وہ کون تھا ؟ایک خنّاس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 21ویں قسط
فنکشن رات گئے جاری رہا۔ دوسرے رشتہ داروں نے تو اس تقریب میں بہت انجوائے کیا مگر وینا جس کی منگنی تھی، وہ بجھی بجھی سی تھی ایسی ہی حالت میں ایمن اور وقار احمد کی بھی تھی۔ ایک عجیب سا خدشہ ان کا سینہ چیر رہا تھا۔ رات کے ایک بجے تقریب اختتام پذیر ہوئی۔ تمام رشتہ دار اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے ایمن اور وقار احمد بھی اپنے گھر آئے تو ملازم نے دروازہ کھولا۔
یوٹیوب چینل سبسکرائب کرنے کیلئے یہاں کلک کریں
وقار احمد تو باتھ روم میں کپڑے چینج کرنے چلا گیا مگر ایمن الماری کھول کر برقی سرعت سے کچھ ڈھونڈنے لگی۔ وہ بوکھلائی سی کپڑوں کو الٹ پلٹ کر رہی تھی۔ وہ سارے کپڑے نکال نکال کر زمین پر پھینکنے لگی۔ وقار احمد نے اپنے کف کا بٹن بند کرتے ہوئے تعجب سے ایمن کی طرف دیکھا۔’’یہ کیا طریقہ ہے الماری سے کپڑے نکالنے کا۔‘‘
وہ کون تھا ؟ایک خنّاس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 20 ویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ایمن کو جیسے کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا۔ وہ اپنے کام میں محو تھی اس نے سارا خانہ خالی کر دیا پھر الماری کے باقی خانوں سے کپڑے نکال نکال کر باہر پھینکنے لگی۔ اس نے ساری الماری خالی کر دی اور پھر اپنے دونوں بازو سیدھے کرکے اپنے ہاتھ اکڑا لیے اور گلوگیر لہجے میں بولے۔ ’’وہ بادامی شیروانی الماری میں نہیں ہے جو میں نے فواد کے لیے خریدی تھی۔ میرا بیٹا فواد گھر آیا تھا اسی نے یہاں سے وہ شیروانی لی اور زیب تن کی۔‘‘
’’کیسی باتیں کر رہی ہو ایمن ! خود کو سنبھالو۔۔۔‘‘ وقار احمد نے ایمن کو شانوں سے پکڑتے ہوئے صوفے پر بٹھا دیا۔
ایمن نے اپنی بھیگی ہوئی آنکھوں سے وقار احمد کی طرف دیکھا’’وینا نے تو وہ شیروانی نہیں دیکھی تھی۔ تو پھر کیسے اس نے بتایا کہ فواد نے بادامی شیروانی پہنی تھی اور اس پر براؤن دھاگے اور گولڈن تلے کا کام تھا۔‘‘
وقار احمد سوچ میں پڑ گیا۔ یہ سب باتیں اس کی سمجھ سے بالا تر تھیں۔ اس نے ایمن کے بالوں کو سہلایا۔’’خدا پر بھروسا رکھو، جاؤ جا کے چینج کر لو۔‘‘
ایمن دھیرے دھیرے قدموں سے چلتی ہوئی باتھ روم تک پہنچ گئی۔ وقار احمد کے ذہن میں وینا کا جملہ بار بار گونج رہا تھا۔’’انکل ! فواد کا جسم ہوائی تھا۔۔۔اس کا جسم سیاہ دھویں میں تبدیلی ہوگیا تھا۔‘‘
وقار احمد کے ذہن میں سیاہ دھویں کی اس بدلی کا خیال بھی آنے لگا پھر اس کا ذہن ماضی کے دریچوں سے کسی بات کو دہرانے لگا۔ جب چرس بھرے سگریٹ پینے پر وقار احمد نے فواد کے چہرے پر زناٹے دار تھپڑ رسید کیا تھا تو چیخ کر بولا تھا۔’’ڈیڈی اس دھویں میں کبھی آپ کا بیٹا بھی دھواں ہو جائے گا۔‘‘
اس خیال سے اس کے جسم میں جھرجھری دوڑ گئی۔ اس نے دونوں ہاتھ دعا کے لیے اٹھائے۔ ’’یااللہ جو میں سوچ رہا ہوں وہ نہ ہو میرا بیٹا زندہ ہو۔‘‘
***
ظفر اپنے باہر کے معمولات نبٹا کے اپنے ملک واپس آگیا۔ وہ ماریہ کے ساتھ شمعون کے گھر والوں سے تعزیت کے لیے ان کے گھر گیا۔ شمعون کی بے وقت اور عجیب موت سب کے لیے پہیلی بنی ہوئی تھی۔ ظفر کو ماریہ کی حالت پر تشویش ہو رہی تھی کہ شمعون کی موت سے وہ اس قدر خوفزدہ کیوں ہے۔
’’پوسٹ مارٹم رپورٹ میں کیا آیا ہے۔‘‘ ظفر نے شمعون کے والد سے پوچھا۔
شمعون کے والد نے گلوگیر لہجے میں کہا’’ہمیں پوسٹ مارٹم کی رپورٹ سے کیا، پولیس قاتل کو ڈھونڈ بھی لے توہمیں کون سا ہمارا بیٹا واپس مل جائے گا۔‘‘
’’مجھے آپ سے ہمدردی ہے مگر میں جاننا چاہتا ہوں کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں کیا بات سامنے آئی ہے۔‘‘
شمعون کے والد نے لمبا سانس کھینچا۔’’رپورٹ میں دوباتیں سامنے آئی ہیں ایک یہ کہ کسی جنگلی جانور نے ان کے جسموں سے خون چوس لیا اور دوسری بات یہ کہ ان کے جسم جھلسنے سے ان کے دل سکڑ گئے ان کے جسموں پر کوئی آتش گیر مواد استعمال نہیں ہوا۔ ان کے جسموں سے صرف ریت ملی ہے۔ گویا کہ ریت اس قدر گرم ہوگئی تھی کہ ان کے جسم جھلس گئے۔ ایسا کیسے ممکن ہے۔ چولستان کے اس جنگل کے قریبی علاقوں کے لوگوں کے کہنے کے مطابق جب ان لوگوں نے لڑکوں کی لاشیں اٹھائیں تو ریت اس قدر گرم نہیں تھی اور نہ ہی ایسا ممکن ہے کہ ریت سے کوئی جھلس جائے اور پھر دور دور تک نہ کوئی ایسا جنگلی جانور نظر آیا اور نہ ہی ایسی نشانی ملی جس سے معلوم ہو کہ ان تینوں کے علاوہ وہاں کوئی اور بھی تھا۔‘‘
یہ سب بتاتے ہوئے شمعون کے والد پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ ظفر ان کے ہاتھوں پر اپنا ہاتھ رکھ لیا’’ہمت رکھیں خدا کو یہی منظور ہوگا۔ تینوں لڑکوں کی موت واقعی بہت عجیب طریقے سے ہوئی ہے مگر آپ پولیس کی تفتیش میں ان کی مدد کریں۔ معاملے کی تہہ تک جائیں۔ مجھ سے جو کچھ ہو سکا میں کروں گا۔‘‘
ظفر اور ماریہ دو گھنٹے ان کے گھر گزارنے کے بعد گھر آگئے۔
***
رات بارہ بجے کے بعد زرغام اپنی گاڑی میں گاؤں سے نکلا۔ شہر کے محلے اور گلیاں سنسان تھیں۔ لوگ گھروں میں گہری نیند سو رہے تھے۔
سڑکوں پر بہت کم گاڑیاں نظر آرہی تھیں۔ مگر جس ٹوٹی پھوٹی سڑک والا راستہ زرغام نے اختیار کیا وہاں اس کی گاری کے علاوہ کوئی اور گاڑی نہیں تھی۔
تھوڑے سے سفر کے بعد وہ جس سڑک پر آگیا تھا وہ سڑک شہر کے وسیع قبرستان کی طرف جاتی تھی۔ وہ سڑک تو ہمیشہ سے ہی رات بارہ بجے کے بعد سنسان ہو جاتی تھی۔
قبرستان کے قریب پہنچ کر زرغام نے گاڑی روک لی۔ وہ گاڑی سے اترا ،اس نے پینٹ شرٹ زیب تن کی ہوئی تھی۔ اس نے گاڑی سے کالا شاپر نکالا اور اور وہ شاپر لے کر قبرستان میں داخل ہوگیا۔ قبرستان کے شروع میں ہی ایک مدھم سی لائٹ لگی تھی جو قبرستان کے اندھیرے کو دور کرنے کے لیے کافی نہیں تھی۔
زرغام نے سیاہ شاپر سے ٹارچ نکالی اس نے ٹارچ آن کی اور شاپر سے سیاہ چوغہ نکال لیا۔ اس نے شاپر زمین پر رکھا اور سیاہ چوغہ پہن لیا۔ چوغے کی کمر کی طرف ایک ٹوپی سی لٹک رہی تھی جسے اس نے اپنے سر پر پہن لیا۔
سیاہ گاؤن کے ساتھ لگی ہوئی اس ٹوپی نے نہ صرف اس کا سر چھپا دیا بلکہ اس کی آنکھوں تک لٹکنے لگی۔ وہ ٹارچ کی دھیمی سی روشنی کی مدد سے آگے بڑھ رہا تھا۔
یہ قبرستان کئی سو سال پرانا تھا کئی سو سال پرانی قبریں نیست و نابود ہو چکی تھی اور ان میں نئے مردے بھی دفنائے جا چکے تھے۔۔۔ان کئی سو سال پرانے مردوں کی روحیں اب بھی اس قبرستان میں بھٹک رہی تھیں۔ وہ خاص نظریں جو ان روحوں کو دیکھ سکیں عام انسانوں کے پاس نہیں تھیں مگر زرغام جیسا شیطان اپنی طاقت اپنے علوم اور تجربے کی بنیاد پر اپنے آس پاس بھٹکنے والی روحوں کو محسوس کر سکتا تھا۔ بظاہر محسوس ہونے والے سناٹے میں کتنی آہ و بکا کتنی چیخیں اور کیسی کیسی دل سوز آوزایں زرغام کی قوت سماعت سے ٹکرا رہی تھیں۔
وہ بے خوف مختلف قبروں پر ٹارچ کی روشنی ڈالتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا کچھ قبریں انتہائی خستہ حال تھیں جن میں پڑے ہوئے انسانی ہڈیوں کے ڈھانچے صاف دکھائی دے رہے تھے۔(جاری ہے )
وہ کون تھا ؟ایک خنّاس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 22ویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں