وہ کون تھا ؟ایک خنّاس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 24ویں قسط

وہ کون تھا ؟ایک خنّاس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 24ویں قسط
وہ کون تھا ؟ایک خنّاس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 24ویں قسط

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ساری پیکنگ رخسانہ نے رات کو ہی کر لی۔ حوریہ نے کوئی خاص خوشی کا اظہار نہ کیا۔ رخسانہ کے کہنے پر اس نے بھی پیکنگ شروع کر دی۔ رخسانہ کپڑے اٹیچی کیس میں رکھتے ہوئے توقیر سے مخاطب ہوئی۔’’میں نے حوریہ سے کہا تھا کہ مجھے اپنے کپڑے نکال کے دے دو میں اٹیچی کیس میں رکھ لوں گی مگر وہ کہتی ہے کہ وہ اپنا بیگ الگ لے کر جائے گی۔‘‘
’’ٹھیک ہے اسے اس کی مرضی کرنے دو، کسی بھی معاملے میں اسے مجبور مت کرو۔‘‘ توقیر نے ریموٹ سے ٹی وی آن کرتے ہوئے کہا۔
’’دیکھ کر تو آؤں کہ کیا کیا رکھ رہی ہے۔‘‘ رخسانہ اٹیچی کیس کھلا چھوڑ کر حوریہ کے کمرے میں چلی گئی۔ حوریہ بیگ میں کپڑے رکھنے میں مصروف تھی۔

وہ کون تھا ؟ایک خنّاس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 23ویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
رخسانہ اس کے قریب آئی تو اس نے حیرت سے بیگ میں رکھے ہوئے کپڑوں کی طرف دیکھاا ور کپڑے اٹھا کے سارے کپڑے چیک کرنے لگی’’یہ کیا حوریہ! اسکرٹس اور پینٹ شرٹس، تم نے تو کہا تھا کہ یہ سارے کپڑے اٹھا کر باہر پھینک دیں، میں اس طرح کے کپڑے نہیں پہنچتی، تمہارے لیے میں نے بوتیک سے سادے مبلوسات منگوائے۔‘‘
حوریہ تیز ترار آواز میں بولی’’کون سے سادے ملبوسات، میں تو سکرٹس اور پینٹ شرٹ ہیی پہنتی ہوں۔‘‘
رخسانہ کی حیرت بڑھتی جا رہی تھی’’تم نے پانچ مختلف رنگوں کے سکارف منگوائے تھے جو تم دوپٹے کے ساتھ اوڑھتی تھی۔‘‘
حوریہ دونوں ہاتھوں کو جھٹکتے ہوئے چڑ کر بولی’’What Rubishمیں اور سکارف اوڑھوں گی۔‘‘
’’حوریہ تمہاری مرضی۔۔۔بس اتنا بتا دو کہ میری مدد کی ضرورت ہے۔‘‘ رخسانہ نے بات ختم کرنے کی کوشش کی۔
حوریہ نے ہینگر سے کپڑے اتارتے ہوئے کہا’’آپ اپنی اور پاپا کی پیکنگ کریں میں اپنی ضرورت کی تمام چیزیں رکھ لوں گی۔‘‘
یہ سن کر رخسانہ خاموشی سے وہاں سے چلی گئی۔ جب حوریہ سو گئی تو رخسانہ نے چپکے سے الماری سے اس کے سارے ملبوسات اٹھا لیے اور اپنے بیگ میں ڈال لیے۔ جمعہ کی صبح ظفر اور ساحل حوریہ کے گھر پہنچ گئے۔ تقریباً سات بجے دونوں گاڑیاں کوٹھی سے باہر نکلیں۔ ایک گاڑی میں توقیر رخسانہ اور حوریہ سوار تھے اور دوسری گاڑی میں ظفر ماریہ اور ساحل سوار تھے۔
پر خطر اور پرمزہ پانچ گھنٹے کے سفر کے بعد وہ لوگ مری پہنچ گئے۔ انہوں نے ہوٹل میں کمرہ لینے کے بجائے نتھیا گلی میں دو فلیٹ دو ہفتے کے لیے رینٹ پر لے لیے۔ ان دونوں فلیٹس میں ہر طرح کی سہولت موجود تھی۔ سب سے اچھی بات تو یہ تھی کہ یہ دونوں فلیٹس بلند ترین چوٹی پر تھے جہاں سے نیچے کے مناظر بہت خوبصورت دکھائی دیتے تھے۔
دونوں فیملیز اپنا اپنا سامان اٹھائے اپنے اپنے فلیٹس میں چلی گئیں۔ دوپہر کا کھانا تو انہوں نے ہوٹل سے کھا لیا تھا۔ ماریہ اور رخسانہ نے اپنے اپنے کچن میں چائے بنائی اور سب باہر لان میں دراز ہوگئے۔ پھولوں سے سجے اس لان میں تین جگہ چھ چھ کرسیوں کے سیٹ رکھے گئے تھے۔ لان کے چاروں طرف لوہے کی خوبصورت گرل تھی۔ جہاں سے اطراف کے نظارے دیکھے جا سکتے تھے۔
نشیبی پہاڑوں پر خوبصورت آبادی تو یوں دکھائی دیتی تھی جیسے ہم ہیلی کاپٹر سے آسمان کی بلندیوں سے نیچے جھانک رہے ہیں۔ ان پہاڑی علاقوں میں ان کے بعد دیکھنے والی آنکھ سے لے کر ذہن میں بکھری سوچوں کا انداز یکسر بدل جاتا ہے۔ کبھی ہم اپنے کھوئے ہوئے وجود کو پا لیتے ہیں اور کبھی اپنے موجود وجود کو ہی کہیں کھو دیتے ہیں۔
معاشرتی مسائل کی ہمارے گرد بڑی بڑی سلاخیں ان بادلوں میں کہیں غائب ہو جاتی ہیں اور ہم کسی مست پنچھی کی طرح ان بادلوں کے قریب قریب اڑنے لگتے ہیں۔ ظفر نے مسکراتے ہوئے توقیر کی طرف دیکھا’’یار یہ دو دو کچن کا مزہ نہیں ہے ہم ایک ہی جگہ پکاتے اور مل کر کھاتے ہیں۔‘‘
رخسانہ نے توقیر کی جگہ جواب دیا۔’’ظفر بھائی! بے شک دو کچن ہوں ہم ہی کھائیں پئیں گے۔‘‘
رخسانہ کی اس بات پر سب کھکھلا کے ہنس پڑے۔ مگر حوریہ سب باتوں سے بے نیاز خاموشی سے چائے پی رہی تھی۔
ساحل ہاتھ میں چائے کا کپ لیے خاموشی سے حوریہ کی طرف مسلسل دیکھ رہا تھا۔ وشاء کی سہیلی ہونے کی وجہ سے وہ حوریہ سے کوئی بار ملا تھا مگر جس حوریہ کو وہ اب دیکھ رہا تھا وہ حوریہ جیسے کوئی اور تھی۔
حوریہ اپنے والدین اور دوسروں کی باتوں سے بور سی ہو کر وہاں سے اٹھ گئی اور اپنی چائے لے کر گرل کے قریب جا کر کھڑی ہوگئی۔ جہاں سے اردگرد کا نظارہ بہت خوبصورت دکھائی دے رہا تھا۔ ساحل بھی حوریہ کے ساتھ کھڑا ہوگیا۔ ساحل نے اردگرد کے نظاروں کی ٹھنڈک جیسے اپنی آنکھوں میں بھرلی۔
’’ان خوبصورت نظاروں کو دیکھ کر سفرکی ساری تھکان دور ہو جاتی ہے۔‘‘
حوریہ نے طنزیہ نگاہوں سے ساحل کی طرف دیکھا’’دلفریب نظارے تو حساس لوگوں کو متاثر کرتے ہیں پتھروں نے ان کی دلکشی کو کب سے محسوس کرنا شروع کر دیا۔‘‘
ساحل نے سوالیہ نظروں سے حوریہ کی طرف دیکھا’’ایسا کیوں کہہ رہی ہو۔۔۔‘‘
حوریہ نے ہنستے ہوئے بات گول کر دی’’مذاق کر رہی ہوں۔ میں تو کسی کے بارے میں بھی نہیں جانتی۔ اچھا ہی ہوا میری یادداشت چلی گئی۔ میری زندگی میں یاد رکھنے کے لیے کچھ اچھا تھا ہی نہیں۔‘‘
چند لمحوں کے لیے تو ساحل کو یوں لگا کہ حوریہ بالکل ٹھیک ہے وہ سب کو بیوقوف بنا رہی ہے۔ ساحل نے حوریہ سے کہا’’کاش تم مجھے وشاء کے بارے میں بتا سکتی۔‘‘
حوریہ نے ایک بار پھر ساحل کو تمسخرانہ انداز میں دیکھا’’تھوڑا سا تو میں بتا سکتی ہوں وشاء کے بارے میں۔‘‘
’’کیا۔۔۔بتاؤ۔۔۔‘‘ ساحل تذبذب سی کیفیت میں بولا۔
حوریہ تصورانہ انداز میں آنکھوں کو فضا میں گھمانے لگی۔’’وہ بہت مزے میں ہے پہلے سے خوبصورت ہے۔ اس کے پروں میں اتنے خوبصورت رنگ ہیں کہ انسان ان میں کھو جاتا ہے۔ تم بھی بچ کر رہنا نظر آنے والے خوبصورت رنگ کب خون کے رنگ میں بدل جاتے ہیں پتہ ہی نہیں چلتا۔‘‘
ساحل من ہی من میں سوچنے لگا۔’’آنٹی ٹھیک کہتی ہیں حوریہ کی دماغی حالت ٹھیک نہیں ہے۔ دل میں ایک امید جاگی تھی مگر یہ تو میرے جذبات کا مذاق اڑا رہی ہے۔‘‘
حوریہ نے ساحل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں۔’’میں تمہارے جذبات کا مذاق نہیں اڑا رہی سچ کہہ رہی ہوں۔‘‘
ساحل کے تو جیسے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔’’حوریہ نے اس کا ذہن کیسے پڑھ لیا۔‘‘
ظفر بھی اٹھ کر ساحل کے قریب آگیا۔ ’’بھئی کیا باتیں ہو رہی ہیں۔‘‘
حوریہ کوئی جواب دیئے بغیر وہاں سے چلی گئی۔ ساحل بھی سکتے کی سی کیفیت میں خاموش کھڑا تھا۔ ظفر نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھا’’تم سے بات کر رہا ہوں کہاں کھو گئے ہو۔‘‘
ساحل نے ظفر کی طرف دیکھا’’انکل حوریہ میں کچھ ایسا ہے جو ہم سمجھ نہیں پا رہے۔‘‘
’’کیا مطلب۔۔۔؟‘‘
’’وہ ہم سے کچھ چھپا رہی ہے جس طرح کی باتیں اس نے مجھ سے کیں مجھے لگتا ہے کہ کوئی بہت بڑا راز ہے۔‘‘
’’ایسا کیا کہہ دیا حوریہ نے ۔۔۔‘‘ ظفر نے پوچھا ساحل نے ظفر کو ساری بات بتائی اور بے چینی سے اپنے ہاتھوں کو حرکت دینے لگا۔
’’اس نے میرا ذہن پڑھا، یہ ٹیلی پیتھی ہے یہ عمل یا تو کوئی ذہین انسان کر سکتا ہے یا پھر کوئی روح جوہمارے جسم کے آر پار جا کے ہماری سوچیں پڑھ لے۔‘‘
ظفرنے بے یقینی کی کیفیت میں کہا’’یہ محض اتفاق بھی تو ہو سکتا ہے۔۔۔پھر بھی تم حوریہ کے ساتھ زیادہ وقت گزارو۔ اس نے پہلی بار کسی سے باتیں کی ہیں۔ اس طرح ہمیں اس کی ذہنی حالت کا بھی اندازہ ہو جائے گا۔‘‘
ظفر جا کے دوسرے لوگوں کے ساتھ بیٹھ گیا۔ مگر ساحل ادھر ہی کھڑا سوچ میں ڈوب گیا کچھ دیر گپ شپ کے بعد سب آرام کے لیے اپنے اپنے فلیٹس میں چلے گئے۔ سفر کی تھکاوٹ تھی کچھ دیر آرام بہت ضروری تھا۔ عصر کی نماز کے بعد سب دوبارہ باہر آگئے۔ سب نے جوگرز پہنے ہوئے تھے ان کا واک پر جانے کا پروگرام تھا۔
شام کے وقت سردی بڑھ رہی تھی اس لی سب نے گرم کپڑے زیب تن کیے ہوئے تھے۔ جیکٹس اور جرسیاں بھی پہنی ہوئی تھیں حوریہ نے خوبصورت فراک کے اوپر کوٹ پہنا ہوا تھا اور اوپر گرم شال اوڑھ لی تھی۔ وہ سب لان سے باہر نکل ہی رہے تھے کہ چلتے چلتے رک گئے۔
ان کے فلیٹ کے ساتھ والے فلیٹ کے قریب ایک گاڑی کھڑی تھی۔ ایک لڑکا اور لڑکی اس میں اپنا سامان نکال رہے تھے۔ شاید وہ نوبیاہتا جوڑا تھا۔ دبلی پتلی لڑکی نے ان کی طرف دیکھا تو مسکرا دی۔ رخسانہ اور ماریہ نے بھی مسکراتے ہوئے ہاتھ سے ہلیو کا اشارہ کیا اور پھر وہ لوگ واک کے لیے نکل گئے۔
’’یہ لوگ بھی ہماری طرح آج ہی آئے ہیں۔ ان سے بھی گپ شپ لگائیں گے۔‘‘ رخسانہ نے ماریہ سے کہا۔
ظفر کو فوراً موقع مل گیا’’توبہ ہے یہ عورتیں گپیں مارنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتیں۔‘‘
ماریہ نے فوراً جواب دیا’’اور آپ خوایتن کو ٹوکنے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔‘‘ توقیر نے ظفر کا ہاتھ کھینچا۔’’آگے بھی دیکھو یار! کسی کھائی میں نہ گر جانا۔‘‘
سب سے پیچھے رخسانہ اور ماریہ تھیں ان سے آگے ظفر اور توقیر تھے اور سب سے آگے ساحل اور حوریہ تھی۔اب سڑک پر چڑھائیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا سب کا سانس پھولنے لگا تھا۔ قریب ہی درختوں کے وہ ٹھہر گئے۔
’’تھوڑا سا اور آگے جائیں گے اور پھر واپس چلیں گے کیونکہ اندھیرا ہو جائے گا۔ کل صبح ان شاء اللہ اپنی اپنی گاڑیوں پر سیر کے لیے نکلیں گے۔ جو کچھ ساتھ لے کر جانا ہے میرا مطلب ہے کھانے پینے کی اشیاء کی تیاری رات کو ہی کر لینا۔‘‘ توقیر نے رخسانہ سے کہا۔
کچھ دیر کے بعد وہ سب دوبارہ واک کے لیے چل پڑے اور جب واپس فلیٹ تک پہنچے تو اندھیرا ہو چکا تھا۔
’’ماریہ! ہم دونوں نئے پڑوسیوں سے مل کر آتے ہیں۔‘‘ رخسانہ نے ماریہ سے کہا۔
ماریہ نے حوریہ سے پوچھا۔’’تم آؤ گی ہمارے ساتھ؟‘‘
’’نہیں میرا موڈ نہیں۔‘‘ حوریہ نے جواب دیا۔ ماریہ اور رخسانہ دروازے سے باہر جانے لگیں تو ساحل ان کی طرف بڑھا۔
’’میں بھی آپ کے چلتا ہوں‘‘ وہ تینوں ساتھ والے فلیٹ میں گئے تو دونوں میاں بیوی ان کی آمد پر خوش ہوئے۔
’’میں بھی آپ کے ساتھ چلتا ہوں۔‘‘ وہ تینوں ساتھ والے فلیٹ میں گئے تو دونوں میاں بیوی ان کی آمد پر خوش ہوئے۔(جاری ہے )

وہ کون تھا ؟ایک خنّاس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 25ویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں