وہ کون تھا ؟ایک خنّاس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 23ویں قسط

وہ کون تھا ؟ایک خنّاس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 23ویں قسط
وہ کون تھا ؟ایک خنّاس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 23ویں قسط

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

رخسانہ نے اسے اس کے بیڈ پر بٹھایا۔’’تم آرام کرو، میں تمہارے لیے کچھ کھانے کے لیے لاتی ہوں۔‘‘ رخسانہ حوریہ کے لیے کچھ کھانے کے لیے لینے چلی گئی۔ توقیر، حوریہ کے پاس آیا۔ بیٹی کو اپنے گھر دیکھ کر اس کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں تھا۔
وہ حوریہ کے قریب بیٹھ گیا اوراس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا’’میرے گھر کی خوشیاں لوٹ آئی ہیں تم نہیں جانتی کہ تمہارے بغیر ایک سال ہم نے کیسے گزارا کیسے کیسے خدشات دل میں لے کر ہم انگاروں پر چلتے رہے۔ تم ہماری اکلوتی بیٹی ہو۔ تمہیں آہستہ آہستہ سب یاد آجائے گا۔‘‘
حوریہ جذبات سے عاری سرد آنکھوں سے توقیر کی طرف دیکھتی رہی پھر اس نے توقیر کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔’’جب یاد آئے گا تب دیکھا جائے گا۔ ابھی یہ زبردستی کی محبت مجھ پر مسلط نہ کریں۔‘‘

وہ کون تھا ؟ایک خنّاس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 22ویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
توقیر سکتے کی سی کیفیت میں کھڑا ہوگیا۔ ایک بار تو دل نے یہ کہا کہ یہ لڑکی اس کی حوریہ نہیں ہوسکتی۔ پھر لیڈی ڈاکٹر کی بات یاد آئی کہ حوریہ کو ایک ذہنی مریض کی طرح ٹریٹ کریں۔ اس نے خود کو سنبھالا اور کمرے سے باہر چلا گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد رخسانہ اس کے لیے کچھ کھانے کے لیے لے آئی۔
رخسانہ نے ٹرے میں کچھ پھل اور سوپ رکھا ہوا تھا۔ رخسانہ نے پھل سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیئے اور سوپ لے کر حوریہ کے قریب بیٹھ گئی۔ اس نے چمچ میں سوپ لیا اور حوریہ کے منہ کے قریب لے کر آئی۔
حوریہ نے اپنے ہاتھ سے چمچ پیچھے کر دیا’’پلیز آنٹی مجھے بچے کی طرح ڈیل مت کریں۔ آپ یہ سوپ رکھ کے چلی جائیں میں پی لوں گی۔‘‘ آنٹی کا لفظ سن کر رخسانہ کی آنکھیں بھر آئیں۔
’’ٹھیک ہے بیٹی! میرے ہاتھ سے سوپ نہیں پینا نہ پیو مگر مجھے آنٹی مت کہو میں تمہاری مما ہوں۔‘‘ رخسانہ نے انتہائی پیار سے کہا۔
’’سوری! کوشش کروں گی یہ غلطی دوبارہ نہ ہو۔‘‘ حوریہ نے آنکھیں جھکاتے ہوئے کہا۔ 
رخسانہ نے اس کے سر پر پیار دیا اور کمرے سے باہر آگئی۔
حوریہ کے ملنے کی خبر نے وشاء ، فواد اور خیام کے گھر والوں میں افراتفری کا ماحول پیدا کر دیا۔ امید کی ایک لہر نے ان کے دلوں میں ہلچل مچا دی۔ مگر اس خبر نے انہیں ایک بار پھر اداس کر دیا کہ حوریہ اپنی یادداشت کھو چکی ہے۔ وہ سب حوریہ سے ملنا چاہتے تھے مگر توقیر اور رخسانہ نے انہیں کہا تھا کہ جب حوریہ گھر آجائے گی اس وقت وہ اس سے مل لیں۔
اتوار کے روز ظفر، وقار احمد، ایمن، زبیر اور ماہین رخسانہ کے گھر آئے۔ توقیر نے ان سب کو مہمان خانہ میں بٹھایا۔ رخسانہ ان سب سے ملی اور پھر کچن میں جا کے چائے کے اہتمام میں مصروف ہوگئی۔ رخسانہ کا چہرہ خوشی سے دمک رہا تھا۔ دیکھنے میں بھی کافی چست لگ رہی تھی۔
ایمن نے توقیر کی طرف دیکھا’’توقیر بھائی ! بیٹی کے آتے ہی رخسانہ کیسے کھل اٹھی ہے۔ اولاد میں تو جان پھنسی ہوتی ہے ہمارے لیے بھی دعا کریں کہ ہماری اذیتیں بھی تم ہو جائیں۔‘‘
توقیر احمد نے پر امید لہجے میں کہا’’کیوں نہیں بہن! خدا کے گھرمیں دیر ہے اندھیر نہیں۔ جس طرح ہماری حوریہ لوٹ آئی ہے اسی طرح خیام، وشاء اور فواد بھی لوٹ آئیں گے۔ حوریہ کے زندہ سلامت ملنے کا یہی مطلب ہے کہ وہ تینوں بھی کہیں روپوش ہیں ہوسکتا ہے کہ وہ خود ہی گھر نہ آنا چاہتے ہوں یا کہیں پھنسے ہوئے ہوں کچھ بھی ہو سکتا ہے ہمیں اپنی تلاش جاری رکھنی چاہئے۔‘‘
ظفر جو سر جھکائے خاموشی سے سب کچھ سن رہا تھا، تھکے تھکے لہجے میں بولا’’خدا کا شکر ہے کہ حوریہ آپ کو زندہ سلامت مل گئی۔ میرے من میں طرح طرح کے خدشات جیسے پھن پھیلائے بیٹھے ہیں جوں جوں وقت گزرتا جا رہا ہے امید بھی ٹوٹتی جا رہی ہے۔‘‘
ظفر کی اس بات پر زبیر نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھا’’مایوسی کی باتیں مت کرو۔ڈاکٹر نے امید دلائی ہے کہ حوریہ کی یادداشت بہت جلد واپس آسکتی ہے کیونکہ اس کی ذہنی حالت نارمل ہے۔ اس کی یہ حالت کسی حادثے کا نتیجہ ہو سکتی ہے۔ جونہی حوریہ کی یادداشت واپس آئے گی تو وہ بتا سکتی ہے کہ اس کے دوست فواد ، خیام اور وشاء کہاں ہیں۔ امید کی اس کرن نے ہم سب میں حوصلہ پیدا کر دیا ہے۔‘‘
ماہین نے صوفے سے اٹھتے ہوئے کہا’’حوریہ سے اسکے کمرے میں مل لیتے ہیں۔‘‘
توقیر فوراً کھڑا ہوگیا’’آپ ادھر ہی بیٹھیں ، حوریہ کو میں بلا کے لاتا ہوں۔‘‘
توقیر کے جانے کے ساتھ ہی رخسانہ چائے لے کر آگئی اس نے سب کو چائے پیش کی۔ ایمن نے رخسانہ کا ہاتھ پکڑکر اپنے پاس بٹھا لیا’’چھوڑو یہ تکلفات ادھر ہمارے پاس بیٹھو، بیٹی کی واپس مبارک ہو، یہ سب تمہاری دعاؤں کا نتیجہ ہے۔‘‘
رخسانہ نے مسکراتے ہوئے ایمن کی طرف دیکھا۔’’خدا کا فضل ہے میں خوش تو بہت ہوں مگر ۔۔۔‘‘
’’مگر کیا۔۔۔؟‘‘ ایمن نے پوچھا۔
اتنی دیر میں حوریہ توقیر کے ساتھ کمرے میں داخل ہوئی۔ حوریہ کو سب تو دیکھتے ہی رہ گئے۔ اس نے انتہائی سادہ لباس زیب تن کیا ہوا تھا بڑے دوپٹے کے ساتھ اس نے سکارف سے اپنے سر کو اس طرح ڈھانپا ہوا تھا کہ اس کا ایک بھی بال نہیں دکھائی دے رہا تھا۔ اس نے انتہائی احترام سے سب کو سلام کیا اور ایمن اور ماہین کے پاس بیٹھ گئی۔
ایمن اور ماہین نے آنکھوں آنکھوں میں رخسانہ کو اشارتا کہا کہ حوریہ کی شخصیت تو بالکل بدل گئی ہے۔ حوریہ وہ حوریہ نہیں رہی اس کا یہ روپ بالکل نیا ہے۔ رخسانہ نے اسے سب سے ملوایا اور اسے اس کے دوستوں کے بارے میں بھی بتایا مگر وہ ہر بات سے انجان تھی۔ وہ انتہائی شائستگی سے سب سے باتیں کرتی رہی پھر جونہی عصر کا وقت ہوا وہ نماز کے لیے وہاں سے چلی گئی۔
ایمن نے حیرت میں ڈوبے ہوئے لہجے میں کہا’’حوریہ کو توکچھ بھی یاد نہیں اس کے ذہن مین تو اس کے اپنوں کی دوستوں کی دھندلی تصویریں بھی نہیں ہیں۔ اس کی یادداشت گم ہوگئی ہے یہ تو مانتے ہیں مگر حوریہ کی شخصیت میں یہ بدلاؤ کیسے۔۔۔‘‘
رخسانہ کی پیشانی پہ سوچ کی لکیریں نمایاں ہوگئیں۔ وہ تذبذب کی سی کیفیت میں بولی’’میں خود بہت الجھی ہوئی ہوں۔ حوریہ کا یہ روپ میں خود آج پہلی بار دیکھ رہی ہوں۔ میرے اور توقیر کے ساتھ حوریہ کا برتاؤ ناقابل برداشت تھا۔ وہ جب سے گھر آئی ہے کچھی کھچی سی ہے۔ بات بات پر غصہ کرنا، کمرے میں تنہا بند رہنا اور آج اس طرح ایک دم بدل جانا۔ جو کچھ حوریہ کوپسند تھا اسے وہ سب پسند نہیں۔ ایسا لگتاہے جیسے چہرہ حوریہ کا ہے اور وہ کوئی اور ہے۔‘‘
توقیر جو ظفر کے ساتھ بیٹھا تھا، رخسانہ سے مخاطب ہوا’’تم جانتی ہونا کہ حوریہ اس وقت ایک ذہنی مریض ہے جب تک وہ مکمل ٹھیک نہیں ہو جاتی تم اس کی عادات و اطوار اس کی حرکات کا اتنا نوٹس مت لو۔ ٹھیک ہے اس پر نظر رکھو مگر خود پریشان مت ہو اسے ذہنی مریض کی طرح ڈیل کرو کہ ہمیں اس کا علاج کرنا ہے۔ ڈاکٹر نے کیا کہا تھا ذہن میں رکھو۔ ڈاکٹر نے کہا تھا کہ حوریہ کو اب ادویات کی ضرورت نہیں اسے ہماری ضرورت ہے۔ اسے وہ واقعات یاد دلائیں جو اس کی زندگی میں اہم تھے۔ ان مقامات پر اسے لے جایا جائے جو اسے پسند تھے۔‘‘
ماہین، توقیر کی طرف متوجہ ہوئی’’میرے خیال میں اسے اس کی یونیورسٹی کو بھی Visitکروانا چاہئے اور مجھے یاد پڑتا ہے کہ رخسانہ نے بتایا تھا کہ چھٹیوں میں وہ پہاڑی علاقوں میں جانے کی ضد کرتی تھی۔‘‘
رخسانہ نے بے چینی سے اپنے ہاتھوں کو ہلایا’’پہاڑی علاقوں سے وحشت ہونے لگی ہے اس حادثہ کے بعد۔۔۔‘‘
توقیر نے رخسانہ کی بات کاٹ دی۔’’میرے خیال میں ماہین ٹھیک کہہ رہی ہے۔ تم اس حادثہ کو بھول جاؤ۔ پہاڑی علاقے میں جانے سے حوریہ کو اچھا ماحول بھی ملے گا اور اس کا دل بھی خوش ہو جائے گا۔‘‘
’’اگر اس نے پھر کوئی ایسی ویسی حرکت کر دی تو ۔۔۔‘‘ رخسانہ نے پریشانی سے بھنویں سکیڑتے ہوئے کہا۔
ایمن نے رخسانہ کے ہاتھ پر ہاتھ رکھا’’وہم نہ کرو ہم میں سے کوئی تم لوگوں کے ساتھ چلا جائے گا تم حوریہ کو تنہا مت چھوڑنا۔‘‘
ظفر نے ایمن کی بات سنتے ہی توقیر کا کندھا تھپتھپایا۔’’یار تم پروگرام بناؤ میں اور ماریہ تمہارے ساتھ چلیں گے۔‘‘
توقیر نے مسکراتے ہوئے جواب دیا’’چلو پھر ٹھیک ہے پروگرام بناتے ہیں باقی رہی میری بیگم کی بات تو اسے میں منا لوں گا۔‘‘
ماہین جو کافی دیر سے خاموش بیٹھی تھی بولی’’حوریہ کی صحت کے ساتھ ہماری بھی امیدیں جڑی ہیں ہمیں بھی اپنے بچوں کا پتہ چل جائے کہ وہ کہاں ہیں کس حال میں ہیں۔‘‘
رخسانہ نے اسے حوصلہ دیا’’ہمت رکھو جس طرح خدا نے ہم پر کرم کیا ہے اسی طرح وہ تمہیں بھی تمہارے بیٹے سے ضرور ملوائے گا۔ پھر میں تمہارے گھر آؤں گی مبارکباد دینے۔‘‘
ماہین نے سر جھکائے مایوسی بھرے لہجے میں کہا’’خدا کرے کہ ایسا ہو۔‘‘
توقیر نے ڈاکٹر سے حوریہ کو پہاڑی علاقے میں لے جانے کی اجازت لی۔ ظفر اور ماریہ کے ساتھ ساحل نے بھی ان کے ساتھ پہاڑی علاقے میں جانے کا پروگرام بنا لیا۔ توقیر اور رخسانہ نے جمعہ کی صبح روانہ ہونے کا ارادہ کیا۔(جاری ہے)

وہ کون تھا ؟ایک خنّاس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 24ویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں