محوِ حیرت ہوں کہ دنیا…………
شاعرِ مشرق نے کہا تھا:
کُلبہء افلاس میں، دولت کے کاشانے میں موت
دشت و در میں، شہر میں، گلشن میں، ویرانے میں موت
زلزلے ہیں، بجلیاں ہیں، قحط ہیں، آلام ہیں
کیسی کیسی دخترانِ مادرِ ایام ہیں
یہ اشعار پڑھتے ہوئے بہت کم قارئین کو احساس ہوتا ہے کہ شاعر نے ان درج بالا چار مصرعوں میں فنِ شعر کی کن کن باریکیوں اور نزاکتوں کو سمو دیا ہے۔ مثلاً کُلبہء افلاس کا مطلب ہے غریب کی جھونپڑی اور دولت کا کاشانہ اس کا متضادِ مرکب ہے۔اسی طرح دشت و در اور شہر کے مابین یہی معنوی تضاد ہے اور گلشن اور ویرانے میں بھی یہی الٹ پھیر موجود ہے…… دوسرے شعر میں شاعر نے زلزلوں، بجلیوں، قحط اور دوسری آسمانی اور زمینی آفات کو دخترانِ مادرِ ایام سے تعبیر کیا ہے۔ حسن و عشق اور شباب و جواں سال بھی دخترانِ مادرِ ایام ہیں۔ لیکن مشرقی ادب میں مذکر و مونث کی معنوی صفات کو ملحوظ رکھا جاتا ہے۔اسی لئے ”دخترانِ مادرِ ایام“ کا مرکبِ اضافی وہ ادبی اور فنی استعارہ ہے جس کی طرف بیشتر قارئین کی توجہ نہیں ہوتی۔
شاعرِ مشرق نے دنیا میں موت، زلزلے، بجلی اور قحط وغیرہ کو بیان کرنے کے بعد ان کا نتیجہ یہ نکالا تھا:
نے مجالِ شکوہ ہے، نے طاقتِ گفتار ہے
زندگانی کیا ہے اک طوقِ گُلو افشار ہے
زندگی کو گلے کا ایک پھندا سمجھ لیا گیا ہے کہ جو ہر آن گلے کو دباتا رہتا ہے تاآنکہ اس کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ لیکن شاعر نے اس بشری بے بسی کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے تھے اور کہا تھا کہ انسان کو شکائت کا یارا نہیں اور منہ سے کوئی حرفِ شکوہ نکالنے کی بھی مجال نہیں۔
لیکن شاعرِ مشرق کے برعکس شاعرِ مغرب نے اقبال سے آگے جا کر موت کا علاج ڈھونڈنے کی کوشش کی تھی اور کہا ہے کہ اگر موت آ جائے تو اس کے بعد کی زندگی کا احیاء بھی کیا جا سکتا ہے۔ یہی وہ بدیہی فرق ہے جو اہلِ مشرق اور اہلِ مغرب کے درمیان خطِ امتیاز کھینچ دیتا ہے۔ اگلے روز مجھے ناروے کی ایک شاعرہ آمیلیہ نیرن برگ (Amelia Nierenberg)کا ایک آرٹیکل پڑھنے کو ملا جس میں اس نے حیاتِ بعد ممات کا منظر کھینچا ہوا تھا۔ اس نے لکھا ہے کہ ناروے کے شمال میں بحرِ منجمد شمالی (Northern Arctic) کے بالکل قریب، حکومتِ ناروے نے ایک بڑا سٹور روم تعمیر کر رکھا ہے جس میں دنیا بھر کی فصلوں کے بیج (Seeds) ذخیرہ کئے ہوئے ہیں۔ آمیلیہ ایک جواں سال صحافی ہیں جو دنیا میں ”خوراک“ کے موضوع پر مضامین لکھتی رہتی ہیں۔ آب و ہوا کی تبدیلی اور اس تبدیلی سے پیدا ہونے والی منفی اثرات جو نسلِ انسانی پر مرتب ہوں گے، ان کے بارے میں بھی فکر مند رہتی ہیں …… شاعرہ جو ہوئیں ……
وہ لکھتی ہیں کہ ناروے کے شمالی علاقے میں حکومت اور دوسرے عشاقِ فطرت نے ایک بڑا سا سٹور (Vault)تعمیرکر رکھا ہے جس میں دنیا کے کونے کون سے مختلف فصلوں اور درختوں کے بیج (Seeds) ذخیرہ کئے ہوئے ہیں۔ دنیا میں آب و ہوا کی جو تبدیلیاں ہم آج دیکھ رہے ہیں، وہ آنے والے کل میں شدت اختیار کر سکتی ہیں۔ صحراؤں میں بارشیں شروع ہیں، وسطی یورپ میں سیلاب آ رہے ہیں، امریکہ کے مغربی ساحلوں پر طغیانیوں کا عالم یہ ہے کہ وہاں آن کی آن میں سینکڑوں انسان موت کے گھاٹ اتر رہے ہیں۔ بستیاں ویران ہو رہی ہیں، امواجِ بحر جب اترتی ہیں تو ساحلی آبادیاں تو ہلاک ہوتی ہی ہیں، وہاں کے شجر حجر، چرند و پرند اور سبزہ و گل سب کے سب ویران ہو جاتے ہیں۔ اگلے روز جب ہیلی کاپٹروں اور ڈرونوں سے ان مقامات کی تصاویر لی جاتی ہیں تو دنیا کے سب سے امیر اور سب سے جدید ملک کے باسیوں کی بے بسی دیدنی ہوتی ہے۔ انسان چاہے جتنی بھی ترقی کرلے، آفاتِ سماوی کو نہیں ٹال سکتا اور یہ آفات روز بروز بڑھتی چلی جا رہی ہیں۔آب و ہوا کی تبدیلی کو ہم پاکستانی محسوس نہیں کر رہے لیکن یورپ اور امریکہ کے باشندوں نے اس موضوع پر ایک عرصے سے تحقیق و تفتیش کے دریچے وا کر رکھے ہیں۔ مثلاً آمیلیہ کا یہ پیراگراف دیکھئے:
”ناروے کے انتہائی شمالی علاقوں میں سوال بارڈ (Svalbard)میں ایک ”گلوبل بیج سٹور“ کئی برسوں سے تعمیرکیا ہوا ہے۔ یہ گویا نسلِ انسانی کی آخری آرام گاہ ہے۔یہ گویا قیامت کے ’باغات‘ میں باقی بچ جانے والا ایک ’باغ‘ ہے، ایک محفوظ جینیاتی کیپسول ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ اگر کوئی عالمگیر حادثہ دنیا میں رونما ہو جائے، ایک بڑا شہاب ثاقب، کرۂ ارض سے ٹکرا جائے یا آب و ہوا کی ویرانیاں اس دنیائے فانی کو اپنی لپیٹ میں لے لیں تو یہ والٹ (ذخیرہ) بچ جائے اور اس کے بیج دوبارہ اُگ کر کرۂ ارض کو نباتات کے دور میں داخل کردیں اور وہاں سے حیوانات کا دور اور پھر انسان کا دور شروع ہو جائے“۔
دیکھئے مغرب و مشرق کے فلاسفہ میں فکر و نظر کا تضاد کس درجے کا ہے۔ ہم تو ”کن فیکون“ کے قائل ہیں۔ خدا نے کہا ”کن“ تو دنیا ”فیکون“ یعنی پیدا ہو گئی۔ لیکن جب وہ اسے ختم کرنا چاہے گا تو اس کو زلزلوں، سیلابوں، شہاب ہائے ثاقب اور تبدیلیء آب و ہوا کی کیا ضرورت ہوگی؟ وہ صرف ایک ’لفظ‘ کہے گا اور دنیا ’کن“ سے پہلے کے دور میں چلی جائے گی…… افسوس کہ مغرب کے فلاسفہ، صحافیوں اور دانشوروں نے قرآن کا مطالعہ نہیں کیا۔
’سوال بارڑ‘ کے اس گودام میں 13لاکھ اقسام کے بیجوں کے نمونے رکھے ہوئے ہیں جو گودام کی بیرونی فضا کے شدائید سے ناآشنا ہیں۔ ان نمونوں کی تعداد 7000 بتائی گئی ہے اور ان میں ہر ماہ بلکہ ہر ہفتے اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ نئے بیج سٹور کئے جاتے ہیں۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ 2008ء سے لے کر آج تک 30ہزار نئے بیجوں کے نمونے یہاں بھیجے گئے تھے جو محفوظ ہیں۔
میں سوچتا ہوں کہ انسانی فکر کی رسائی کس طرح کی اور کس حجم کی نارسا ہے! یہ سٹور روم انسان نے زمین کے اوپر بنایا ہوا ہے جبکہ اللہ کریم نے تو سب کچھ زمین کے اندر چھپا رکھا ہے۔ لالہ و گل اور سنبل و ریحاں اسی زمین کے نیچے سے اگتے ہیں اور خدائے واحد کی موجودگی کی شہادت دیتے ہیں۔ بابا تاجی کا ایک شعر ہے:
خاک سے لالہ و گل، سنبل و ریحاں نکلے
تم بھی پردے سے نکل آؤ کہ ارماں نکلے
لیکن اس کائنات کا خالق جس پردے میں چھپا ہوا ہے اس کا علم صرف اسی کی ذات کو ہے۔ آمیلیہ جیسی مضمون نگار خواہ ناروے کے کتنے ہی تخموں (Seeds) کے گودام گھروں پر زورِ قلم صرف کر لیں، کیا جب قیامت آئے گی تو یہ ”گودام گھر“ بچ جائے گا؟…… انسان نے کیسی کیسی بودی اور بے بنیاد باتوں کا سہارا لے رکھا ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ دنیا کے کونے کونے سے بیجوں کے نمونے یہاں چلے آ رہے ہیں اور ان کو اس سٹور روم میں رکھا جا رہا ہے اور امید کی جا رہی ہے کہ جب قیامت آئے گی تو یہ سٹور روم بچ جائے گا۔
خبر نہیں مغربی دنیا کس دانشور، شاعر اور اس کے علماء و فضلاء کن چکروں میں گرفتار ہیں۔ مشرق میں اگرچہ ”اجالے“ کا تصور ناپید سہی لیکن دوسری طرف مغرب میں بھی تاریکیوں کا راج ہے اور یہ تاریکیاں جدید دنیا کے کارخانوں اور فیکٹریوں کی پیدا کردہ ہیں:
اک شور ہے مشرق میں اجالا نہیں ممکن
افرنگ مشینوں کے دھوئیں سے ہے سیاہ پوش
آج کی دنیا میں ناروے کے شمال میں بیجوں کا ایک سٹور روم رکھ دیا گیا ہے جو قیامت کی آمد تک محفوظ سمجھا جا رہا ہے لیکن کیا خبر جب قیامت آئے تو انسان کا تیسرا جوہری بم سوال بارڈ کے اس گودام گھر پر آن گرے یا شہابِ ثاقب اسی سٹور روم کو سب سے پہلے تہس نہس کر دے یا ایسا سیلاب آ جائے جس میں حضرت نوح کی کوئی ایک کشتی بھی موجود نہ ہو۔ یہ سب کچھ اس ذاتِ باری کے اختیار میں ہے۔ وہ ہرآن پردۂ غیب میں بیٹھا اپنے گیسو سنوارتا رہتا ہے۔غالب نے درست کہا تھا:
آرائشِ جمال سے فارغ نہیں ہنوز
پیشِ نظر ہے آئینہ دائم نقاب میں
٭٭٭٭٭