تبدیلی کی ہوا، اشرافیہ کے بجھتے چراغ

تبدیلی کی ہوا، اشرافیہ کے بجھتے چراغ
تبدیلی کی ہوا، اشرافیہ کے بجھتے چراغ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اب آصف علی زرداری نے یہ تو فرما دیا ہے کہ جب چیف جسٹس چھاپے ماریں گے تو ہم کیا کہہ سکتے ہیں،لیکن اس پرکوئی تبصرہ نہیں کیا کہ ایک قیدی ہسپتال میں عیش و عشرت والی زندگی کیسے گزار رہا تھا؟یہ رجحان بھی آصف علی زرداری ہی نے متعارف کرایا ہے کہ جب کوئی اپنا پکڑا جائے تو پہلی فرصت میں کسی ہسپتال پہنچا دیا جائے،جہاں وہ عیش کے ساتھ اپنا کڑا وقت گزار لے۔پہلے ڈاکٹر عاصم حسین اور اب شرجیل میمن کی بیماری کا ڈرامہ رنگے ہاتھوں بے نقاب ہوا ہے۔یہ ہماری اشرافیہ آخر قانون کے ساتھ کیسا کھلواڑ کر رہی ہے؟ لاکھوں قیدی جیلوں کے اندر بیماریوں کے ساتھ کسمپرسی کی زندگی گزارتے ہیں اور یہاں ہسپتالوں کو سب جیل قرار دے کر فائیو سٹار ہوٹلوں جیسی سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں۔اب کوئی بتائے کہ سندھ میں جہاں پیپلزپارٹی کی حکومت ہے، پولیس،انتظامیہ،جیلیں غرض سب کچھ اُس کی دسترس میں ہے۔

کون اِس فراڈ کو آشکار کرتا،جو بیماری کی آڑ میں شرجیل میمن نے کئی ماہ سے جاری رکھا ہوا تھا۔آصف علی زرداری ایک بڑے سیاسی رہنما ہیں،لیکن کیا اُن کا کام یہی رہ گیا ہے کہ وہ قوم کے لٹیروں کو بچاتے رہیں؟یہ شرجیل میمن جب عدالت میں پیشی پر آتے تھے، کیا کامیاب اداکاری کرتے تھے،لاٹھی کے ساتھ ایسے چلتے جیسے اُن کے لئے ایک ایک قدم اٹھانا دشوار ہو،مگر جب چیف جسٹس نے اُن کے کمرے میں جا کر چیک کیا تو وہ ہشاش بشاش اور ہرنی کی طرح فراٹے بھر رہے تھے،جس پر چیف جسٹس نے اُنہیں فوراً جیل بھجوانے کا حکم دیا۔اب کوئی بتائے کہ چیف جسٹس کے سوا ضیاء الدین ہسپتال میں کس کی مجال تھی کہ چھاپہ مارے اور یہ صریحاً فراڈ بے نقاب کرے۔پھر یک نہ شد دو شد کے مصداق وہاں سے شراب کی بوتلیں بھی مل گئیں،لیکن ڈھٹائی اور جھوٹ کی حد یہ ہے کہ سامنے ملنے والی چیز کو بھی جھٹلایا گیا۔اُن میں شہد اور زیتون کا تیل ہونے کی دہائی دی گئی،جبکہ اس سے پہلے شرجیل میمن چیف جسٹس کے پوچھنے پر کہہ چکے تھے کہ یہ بوتلیں اُن کی نہیں۔اگر وہ واقعی شہد اور تیل کی بوتلیں تھیں تو ان کے علم میں ہونی چاہئے تھیں۔


عید اور انتخابات کی وجہ سے چیف جسٹس ثاقب نثار عدالتی امور تک محدود ہو گئے تھے توکہا جانے لگا تھا کہ مسلم لیگ(ن) کی حکومت ختم ہونے کے بعد وہ بھی جوڈیشل ایکٹوازم کے اپنے فیصلے کو خیر باد کہہ گئے ہیں،مگر حالیہ دو تین واقعات نے ثابت کر دیا ہے کہ چیف جسٹس نہ صرف مستعد ہیں، بلکہ اُن کی آنکھیں اور کان بھی پوری طرح کھلے ہیں۔اگر کوئی سمجھتا ہے کہ چیف جسٹس ثاقب نثار نے اچانک کراچی کے ہسپتالوں کا دورہ کیا تو وہ احمق ہے،انہیں پوری طرح مخبری ہو چکی تھی کہ اربوں روپے لوٹنے والے ملزمان بیماری کا بہانہ بنا کر ہسپتالوں میں داخل ہیں اور آسائشوں بھری زندگی گزار رہے ہیں۔انہوں نے سندھ کے آئی جی جیل کو بُلا کر جب ضیاء الدین ہسپتال جانے کا حکم دیا تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ چیف جسٹس کیا کرنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے جس طرح شرجیل میمن کو، جو چھ ارب روپے کی لوٹ مار کے ملزم ہیں،موقع پر پکڑا اور اِس حقیقت کو سب کے سامنے کھول کر رکھ دیا کہ کس طرح ایک ملزم قانون کی دھجیاں اڑاتے ہوئے جھوٹ اور مکاری کے ساتھ بیماری کا لبادہ اوڑھ کر پُرآسائش زندگی گزار رہا ہے۔انہوں نے انور مجید اور اُن کے بیٹے کے ہسپتال میں داخل ہونے کا جائزہ بھی لیا۔انور مجید کمرے میں موجود تھے، اُن کے بیٹے زیر حراست ہونے کے باوجود اپنے کمرے سے غائب پائے گئے۔ یہ تو مُلک کے قانون کو موم کی ناک بنانے والی بات ہے،اس کا مطلب ہے اگر آپ نے اربوں روپیہ لوٹا ہے یا اس کی منی لانڈرنگ کی ہے تو آپ کو ایک دن کے لئے بھی کوئی جیل نہیں بھیج سکتا،وہاں تو صرف ہزاروں روپے چوری کرنے والے جاتے ہیں۔سندھ میں حکومت کس طرح ملزموں اور لٹیروں کی پشت پناہی کر رہی ہے، اس کی یہ دو مثالیں اِس شرمناک حقیقت کو واضح کرتی ہیں۔جو لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ ایسے چھاپے چیف جسٹس کا کام نہیں، وہ بتائیں کہ پھر ایسے چھاپے اور کون مار سکتا ہے۔


منہ زوری کا عالم یہ ہے کہ چیف جسٹس نے جب عدالتی عملے کو کمرہ سیل کرنے کے لئے دوبارہ ضیاء الدین ہسپتال بھیجا تو اُسے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، بڑی مشکل سے پولیس کے بعد عدالتی عملے کو کمرے تک رسائی ملی۔ سندھ کو تو یوں لگتا ہے آصف علی زرداری اپنے ڈیرے کی طرح چلا رہے ہیں، راؤ انوار پکڑا جاتا ہے تو اُسی کا گھر سب جیل بن جاتا ہے،اُس سے پہلے وہ کراچی میں کہاں روپوش رہتا ہے،پولیس جانتے بوجھتے ہوئے کیوں اُسے نہیں پکڑتی،اِس بارے میں کسے معلوم نہیں؟۔۔۔چیف جسٹس کے اقدامات اور فیصلوں کو مَیں نے اسی لئے ہمیشہ سراہا ہے کہ وہ گورننس کے خلاء کو پورا کرتے ہیں۔کراچی ہی میں انہوں نے عمران شاہ ایم پی اے کی طرف سے شہری کو تھپڑ مارنے کے ازخود نوٹس کا فیصلہ بھی کیا۔اس واقعہ میں پی ٹی آئی نے بھی تساہل سے کام نہیں لیا تھا اور عمران شاہ کی رکنیت معطل کرنے کے ساتھ ساتھ اُس پر پانچ لاکھ جرمانہ بھی کیا تھا،تاہم چیف جسٹس نے اسے ناکافی سمجھا اور عمران شاہ کو تیس لاکھ روپے ڈیم فنڈ میں جمع کرانے کا حکم دیا، ساتھ ہی عدالت میں متاثرہ شہری سے معافی مانگنے کے لئے بھی کہا۔ تحریک انصاف کی جانب سے چیف جسٹس کے فیصلے پر کوئی اعتراض نہیں کیا گیا۔چیف جسٹس نے ڈی پی او رضوان گوندل کے تبادلے کا بھی از خود نوٹس لے رکھا ہے۔دیکھا جائے تو چیف جسٹس کے اِن اقدامات سے مُلک میں قانون کی حکمرانی کا تصور قائم ہو رہا ہے۔


سیاسی اشرافیہ مُلک کو اپنی چراگاہ سمجھتی ہے، جھوٹ اور فریب کے ذریعے قانون سے بچنے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔ شرجیل میمن تو کراچی کے ہسپتال میں عیش کر رہے تھے، تاہم ایک اسحاق ڈار ہیں،جو لندن میں علاج کے نام پر مقیم ہیں، اُن کی ہنستے بستے اور چلتے پھرتے ویڈیوز آئے روز سامنے آتی ہیں، مگر وہ میڈیکل رپورٹ ایسی بھجواتے ہیں، جیسے بستر سے اُٹھ نہ سکتے ہوں۔یہ ہیں ہمارے لیڈر جنہیں ہم اپنا پورا مُلک اور مُلک کا خزانہ سونپ دیتے ہیں۔ انہوں نے کچھ نہیں کیا تو مُلک واپس آ کر قانون کا سامنا کرنا چاہئے، چونکہ دامن داغدار ہے،اِسی لئے روپوشی کو اپنا دفاع سمجھ لیا ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے پاکستان میں بہت کچھ بدل گیا ہے اور بہت کچھ بدل رہا ہے۔وہ طاقتور حلقے جو مُلک میں سیاہ و سفید کے مالک سمجھے جاتے تھے،اب اُن کے بُت ٹوٹ رہے ہیں،عوام کے اندر پیدا ہونے والا شعور اب ایسے ہر عمل کو بہا لے جائے گا جو اختیار،پیسے اور طاقت کی بنیاد پر کیا جاتا تھا،اب قانون کی حکمرانی ہوگی، تھپڑ مارنے والے طاقتور کو نتائج بھگتنا ہوں گے،اسی طرح جس نے مُلک کا خزانہ لوٹا ہے، اُسے بھی احتساب سے گزرنا ہو گا۔

تحریک انصاف کے جتنے بھی وزراء اور ارکانِ اسمبلی ہیں، وہ توگویا پُل صراط پر چل رہے ہیں، اُن کی ذرا سی لغزش بھی اُنہیں آسمان سے زمین پر پٹخ سکتی ہے۔ وزیراعظم عمران خان اُن میں سے کسی کو بچانے نہیں آئیں گے، بلکہ اُلٹا اُنہیں قانون کے شکنجے میں دیں گے۔اس کے اثرات دیگر جماعتوں کے ارکانِ اسمبلی پر بھی مرتب ہوں گے۔ سندھ میں بھی تبدیلی آنی چاہئے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ مُلک کے تین صوبوں اور مرکز میں قانون کی حکمرانی ہو اور سندھ میں لاقانونیت کا راج رہے۔یہ دوعملی اب نہیں چل سکتی۔ آصف علی زرداری خود بھی پیشیاں بھگت رہے ہیں،اِس سے اُنہیں اتنا اندازہ توہو جانا چاہئے کہ تبدیلی کی جو ہوا چل پڑی ہے، وہ ایسے تمام چراغ بجھا دے گی جو اپنا ہی گھر جلاتے ہیں۔

مزید :

رائے -کالم -