں ہو سکتے۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی میں بڑے قابل اور ایماندار لوگ موجود ہیں لیکن وہ بیچارے حکومت نہیں بنا سکتے، کیونکہ پاکستان کی سیاسی پارٹیاں افراد کی ذاتی ملکیت ہیں،عوام کی نہیں۔ اِن ذاتی ملکیت میں رہنے والی سیاسی پارٹیوں نے ہی ہمیں ایک قوم نہیں بننے دیا۔ اس میں مختلف نسلوں اور لسانی بنیادوں پر بٹے ہوئے عوام کو صرف پولیٹیکل پارٹیز اکٹھا رکھ سکتی تھیں بشرطیکہ وہ ایک تنظیم اور منشور کے مطابق کام کرتیں۔ لیکن ہماری سیاسی پارٹیاں تو ذاتی لمیٹیڈ کمپنیاں ہیں جن کے مالک اپنے سرمائے اور اپنے100-200تعلق داروں اور رشتے داروں کے ذریعے جمہوریت کا ڈھونگ رچاتے ہیں، اِن رشتے داروں اور تعلق دار غلاموں کو حکومتی عہدے دے کر مالی فوائد سے نواز کر اپنی اپنی چودھراہٹ پکی کرتے ہیں۔ یہ 100-200 مفاد یافتہ افراد اپنی پارٹی کے ”مالک“ کے لئے اپنے اپنے حلقہِ اثر میں مزید غلام پیدا کرتے چلے جاتے ہیں۔ موجودہ پنجاب ظاہری طور پر نواز شریف کی پراپرٹی ہے۔ سندھ زرداری کی اَل اولاد کا ہے۔ عمران خان کے ہٹنے کے بعد KPK کسی کا بھی ہو سکتا ہے۔بلوچستان ایک قسم کی Swing state ہے جو کسی بھی پارٹی کے ساتھ ہو سکتی ہے بشرطیکہ اُس پارٹی کو فوجیوں کی اشیر باد ہو۔ پاکستان کی سیاست کی حرکیات (Dynamics) میں عمران خان جیسا آزادی پسند سیاستدان موزوں نہیں ہو سکتا۔اوّل تو اس کو ایسی لولی لنگڑی حکومت آئندہ قبول ہی نہیں کرنی چاہیے۔ جنہوں نے عمران خان کو سہارا دے کر وزارت ِ عظمیٰ کی کرسی پر بٹھایا تھاکیا وہ عمران خان کو آئندہ بھی من مانی کرنے دیں گے۔
پاکستانی فوج ملکی سیاست میں شروع سے فعال رہی ہے۔ کولڈوار کے زمانے سے ہی ہماری فوج کے جنرلوں کی مکمل Profileامریکی خفیہ اِداروں کے پاس ہوتی تھی۔ کولڈوار کے خاتمے تک مارشل لاؤں کو مغربی ممالک برادشت کرتے رہے۔ جنرل ضیاء الحق اور پرویز مشرف کے مارشل لاؤں سے امریکہ نے چشم پوشی اپنی ضرورت کے لئے کی۔ لیکن پچھلے 22 سالوں سے پاکستان میں Hibrid مارشل لاء ٹائپ حکومتیں رہی ہیں خاص طور پر بے نظیر کے منظر سے ہٹ جانے کے بعد، کیونکہ بے نظیر ایک Populist سیاستدان ہونے کی وجہ سے امریکہ کے مکمل کنٹرول میں شائد نہ رہتی اس ہی لئے اُس کی زندگی ختم ہوتے ہی آصف زرداری کو پُر اسرار وصیت کے ذریعے پیپلز پارٹی سونپ دی گئی۔ پیپلز پارٹی کے نظریاتی ورکر چھوٹے موٹے عہدوں پر راضی ہو گئے۔ اصل سیاسی طاقت آصف زرداری کے ہاتھوں میں ہی ہے۔ امریکہ کے لئے آصف زرداری اور نواز شریف پسندیدہ حکمران ثابت ہوئے ہیں۔ فوج کے ہاتھوں میں اصل طاقت موجود رہی لیکن دنیا کے لئے پاکستان کا چہرہ جمہوری تھا۔ 2018میں پاکستان پر حکمرانی کے لئے نیا چہرہ عمران خان اور اُس کی پارٹی کو آزمانے کا موقع دیا گیا۔ عمران خان ابھی ایک نا تجربہ کار اور نا پختہ حکمران تھا۔ کچھ ہی عرصے بعد اُس نے فوج کے اہم مشوروں کو ردّ کرنا شروع کر دیا۔ خارجہ پالیسی کا رُخ بدلنے کے لئے دفاعی حلقوں سے مشاورت ہر ملک میں ضروری ہوتی ہے۔ امریکہ کے سامنے تحریکِ انصاف کے رہنما نے سابقہ حکمرانوں کی طرح روائتی تابعداری کا مظاہرہ بھی نہیں کیا۔ عمران خان کی ایمانداری کا اس کے قریبی ساتھیوں نے خوب ناجائز فائدہ اُٹھایا۔3.
اُس نے غلط لوگوں کو بھاری ذمے داریاں سونپیں۔ عثمان بزدار جیسا نا تجربہ کار وزیر اعلیٰ پنجاب پر مسلط کر ے بہت فاش غلطی کی۔ اس بندے کو تحفے تحائف لینے دینے کے رکھ رکھاؤ کا بھی نہیں معلوم تھا۔ کیا ضرورت تھی توشہ خانہ سے حاصل شدہ تحائف کو کُھلے بازار میں فروخت کرنے کی۔ چاہے وہ تھوڑی مالیت کے تھے۔ بدنامی کتنی ہوئی۔ عمران خان کی مقبولیت اس کی حماقتوں کی وجہ سے قریباً ختم ہو چکی تھی۔ وہ تو اللہ نے اپنی قدرت کا ہلکا سا نمونہ دکھانا تھا کہ تحریکِ عدم اعتماد جس طریقے سے اُس کے خلاف تیار کی گئی اور جن بُری اور منفی شہرت والے لوگوں کو حکومت سونپی گئی خاص طور پر آصف زرداری گروہ اور نواز شریف گروہ، جن کی کرپشن کے طریقوں کو اِن کی پارٹیوں کے سنجیدہ ارکان بھی سمجھتے تھے، ایسی ناپسندیدہ تبدیلی نے پاکستان کی مڈل کلاس کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ عمران خان ایک ہی رات میں ایک مظلوم اور فریب زدہ لیکن بہادر اور حوصلہ مند لیڈر کی حیثیت اختیار کر گیا۔ امریکہ کی Defiance کر کے عمران خان پاکستانی عوام کا دوبارہ محبوب بن گیا۔ چونکہ پاکستان کی 62% آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے لحاظہ اِن نوجوانوں ہی میں عمران خان زیادہ مقبول ہو چکا ہے۔ عمران خان کو اَب تک سیاست کے گُر، مردم شناسی اور حکومت کاری کی سوجھ بوجھ بھی آچکی ہو گی۔ مزاج میں بھی پختگی آچکی ہو گی۔ کرکٹ اور سیاست کاری کے فرق کو بھی سمجھ لیا ہو گا۔ اس لئے مجھے اُمید ہے کہ اس دفعہ کا عمران خان وہ والے عمران خان سے زیادہ بہتر ہو گا۔