وہ کون تھا ؟ایک خنّاس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 22ویں قسط

وہ کون تھا ؟ایک خنّاس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 22ویں قسط
وہ کون تھا ؟ایک خنّاس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 22ویں قسط

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

زرغام ایک ایسی ہی خستہ حال قبر کے قریب رک گیا اس نے سیاہ شاپر سے ایک روئی کی بنی ہوئی گڑیا نکالی اور زمین پر آلتی پالتی مار کے بیٹھ گیا۔ اسنے کھرپے کی مدد سے خستہ حال قبر کے پاس تھوڑی سی زمین کھودی اور اس گڑیا کو زمین میں اس طرح دفن کیا کہ اس کا سر باہر رہ گیا باقی دھڑ مٹی میں دفن ہوگیا۔ اس نے لوہے کی ایک پن لی اور اس گڑیا کے ماتھے پر گھسیڑ دی۔ اس عمل کے بعد وہ آنکھیں بند کرکے کچھ پڑھنے لگا کچھ دیر بعد اس نے آنکھیں کھولیں۔ اس نے گڑیا پر پھونکا اور اس کے اون سے بنے ہوئے بالوں کو آپس میں گرہ لگا دی۔ اورپھر بھیانک انداز سے مسکراتا ہوا وہاں سے اٹھ گیا۔

یوٹیوب چینل سبسکرائب کرنے کیلئے یہاں کلک کریں
وہ تیز قدم پھلانگتا ہوا قبرستان سے باہر نکلنے لگا جیسے اس خاص عمل کے بعد قبرستان سے باہر نکلنے کا وقت اس کے پاس بہت کم ہے۔ اس نے کئی قبروں کو اپنے پیروں تلے روند دیا۔ وہ برقی سرعت سے قبرستان سے باہر نکلااور پھر اپنی گاڑی میں سوار ہو کے جلد از جلد اس علاقے سے باہر نکل گیا۔

وہ کون تھا ؟ایک خنّاس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 21ویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
***
رخسانہ اور توقیر نے صبح اٹھ کر فجر کی نماز ادا کی اور پھر وہ دونوں چہل قدمی کے لیے نکل گئے۔وینا کی منگنی میں ہونے والے واقعے کی خبر ان دونوں تک بھی پہنچ گئی تھی۔ وہ واک کرتے ہوئے اسی موضوع پر بات کر رہے تھے۔
’’جو کچھ مجھے ایمن نے بتایا وہ سب کیسے ہو سکتا ہے۔‘‘ رخسانہ نے توقیر سے پوچھا۔ توقیر جو گنگ کرتاہوا ایک لحظہ کے لیے ٹھہر گیا اور لمبے لمبے سانس لینے گا۔
’’کبھی کبھی خدشات ہمارے شعور پر حاوی ہو جاتے ہیں اور ہمیں وہی کچھ دکھائی دیتا ہے جس سے ہم ڈرتے ہیں۔ وینا کو ڈر تھا کہ وہ کبھی فواد کی جیون ساتھی نہ بنے کیونکہ وہ فواد کو پسند ہی نہیں کرتی تھی اس کا خدشہ فواد بن کر اس کے سامنے کھڑا ہوگیا اور ایمن کی دیرینہ خواہش کہ فواد اس کا خریدا ہوا جوڑا پہنے حقیقت کا روپ دھار گئی۔ یہ سب سائیکالوجی ہے اور کچھ بھی نہیں۔‘‘
رخسانہ نے توقیر کی طرف گہری نظر سے دیکھا’’کتنی آسانی سے تم نے ان سب کو انسانی نفسیات کانام دے دیا۔ دل دماغ جسم یہ سب جس کے بغیر بے معنی ہیں وہ ہے روح ۔ جسے ربّ گوشت کے اس پتلے میں پھونکتا ہے۔ روح جو جسم کے مردہ ہوتے ہی احساسات جذبات شعور سب کچھ ساتھ لے جاتی ہے۔ کیا تم روح کی حقیقت کو جھٹلا سکتے ہو۔‘‘
توقیر بھی خاموشی سے رخسانہ کی ساری بات سن رہا تھا دھیرے سے بولا۔’’تم یہ کہنا چاہتی ہو کہ فواد مر چکا ہے کیا ہم یہ بھی تسلیم کر لیں کہ ہماری حوریہ۔۔۔‘‘ ابھی توقیر پوری بات نہ کہہ پایا تھا کہ رخسانہ اس کے کندھے سے لگ کر رونے لگی’’ایک سال ہوگیا ان چاروں کو لاپتہ ہوئے ہم کیا سمجھیں کہ وہ زندہ ہیں یا مردہ۔‘‘
توقیر نے اس کے شانے پر اپنی بانہیں دراز کر لیں۔‘‘ اس طرح کے خدشات اپنے ذہن میں مت لاؤ۔ میرا دل نہیں مانتا مجھے لگتا ہے کہ ایک دن حوریہ اچانک ہمارے سامنے آجائے گی۔‘‘
وہ دونوں دھیرے دھیرے چلتے ہوئے گھر آگئے توقیر آفس جانے کی تیاری کرنے لگا اور رخسانہ اس کے لیے ناشتہ تیار کرنے میں مصروف ہوگئی۔ توقیر پھرتی سے تیار ہو کر کرسی پر بیٹھ گیا۔’’بیگم جلدی ناشتہ لاؤ دیر ہو رہی ہے۔‘‘
رخسانہ نے سینڈوچ میکر کا بٹن آف کیا اور سینڈوچ نکال کر ٹرے میں رکھے اور ساتھ میں چائے کے دو کپ بھی ٹرے میں رکھ لیے وہ توقیر کے قریب آئی ا ور ناشتہ سرو کرنے لگی۔
اس دوران توقیر کے موبائل کی رنگ ہوئی۔ سکرین پر انسپکٹر کا نمبر دیکھ کر توقیرنے موبائل کان سے لگایا۔’’جی انسپکٹر صاحب!‘‘
انسپکٹر کی بات سن کر توقیر جہاں تھا وہیں جیسے منجمد ہوگیا۔ چند ساعتوں کے لیے جیسے وہ پبلکیں جھپکنا ہی بھول گیا۔ وہ بوکھلائے ہوئے انداز میں بولا’’ہم بس ابھی پہنچتے ہیں۔‘‘
توقیر کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر رخسانہ بھی گھبرا گئی’’کیا ہوا؟کس سے بات کر رہے تھے؟‘‘ توقیر کے چہرے پر خوشی اور پریشانی کے یکجا تاثرات تھے مگر الفاظ جیسے اس کی زبان پر ہی اٹک گئے تھے وہ بمشکل بولا’’حوریہ مل گئی ہے مگر وہ شفا ہسپتال میں ہے۔ وہ بیہوشی کی حالت میں ملی تھی اور ابھی تک بیہوش ہے۔ انسپکٹر کے پاس حوریہ کی تصویر تھی اس لیے انہوں نے اس کی شناخت کر لی۔ وہی حوریہ کوہسپتال لے کر گئے ہیں۔‘‘
’’میری حوریہ مل گئی ہے۔‘‘ رخسانہ کی آنکھیں بھیگ گئیں مارے خوشی کے وہ اپنا دل تھام کے بیٹھ گئی۔ دونوں میاں بیوی جلد از جلد گھر سے نکل کر شفاء ہاسپٹل پہنچ گئے۔
دونوں روم نمبر 46میں پہنچے تو انہیں اپنی آنکھوں پریقین نہیں آیا کہ حوریہ ان کے سامنے بیڈ پر لیٹی ہے۔ وہ دونوں دھیرے دھیرے چلتے ہوئے حوریہ کے بستر کے قریب آگئے حوریہ ابھی تک بیہوش تھی۔ اس کے معصوم سے چہرے پر بے شمار خراشیں تھیں۔ رخسانہ تو بے خودی میں بیٹی سے لپٹ گئی۔ توقیر بیٹی کا ہاتھ تھامے اپنے آنسوؤں پر قابو نہ پا سکا۔
لیڈی ڈاکٹر نے رخسانہ کے شانے پر ہاتھ رکھا’’پلیز۔۔۔آپ تھوڑی دیر کے لیے کمرے سے باہر چلے جائیں۔ میں آپ کے احساسات سمجھ سکتی ہوں مگر آپ کی بیٹی کا ٹریٹمنٹ ابھی پورا نہیں ہوا۔ ابھی تک ان کو ہوش نہیں آیا یہ خطرے سے باہر نہیں ہے۔ آپ باہر بیٹھ کر دعا کریں۔ جونہی ان کوہوش آیا ہم آپ کو بلا لیں گے۔‘‘ انسپکٹر بھی توقیر اور خسانہ کے ساتھ کمرے سے باہر آگیا۔
’’آپ کو حوریہ کہاں ملی اور اس کی یہ حالت۔۔۔‘‘ توقیر نے پوچھا۔
انسپکٹر نے لمبا سانس کھینچا۔’’صبح صبح ہی قبرستان کے گورکن نے مجھے اطلاع دی کہ قبرستان میں کوئی لڑکی بیہوش پڑی ہے۔ اطلاع ملتے ہی میں اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ قبرستان پہنچا۔ حوریہ چند خستہ قبروں کے قریب بیہوش زمین پر پڑی ہوئی تھی۔ سوائے سر کے حوریہ کا سارا جسم گیلے گارے سے لت پت تھا۔ بالکل ایسے جیسے گیلی مٹی کے کسی گڑھے سے نکلی ہو۔ اس کے سر کے سامنے پیشانی سے خون بہہ رہا تھا۔ ہم نے اسے بمشکل ہسپتال پہنچایا۔ نرسوں نے اس کے جسم کو صاف یا اور اسے دوسرے کپڑے پہنائے۔ حوریہ کو ہوش آجائے تویہ سب علم ہو جائے گا کہ اسے اس حالت تک کس نے پہنچایا ہے۔‘‘
رخسانہ ہاتھ میں تسبیح تھامے اوپر کی طرف دیکھنے لگی’’کس ظالم نے میری بیٹی کو اس حال تک پہنچایا ہے۔ خدا اسے نہیں چھوڑے گا۔‘‘
توقیر نے رخسانہ کی طرف دیکھا۔’’بس دعاکرو کہ ہماری بیٹی کو ہوش آجائے۔‘‘
دونوں میاں بیوی تسبیح پڑھنے لگے اور دعائیں مانگتے رہے تھوڑی دیر کے بعد ایمرجنسی روم سے نرس باہر آئی اور توقیر سے مخاطب ہوئی’’حوریہ کو ہوش آگیا ہے۔ آپ لوگ اس سے مل سکتے ہیں۔‘‘
توقیر اور خسانہ کمرے میں چلے گئے۔ انسپکٹر بھی ان دونوں کے ساتھ کمرے میں چلا گیا۔ حوریہ نے آنکھیں کھولی ہوئی تھیں۔ لیڈی ڈاکٹر نے مسکراتے ہوئے رخسانہ کی طرف دیکھا’’اب آپ کی بیٹی خطرے سے باہرہے۔‘‘
رخسانہ اور توقیر حوریہ کے بیڈ کے قریب آگئے۔ حوریہ نے انجان سی نظروں سے اپنے والدین کی طرف دیکھا اور پھر کوئی تاثر دیئے بغیر لیڈی ڈاکٹر کی طرف دیکھنے لگی’’میں کہاں ہوں؟ اور یہ لوگ کون ہیں؟‘‘
لیڈی ڈاکٹر نے توقیر اور رخسانہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا’’تم ان لوگوں کو نہیں جانتی۔۔۔‘‘
حوریہ نے ایک بار اجنبیت سے دونوں کی طرف دیکھا’’میں نے ان کوپہلی بار دیکھا ہے۔‘‘ رخسانہ کچھ کہنے لگی تو لیڈی ڈاکٹر نے انہیں خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔ پھر اسنے ان سب کو اپنے ساتھ باہر آنے کوکہا کہ وہ کمرے سے باہر آگئے۔
’’ڈاکٹر صاحبہ! حوریہ ہمیں کیوں نہیں پہچان رہی۔‘‘ رخسانہ نے پوچھا۔
ڈاکٹر کچھ دیر خاموش رہی پھر گویا ہوئی’’ہم نہیں جانتے کہ حوریہ کن حالات سے گزری ہے۔ مجھے لگ رہا ہے کہ وہ اپنی یادداشت کھو بیٹھی ہے۔ مگریہ بات میں وثوق سے نہیں کہہ سکتی پہلے کچھ ٹیسٹ لینے ہوں گے۔ ایک بات تو مجھے آپ لوگوں کو سمجھانی ہے وہ یہ ہے کہ جب تک یہ بات ثابت نہیں ہو جاتی کہ حوریہ اپنی یادداشت کھو بیٹھی ہے۔ آپ لوگوں نے اسے کچھ یاد دلانے کی کوشش نہیں کرنی۔ اس کے ذہن پر کسی قسم کا دباؤ نہ ہو۔ایک بار ٹیسٹ ہو جائیں رپورٹ آجائے پھر آپ کو سمجھاؤں گی کہ اسے کیسے ٹریٹ کرنا ہے۔‘‘
پھر وہ انسپکٹر سے مخاطب ہوئی۔’’آپ اسے ایک ذہنی مریض کی طرح سمجھیں اس لیے ابھی اس سے کوئی سوال جواب مت کریں۔ آپ کی تفتیش ہمارے علاج میں رکاوٹ پیدا کرے گی۔ مہربانی فرما کر آپ حوری کے ٹھیک ہونے کا انتظار کرلیں۔‘‘
لیڈی ڈاکٹر کی بات سن کر انسپکٹر توقیر سے مخاطب ہوا’’ٹھیک ہے میں جاتا ہوں آپ حوریہ کے ٹیسٹ وغیرہ کروالیں پھر اسے صورت حال سے آگاہ کر دیجئے گا۔‘‘
’’میں آپ سے رابطہ رکھوں گا۔ آپ کی بڑی مہربانی جو آپ نے حوریہ کوہسپتال تک پہنچایا۔‘‘ 
’’یہ تو میرا فرض تھا‘‘ یہ کہہ کر انسپکٹر اپنے ساتھیوں کے ہمارا وہاں سے چلا گیا۔ ایک دو روز میں حوریہ کے ٹیسٹ کی رپورٹ بھی آگئی۔ توقیر اور رخسانہ لیڈی ڈاکٹر کے آفس میں آئے۔
’’آجائیں بیٹھیں۔۔۔‘‘
پھر وہ رپورٹس ان کی طرف بڑھاتے ہوئے بولی’’حوریہ کی ذہنی حالت بالکل ٹھیک ہے۔ اس کا یہ برتاؤ تشویشناک ہے۔ مگر یہ بھی سچ ہے کہ اسے کچھ یاد نہیں۔ شاید اس کی یہ حالت عارضی ہو۔ کچھ روز آپ کے ساتھ گزارنے کے بعد اسے شاید سب یاد آجائے۔ اس لیے یہ بہتر ہوگا کہ اسے ساری صورت حال سے آگاہ کردیا جائے پھر اسے اپنے ساتھ گھر لے جائیں۔ کسی قسم کی Complicationsہو تو آپ مجھ سے رابطہ کریں میں کچھ دوائیاں لکھ رہی ہوں یہ آپ اسے باقاعدگی سے دیں۔‘‘
توقیر نے ادویات کی پرچی لیتے ہوئے کہا’’ہم ماضی کی کچھ باتیں دہرا کے اسے اپنی زندگی یاد دلانے کی کوشش کر سکتے ہیں۔‘‘
ڈاکٹر نے اثبات میں سر ہلایا’’جی بالکل اسے اس کی پسند نا پسند میں ایسا ماحول بنائیں کہ جس سے اسے کچھ یاد آئے۔‘‘
توقیر اور رخسانہ، حوریہ کو لے کر گھر آگئے حوریہ کو رخسانہ اس کے کمرے میں لے کر آئی حوریہ اپنے کمرے کے در و دیوار کو انجان نظروں سے دیکھتی آگے بڑھ رہی تھی گویااس کے لیے کمرے کی ہر چیز نئی تھی۔(جاری ہے )

وہ کون تھا ؟ایک خنّاس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 23ویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں