مہنگائی کی شرح میں نمایاں کمی
وفاقی ادارہ شماریات نے مہنگائی سے متعلق ماہانہ رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق اگست میں اِس کی شرح 9.64 فیصد رہی، پاکستان میں تقریباً تین سال بعد مہنگائی سنگل ڈیجٹ (ایک عدد) پر آئی ہے۔ رپورٹ کے جاری کردہ اعداد وشمار کے مطابق افراطِ زر کی شرح 34 ماہ کی کم ترین سطح پر آئی اور اکتوبر 2021ء کے بعد پہلی بار ملک میں افراطِ زر کی شرح سنگل ڈیجٹ ہوئی ہے، مئی 2023ء میں افراط زریعنی مہنگائی 38فیصد سالانہ کی شرح سے بڑھ رہی تھی۔ گزشتہ ماہ میں سالانہ بنیادوں پر کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) کے مطابق مہنگائی کی شرح 9.6 فیصد جبکہ رواں مالی سال کے پہلے دو ماہ (جولائی اور اگست) کے دوران اوسط مہنگائی 10.36 فیصد ریکارڈ کی گئی۔ یاد رہے کہ گزشتہ سال اگست میں مہنگائی کی شرح 27.4 فیصد تھی۔ وزیرِاعظم شہباز شریف نے پاکستان ادارہ شماریات کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں مہنگائی کی شرح 10 فیصد سے کم ہوجانے یعنی ڈبل سے سنگل ڈیجٹ پر آ جانے کی رپورٹ پر اظہارِ اطمینان کرتے ہوئے کہا کہ خادمِ پاکستان کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد عوام سے عہد کیا تھا کہ وہ اُن کی پریشانیاں کم کرنے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے، اللہ رب العزت کا کرم ہے کہ وہ اپنے عہد کی تکمیل کی طرف گامزن ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ مہنگائی کا کم ہونا معیشت میں بہتری کے حوالے سے حکومتی اقدامات کا عکاس ہے، ن لیگ نے اپنی سیاست کی قربانی دے کر ملکی معیشت کو دیوالیہ ہونے سے بچایا،اِس کا سہرا حکومتی معاشی ٹیم کو جاتا ہے جس کی محنت رنگ لا رہی ہے۔اُنہوں نے مزید کہا کہ معاشی ماہرین کی جانب سے ستمبر میں افراطِ زر کی شرح میں مزید کمی کی پیشگوئی قوم کیلئے بڑی خوشخبری ہے۔ شہباز شریف کا کہنا تھا کہ افراطِ زر میں کمی وزارت خزانہ کی”اکنامک آؤٹ لُک رپورٹ“ کی پیشگوئی کے عین مطابق ہے جس میں کہا گیا تھا کہ اگست 2024ء میں افراطِ زر کی شرح 9.5 سے 10.5 فیصد کے درمیان رہے گی۔ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ 2018ء میں مہنگائی کی شرح کو سنگل ڈیجٹ پر چھوڑ کر گئے تھے لیکن پھر چار سال میں مجرمانہ غفلت اور عوام دشمن پالیسیوں کی وجہ معیشت بد حالی کا شکار ہوئی اور مہنگائی میں ریکارڈ اضافہ ہوا، بس وہیں سے عوام کیلئے پریشانی کے دور کا آغاز ہوگیا۔ اْنہوں نے واضح کیا کہ عام آدمی کی زندگی کو آسان اور اُس کی معاشی خوشحالی یقینی بنائے بغیر پاکستان کی ترقی کے ہدف کا حصول ممکن نہیں ہے، اُن کی توجہ عام آدمی کو ریلیف دینے پر ہی ہے لیکن ابھی اْن کا کام مکمل نہیں ہوا، ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے تاہم ملک اب حقیقی ترقی کے راستے پر گامزن ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ فِچ کے بعد عالمی ریٹنگ ایجنسی“موڈیز”نے بھی حال ہی میں پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ کو اپ گریڈ کیا جو کہ بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی جانب سے ملک کے مثبت معاشی اشاریوں کا اعتراف ہے۔ واضح رہے کہ اگست 2023 میں اسی عرصے کے دوران افراط زر کی شرح 27.4 فیصد ریکارڈ کی گئی تھی جس کا مطلب ہے کہ پہلے مختلف اشیا کی قیمتوں میں 27 فیصد تک اضافہ ہو رہا تھا اور اب 9 فیصداضافہ ہو رہا ہے۔اِس کی بڑی وجہ ملک میں کسی حد معاشی استحکام اور عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں کا کم ہونا ہے۔ حکومت کو شرح سود میں بھی کمی لانے اور بجلی کی قیمت کم کرنے کی ضرورت ہے۔
گزشتہ چند سالوں سے مہنگائی نے پاکستانی عوام کا جینا دوبھر کر رکھا ہے،یہ توقع نہیں تھی کہ ملک میں افراطِ زر میں اتنی جلدی کمی آ سکے گی حتیٰ کہ ملک کے نامور معاشی ماہرین بھی مہنگائی میں کمی سے متعلق پُراعتماد نہیں تھے مگر گزشتہ روز مہنگائی میں نمایاں کمی کے اعلان نے عوام کے ساتھ ساتھ معاشی ماہرین کو بھی امید دلائی ہے۔ ملکی معیشت کی خستہ حالی جہاں بے جا قرض لینے سمیت دیگر کئی غلط معاشی فیصلوں کا نتیجہ ہے وہیں سیاسی عدم استحکام بھی اِس تنزلی کی ایک اہم وجہ ہے اور گزشتہ کئی دہائیوں سے ملک کی اہم پالیسیوں میں عدم تسلسل بھی پایا جا رہا تھا۔ المیہ یہ ہے کہ ہر آنے والی حکومت جانے والی حکومت کی پالیسیوں کو غلط ثابت کرنے،سیاسی بنیادوں پر ان کا خاتمہ کرنے اور نئی پالیسیاں بنانے میں جْتی رہی۔لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ حکمرانوں کو پالیسیوں میں تسلسل کی اہمیت کا احساس ہو گیا ہے، جو پالیساں دو سال قبل بنائی گئیں انہیں نگران حکومت نے جاری رکھا اور اب موجودہ حکومت بھی اْنہی پالیسیوں پرعمل پیراہے۔ اِس دوران انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) سے ریلیف پیکج لینے کے لیے کئی سخت فیصلے بھی لیے گئے۔ معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ آئندہ ہفتے میں مانیٹری پالیسی پیش کی جائے گی، اب اْمید کی جا سکتی ہے کہ حالیہ شرح سود میں نمایاں کمی کی جائے گی، افراطِ زرد میں ریکارڈ کمی کی وجہ سے شرح سود 15 فیصد تک آنے کا قوی امکان ہے۔اگر ایسا ہو گیا تو ملکی معیشت مستحکم ہو سکے گی، سرمایہ کاروں کے لیے فضا ساز گار ہو گی اور کاروباری مواقع پیدا ہوں گے۔ملک میں سستا سرمایہ ملنے سے صنعت اور کاروبار کے فروغ کی راہ ہموار ہو گی۔ ماہرین کے مطابق مہنگائی میں کمی نہ صرف عوام کو افراطِ زر کے مْضر اثرات سے بچانے میں مدد گار ثابت ہوتی ہے بلکہ اِس سے ملک میں قائم غیر یقینی کی صورتحال میں بھی بہتری آتی ہے اور لوگ سرمایہ کاری کے لیے متحرک ہوتے ہیں۔ سرمایہ کاری بڑھنے سے مستحکم مالیاتی نظام نمو پاتا ہے اور ملکی ترقی اور جی ڈی پی میں اضافہ ہوتا ہے۔
مسلم لیگ ن کا منشور تھا کہ اْن کی حکومت پانچ سال کے عرصے میں مہنگائی کو چار فیصد تک لائے گی، اْمید کی جانی چاہیے حکومت اِس ایجنڈے پر کاربند رہے گی اور پالیسیوں کے تسلسل کو یقینی بنائے گی، آمدن اور خرچے میں توازن قائم کرنے کی کوشش کرے گی، اگر حکومت ایسا کرنے میں کامیاب ہو گئی تو پاکستان میں معاشی سرگرمیاں فروغ پائیں گی، بین الاقوامی سرمایہ کار کے اعتماد میں اضافہ ہو گا اور وہ یہاں کا رخ کریں گے۔ ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ مہنگائی کے حالیہ اعداوشمار کے اثرات حقیقی معنوں میں عوام بھی محسوس کریں۔یہ اُسی صورت میں ممکن ہے کہ جب روزمرہ کے استعمال کی اشیاء کی قیمتوں میں کمی نظر آئے، ماضی کی طرح اگر قیمتوں میں کمی اْسی تناسب سے نہ ہوئی جیسی اعدادو شمار میں نظر آتی ہے تو عوام کو کسی قسم کا کوئی ریلیف نہیں ملے گا اور حکومت کو اُس کی کاوشوں کی داد ملنے کی اُمید بھی معدوم ہو جائے گی۔