انگریز اور برٹش انڈین آرمی     (آخری قسط)

  انگریز اور برٹش انڈین آرمی     (آخری قسط)
  انگریز اور برٹش انڈین آرمی     (آخری قسط)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ہم میں سے بہت سے پاکستانی انگریزوں کو بُرا بھلا کہتے ہیں۔ انہوں نے برصغیر پر کئی عشروں تک حکومت کی۔ لیکن ہم کو تو بھی ”آزاد“ ہوئے 8عشرے ہونے کو ہیں، کیا ہم پاکستان کو ویسا ملک بنا سکے ہیں جیسا کہ انگریز نے اگست 1947ء میں ہمیں ”عطا“ کیا تھا؟…… ہرگز نہیں ……

ہم دلیل لاتے ہیں کہ پاکستان ہمیں خدا کی طرف سے ’عطا‘ ہوا تھا، انگریز کا اور ہمارا خدا ایک تھا، ایک ہے اور ایک رہے گا۔ انگریز نے خدا کی ”عطا“ ہمیں ”عطا“ کی اور یہاں سے نکل گیا۔ اس کے چلے جانے کے بعد ہم آزادی کی برکتوں سے ہمکنار ہوئے (اور ہو رہے ہیں) لیکن آزادی کی برکتوں سے غلامی کی لعنتیں شاید زیادہ اچھی تھیں۔ میرے بہت سے قارئین مجھ سے بالکل اتفاق نہیں کریں گے۔ لیکن بحث و تکرار تو ہماری سرشت میں لکھی ہوئی ہے۔ اس میں ہم دنیا بھر میں شاید نمبرون قوم ہیں۔ لیکن زمینی حقائق کیا ہیں؟…… چلئے اس قصے کو زیادہ طول دے کر میں آپ کی سمع خراشی اور خود کی جگر کاوی کرنا نہیں چاہتا۔

انگریز نے اگست 1947ء میں جو آرمی ہمیں دی تھی اس میں ہندو، مسلم،سکھ اور عیسائی کی وہ تمیز نہیں تھی جو بعد از قیامِ پاکستان ہم نے پیدا کرلی۔ ہماری آرمی خالصتاً مسلمان ہے اور انڈین آرمی خالصتاً ہندو (یا غیر مسلم) ہے اور دونوں اقوام ایک دوسرے کے خون کی پیاسی ہیں۔لیکن جو پاک آرمی ہمیں انگریز ورثے میں دے گیا تھا اس کے جوان اور آفیسرز ہندو مسلم ملک میں رہتے ہوئے ہندو مسلم دشمنی سے بیگانہء محض تھے۔ اس پر درجنوں کالم لکھے جا سکتے ہیں۔ میں یہاں چند مزید مثالیں دے کر یہ قصہ ختم کرتا ہوں۔ ہمیں ایک غیر سیاسی (Apolitical) آرمی کی اشد ضرورت ہے۔ یہ آرمی از سرتاپا  پروفیشنل اقدار و روایات کی حامل ہونی چاہیے۔ آپ ہندو یا سکھ آرمی سے لڑیں لیکن مسلم آرمی کی ان روایات کو زندہ رکھیں جو 800برس تک دنیا پر حکمرانی کرتی رہی۔

اگست1947ء میں میجر غنی 33اینٹی ٹینک رجمنٹ کی ایک اینٹی ٹینک بیٹری کمانڈ کررہا تھا۔ رجمنٹ امن و امان کے قیام کے لئے کوئٹہ سے ملتان آئی تھی۔

میجر غنی نے اپنا ہیڈکوارٹرز دنیا پور میں قائم کیا اور لودھراں، شجاع آباد اور میلسی میں آؤٹ پوسٹیں قائم کر دیں۔ایک دن تقریباً نصف درجن گھڑ سوار سکھ دنیا پور آئے۔ ان کا لیڈر ایک سابق فوجی تھا، اس نے غنی کو سلیوٹ کیا اور کہا: ”صاب! ہم اپنے گاؤں میں تو بالکل محفوظ ہیں۔ لیکن ہم باہر نہیں نکل سکتے اور ہمارے پاس کھانے پینے کو بھی کچھ نہیں“۔

غنی نے ان کو کہا کہ وہ اس کی بیٹری پوسٹ کے نزدیک آ جائیں جہاں ان کی حفاظت کی جائے گی۔غنی نے کچھ سولجر بھیجے جو سکھوں کے اہل خانہ کو وہاں لے آئے۔

ان کے انڈیا منتقل کرنے سے چند روز پہلے ایک مقامی مسلمان لیڈر غنی کے پاس آیا اور شکایت کی: ”اُدھر ہمارے آدمی سکھوں کے ہاتھوں ذبح کئے جا رہے ہیں اور اِدھر آپ ان کو یہاں مہمان بنا کر بیٹھے ہیں“۔

غنی نے جواب دیا: ”دیکھو! مجھے ایسے رضاکار مسلمان دے دوجو انڈیا جائیں اور اپنے مسلمان بھائیوں کا انتقام لیں …… اسلحہ اور بارود میں انہیں فراہم کروں گا“۔

اس کے بعد کوئی رضا کار سامنے نہ آیا اور نہ ہی اس کے بعد مسلمانوں کی طرف سے کوئی الزام تراشی سننے کو ملی!

دسمبر 1947ء میں کیپٹن انور قریشی (سگنلز) کو اس کے دوسرے عالمی جنگ کے ایام کے ایک دوست کیپٹن سری رام کا پیغام ملا۔ اس نے قریشی کو کہا کہ اس کی فیملی انڈیا بھیجی جائے۔ سری رام کی فیملی مظفرآباد میں تھی۔ کیپٹن انورقریشی نے مظفرآباد کے لوکل کمانڈر سے رابطہ کیا اور کہا کہ اس کے دوست کی فیملی کو راولپنڈی بھیج دیا جائے۔ دو دن بعد ایک ٹرک جس میں عورتیں اور بچے سوار تھے کشمیر ہوٹل راولپنڈی پہنچا جہاں قریشی رہ رہا تھا۔ قریشی ان سب کو میجر عبدالرحمن کے گھر لے گیا جہاں انہوں نے رات بھر قیام کیا۔ اگلی صبح قریشی نے سگنل کور کے ایک ٹرک کا بندوبست کیا، تمام عورتیں اور بچے اس میں لوڈ کئے اور لاہور آ گیا۔ لاہور میں ان کو انڈین ہائی کمشنر کے حوالے کر دیا گیا۔

ستمبر1947ء میں میجر محمد اسلم 7فیلڈ بیٹری کمانڈ کررہا تھا جو منڈی بہاؤ الدین میں امن و امان کے قیام کی ذمہ دار تھی۔ بعض مقامی لیڈر، اسلم کے پاس پہنچے اور چند غیر مسلم مکانوں کی تلاشی کی درخواست کی۔ اسلم نے ان کو وارننگ دی کہ اس کو غیر مسلموں کی زندگیوں اور ان کے اثاثوں کی حفاظت کا کام سونپا گیا ہے۔ اور اس کے بعد کہا: ”خواہ کچھ بھی ہو جائے میں یہ فریضہ پورا کروں گا!“

اس وارننگ کی پرواہ نہ کی گئی۔ ایک مسلح ہجوم اسلم اور اس کے چند سپاہیوں پر حملہ آور ہوا۔ اسلم اور اس کے سولجرز نے ہجوم پر فائرکھولا۔ چھ آدمی مارے گئے اور باقی بھاگ گئے۔

پولیس کی طرف سے اسلم پر الزام لگایا گیا کہ اس نے بے دریغ اور بے سوچے سمجھے فائر کیا اور کروایا ہے۔ اس کے کمانڈنگ آفیسر لیفٹیننٹ کرنل بدولف (Biddulph) نے انکوائری کی اور یہ رپورٹ کمانڈرانچیف جنرل میسروی تک جا پہنچی۔

کچھ دنوں بعد اسلم اور اس کے سولجرز کو جنرل میسروی کا خط موصول ہوا جس میں ان کی تعریف و توصیف کی گئی تھی…… خط (DO) یہ ہے:

ازطرف

جنرل سرفرانک میسروی

KCSI,KBE,CB,DSO

آرمی ہیڈکوارٹرز، پاکستان

راولپنڈی 

23ستمبر 1947ء

ڈیئر محمد اسلم

میں یہ خط آپ کو اور آپ کی بیٹری کو اس شاندار کارنامے پر لکھ رہا ہوں جو آپ نے یکم ستمبر کو منڈی بہاؤ الدین میں سرانجام دیا۔

مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ موجودہ سول افراتفری کی فضا میں پاکستانی ٹروپس کے لئے کہ جو مسلسل دباؤ کی صورتِ حال میں رہ رہے ہیں اپنے ہی مسلمانوں کے خلاف کوئی ایکشن لینا کتنا مشکل ہے اور یہ کام اور بھی مشکل ہو جاتا ہے جب یونٹیں اس طرح کی فضا کے باوجود اپنے فرائض کی انجام دہی میں ایسا مثالی مظاہرہ کریں۔

پاکستان کے مسقبل کے لئے یہ لازم ہے کہ موجودہ افراتفری اور کھلبلی کو جتنا جلد ممکن ہو بند کیا جائے۔ پولیس اس اضطراب انگیز فضا میں ایسی فرقہ آرائی میں ملوث ہو چکی ہے کہ وہ قابلِ اعتماد نہیں رہی۔اندریں حالات اگر فوج بھی فرقہ آرائی میں ملوث ہو جاتی ہے تو پاکستان کا پورا مستقبل داؤ پر لگ جائے گا۔

آپ اور آپ کی بیٹری نے یکم ستمبر کو ایک شاندار مثال قائم کی ہے اور میں بیٹری کے تمام رینکس کو ان کی اس کارکردگی پر مبارکباد دیتا ہوں اور اپنے فرض کی ادائیگی میں ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔

آپ کا مخلص

دستخط میسروی

میجر محمد اسلم ملٹری کراس

کمانڈنگ آفیسر سیکنڈ فیلڈ بیٹری

راولپنڈی

جنوری 1948ء میں لیفٹیننٹ کرنل گلزار 7/10بلوچ کی کمانڈ کررہا تھا۔ بٹالین ہیڈکوارٹرز اور اس کی دو کمپنیاں ملیر، کراچی میں مقیم تھیں۔

6جنوری 1948ء کو کرنل گلزار کو میجر جنرل اکبر خان، جنرل آفیسرکمانڈنگ 8ڈویژن کی طرف سے ایک کال موصول ہوئی۔ بعض سکھ پناہ گزینوں پر کہ جب وہ بندر روڈ کے نزدیک اپنے گردوارے کی طرف جا رہے تھے، حملہ کر دیا گیا۔7/10بلوچ فوراً موقع پر پہنچی۔گڑ بڑ کرنے والے جا چکے تھے۔ کرفیو نافذ کر دیا گیا۔ اگلے روز ایک گھنٹے کے لئے کرفیو اٹھا لیا گیا۔ گلزار کو اپنے ایک پیٹرول(گشتی دستہ) کی طرف سے اطلاع ملی کہ میونسپل بلڈنگ بازار میں چند فسادیوں نے ہنگامہ کھڑا کیا ہوا ہے۔گلزار نے دیکھا کہ بعض غنڈے دکانوں کو لوٹ رہے ہیں۔ اس نے تین غنڈوں پر گولی چلائی اور اس کے پیٹرول نے بھی ایسا ہی کیا……اس کے بعد ”ٹھنڈ“ پڑ گئی!

7/10بلوچ کی اس شاندار کارکردگی پر قائداعظم نے بھی خراج تحسین پیش کیا۔(ختم شد)

مزید :

رائے -کالم -