شیطانی جبلّت اور دنیاوی ترقی
واللہ ُخیرالماکرین۔بیشک اللہ تعالیٰ سب سے بہتر منصوبہ سازہیں۔ جب اللہ تعالیٰ نے شیطان کو اُس کی حکم عدولی اور تکبّر پر اپنے دربار سے نکال کر ہمیشہ کے لئے مردُود اور ملعون قرار دیا تھا تو اُس وقت رب العزت کے عِلم میں ہماری اس دنیا کی اِبتداء سے انتہا تک کا منصوبہ ضرور موجود ہو گا۔ ذرا سوچئے اگر ہم اِنسان حسد، لالچ، منافقت، ظلم، اِنتقام، فریب، غیبت اور جھوٹ سے عاری ہوتے تو یہ دنیا کتنی پھیکی اور عدم دلچسپی کا باعث ہوتی۔
پچھلی صدیوں کو ہی دیکھ لیں۔ ہندوستان پر محمود غزنوی کے 17 حملے اِسلام پھیلانے کے لئے تو نہیں تھے۔ سومنات کے مندر کی کثیر دولت کا اُس نے سُن رکھا تھا۔ اس دولت کو حاصل کرنے کے لئے محمود غزنوی سومنات پر حملہ آوار ہوتا رہا۔ہندو تاریخ دان غلط لکھتے ہیں کہ مندر کی دولت لُوٹنے میں محمود غزنوی کامیاب رہا، سوائے مندر کے صندل کے دروازے کے جو جہازی سائز کا تھا، محمود غزنوی اور کچھ نہ لے جا سکا۔ شہاب الدین غوری کے باپ کو محمود غزنوی کے خاندان کے لوگوں نے قتل کیا تھا۔ شہاب الدین نے سلطنتِ غور کو سنبھالتے ہی محمود غزنوی کے بھائیوں اور بھتیجوں کو قتل کروا کر اپنے اِنتقام کی آگ بجھائی اور پھر ہندوستان پر حملہ آور ہو کر خانوادہ غزنی کا بالکل خاتمہ کر دیا۔ شہاب الدین سے لے کر 18 ویں صدی تک جو بھی حملہ آور آئے وہ ہندوستان کی بے پناہ دولت حاصل کرنے کے لئے ہی آئے اور پھر ہندوستان کے ہی ہو رہے۔ ہندوستان کی دولت کی یورپ میں اِتنی دھوم تھی کہ ہندوستان کے سمندری راستوں کی تلاش کرتے کرتے کرسٹوفر کولمبس امریکہ کی سر زمین پر پہنچ گیا اور یوں امریکہ کے اصلی باشندوں پر قتل و غارت کا بازار سپین کے بادشاہوں کے علاوہ برطانیہ اور فرانس نے بھی گرم کیا۔ ظلم، دھوکے بازی قتل و غارت سے معصوم ریڈانڈینز کی سر زمین پر قبضہ کیا اور پھر آہستہ آہستہ براعظم امریکہ کے اصل باشندے Reservations میں سکڑتے چلے گئے۔ شیطانی خصلت جو ظلم اور لالچ پر مبنی ہے اُس نے ہمیں امریکہ، کنیڈاکے آلو، ٹماٹر، تمباکو، مکئی اور لاطینی امریکہ کی کافی، کوکا اور شوگر کے علاوہ کیلا اور مختلف اقسام کے پھلوں سے روشناس کر وایا۔
واسگوڈی گاما نے ہندوستان پہنچنے کا سمندری راستہ کیا تلاش کیا کہ یورپ کے تاجروں کو ہوّس کی مہمیز لگ گئی۔ ہالینڈ، برطانیہ، فرانس اور پُرتگال نے اپنے اپنے ملکوں کے نام سے تجارتی کمپنیاں بنالیں۔ یورپ اور امریکہ کے مشہور یہودی خانوادے راتھ چائلڈ (Rothchilde) کے ایک رکُن نے ایسٹ اِنڈیا کمپنی بنا کر ہندوستان سے تجارت شروع کر دی۔ ہندوستان کے کوتاہ بین مسلمان بادشاہوں نے انگریز، پُرتگیزی، ولندیز ی اور فرانسیسی کمپنیوں کو نہ صرف تجارتی سہولتیں فراہم کیں بلکہ اُنہیں اپنی سلطنت کے سمندروں میں بندرگاہیں بنانے کی بھی اِجازت دے دی۔یورپی اقوام کی آپس کی رقابتیں، حسد،سازشیں اور جنگیں ہندوستان کی سرزمین پر بھی پہنچ گئیں۔ لوٹ مار، سازشوں، غدّاریوں اور مقامی جنگوں کا بازار سر گرم ہو گیا۔ ہندوستان جو سونے کی چڑیا کہلاتا تھا، اُس پر قبضہ کرنے کے لالچ نے بالاخر ہندوستان کی مغل بادشاہت ختم کردی۔ ہالینڈ اور فرانس کے عسکری تاجروں کو دیس نکالا مِل گیا اور انگریز نے 100 سال تک ہندوستان پر اپنی بالادستی قائم کر لی۔ حکومت چلانے کے لئے انگریز حکمرانوں نے مقامی اَکابرین کو منافقت اور لالچ کے ذریعے اپنا وفادار بنالیا۔
برطانوی سامراج کے ساتھ فرانسیسی، ولندیزی اور رُوسی سامراج نے بھی افریقہ، مشرقِ بعید اور وسطی ایشیاء کے قدرتی وسائل سے مالا مال علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ یورپ کے صنعتی اِنقلاب کی اہم ضرورت خام مال تھا اور تیار شدہ مال کی فروخت کے لئے منڈیوں کی بہت اہمیت تھی۔ اِن دونوں ضرورتوں کو ایشیاء اور افریقہ کے غلام ممالک پورا کر رہے تھے۔ جرمنی ہی ایک ایسا ملک تھا جو سامراجی دوڑ میں پیچھے رہ گیا تھا۔
تمام دنیا کے قدرتی وسائل پر برطانیہ، فرانس، ہالینڈ، سپین، روس اور بلجیم کا قبضہ تھا۔ جرمنی، آسٹریا، اٹلی اور جاپان کالونیاں قائم کرنے کی دوڑمیں پیچھے رہ گئے۔ اس محرومی نے حسد کو جنم دیا جو بالاخر پہلی جنگِ عظیم کی وجہ تسمیہ بنی۔ 2 کروڑ سے زیادہ اِنسانی ہلاکتوں اور جرمنی کی شکست کے بعدا من قائم ہوا، شکست خوردہ جرمنی اور فاتح یورپی ممالک کے درمیان معاہدہِ امن فرانس کے شہر ورسیلز میں ہوا،وہ جرمنی کے لئے باعثِ حزیمت تھا لیکن مجبوری تھی۔ غریب قوموں کے قدرتی وسائل پر قبضہ حاصل کرنے کے لالچ اور آپس کے حسد نے نہ صرف شیطانی خصلتوں کی ترجمانی کی بلکہ شکست خوردہ جرمنی کے عوام میں شیطان نے اِنتقام کے جذبے کو بھڑکا دیا۔ پہلی جنگِ عظیم کے صرف 21 سال بعد جرمنی نے اِنتقام کی طاقت سے لیس ہو کر دوسری جنگِ عظیم کی شروعات کی جو 3 کروڑ اِنسانی ہلاکتوں کا باعث بنی۔ 1945 میں اِن دونوں عظیم جنگوں کی اصل وجہ اِنسانی لالچ اور جذبہِ انتقام تھا۔ اِن جنگوں کو جیتنے کیلئے جھوٹ اور ریا کاری کا بے دریغ استعمال ہوا۔ جاسوسی کے نظام کو کامیاب کرنے کے لئے جھوٹ، فریب اور لالچ بہت اہم ہوتے ہیں۔
آج کی دنیا میں جتنی بھی انٹلیجنس کی تنظیمیں ہیں وہ شیطان کے اِن حربوں سے کامیابی حا صل کرتی ہیں۔ دوسری جنگِ عظیم کی وجہ سے بے اِنتہا ہلاکتیں تو ضرور ہوئیں لیکن یہی جنگیں، دنیا کی نہایت کارآمد ایجادات کا باعث بنیں۔ہوائی جہاز، جو جنگی استعمال کے لئے بنا تھا، آج اِنسان کے لئے نقل و حرکت کی تیز ترین اور پُر تعیش سواری ہے۔ ایٹم اِیجاد ہوا تھا دشمن کو تحس نحس کرنے کے لئے لیکن یہ ہی ایٹم اِنسانی علاج معالجے میں، شہروں کو روشنی دینے کے لئے اور صنعتوں کی توانائی کا باعث ہے۔ اِنسانی فلاح اور بہبود سے منسلک جتنی بھی ایجادات اِن دو جنگوں کی وجہ سے ہوئیں،اتنی ایجادات اِنسانی دس ہزار سالہ تاریخ میں بھی نہیں ہوئیں۔
جب سے زمانہِ امن آیا ہے تو ایک اور جنگی ایجاد ٹیلی ویژن کی شکل میں ہر گھر میں پہنچ گئی۔میَں نے ٹیلی ویژن کا نام ہی شیطانی ڈبہ رکھا ہے۔ اس ڈبے میں بیٹھ کر جو غیبت ہوتی ہے، سراسر جھوٹ بولا جاتا ہے، کمرشلز کی شکل میں، چمک دمک والے ڈیزائنر ملبوسات کی نمائش کر کے ہمارے غریب طبقے کا استحصال کیا جاتا ہے۔ اِشتہاری پروپیگنڈا اِتنا پُر اثر ہوتا ہے کہ غریب نوجوان لڑکے اور لڑکیاں لالچ میں آ کر اِن پُر تعیشی اشیاء کے حصول کے لئے جُرم اور گناہ کر بیٹھتے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کی طاقت سے لوگوں کے سامنے حقیقت کو کچھ اور ہی رنگ میں پیش کیا جاتا ہے۔ سچ جھوٹ بن جاتا ہے اور جھوٹ سچ۔ آج کی دنیا میں اَندھا دھندمقابلے بازی کی جو دوڑ لگی ہوئی ہے، اُس کی بڑی وجہ بصری میڈیا ہی ہے۔