وہ کون تھا ؟ایک خنّاس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 20 ویں قسط

وہ کون تھا ؟ایک خنّاس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 20 ویں قسط
وہ کون تھا ؟ایک خنّاس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 20 ویں قسط

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

سبھی مہمان پہنچ گئے تھے مگر وینا کے سسرال والے ابھی تک نہیں پہنچے تھے۔
وینا سجی ہوئی کرسی پر بیٹھی بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔ ایمن نے وینا کو دیکھا تو اس کی آنکھیں اس کے چہرے پر ہی ٹھہر گئیں، وینا کو دیکھتے ہی فوادکے خیال نے اس کی آنکھیں بھر دیں۔ عذرا نے ایمن کو دیکھا تو بہن کے دل کے جذبات کو بھانپ گئی۔ وہ اس کے قریب آئی اور اس کے شانوں پر بانہیں حائل کرتے ہوئے ا سے وینا کے پاس لے گئی۔ وینا کے ساتھ صوفے پر دونوں بہنیں بیٹھ گئیں۔

وہ کون تھا ؟ایک خنّاس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 19 ویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
عذرا نے ایمن کا ہاتھ وینا کے ہاتھ کے اوپر رکھا اور بہت پیار سے بولی’’آپ سمجھیں عارفین ہی آپ کا فواد ہے اور یہ آپ کی بہو ہے۔‘‘
ایمن اپنے آنسو پونچھتے ہوئے مسکرانے لگی۔’’خدا تمہیں اور عارفین کو ہمیشہ خوش رکھے۔‘‘
اس نے وینا کے سر پر پیار دیا۔ اور پھر عذرا سے مخاطب ہوئی۔’’عارفین اور اس کے والد کہاں رہ گئے ہیں۔ سب مہمان پہنچ گئے ہیں اور دونوں ابھی تک نہیں پہنچے۔‘‘
’’بازار سے کچھ چیزیں لینی تھیں بس وہی لیتے ہوں گے میری بات ہوئی ہے بس آجائیں گے کچھ دیر تک۔‘‘عذرا نے بتایا تو ایمن ہنس پڑی۔
’’یہ معاملے ہی ایسے ہوتے ہیں عین وقت تک ہی چیزیں بازار سے آتی رہتی ہیں۔‘‘ لڑکیوں نے ریکارڈ آن کر دیا اور پاپ میوزک پر محو رقص ہوکے منگنی کی تقریب کو پرمزہ بنانے لگے۔خاندان کے سب لوگوں نے تالیاں بجانا شروع کر دیں وہ سب ڈانس کرنے والے لڑکوں کے گرد دائرے میں جمع ہوگئے اور تالیاں بجا بجا کر ان کی حوصلہ افزائی کرنے لگے۔
وینا اپنی جگہ اکیلی بیٹھی مسکرا رہی تھی۔ وہ دائرے کی صورت میں جمع لوگوں کی طرف دیکھ رہی تھی اسے لڑکوں کا ڈانس نظر نہیں آرہا تھا۔
اس نے فیروزی کلر کا لہنگا پہنا ہوا تھا۔ جس پر نگینوں کا کام تھا۔ اس نے لہنگے سے میچ کرکے نگینوں کا سیٹ پہنا ہوا تھا۔ تالیاں بجاتے ہوئے لوگوں کے ہجوم میں وینا کو فواد دکھائی دیا جس نے بادامی رنگ کی شیروانی اورپاجامہ پہنا ہوا تھا۔ شیروانی پرزری کا کام تھا گویا کہ وہ دولہا کا لباس تھا۔
وینا کی سراسیمہ نظریں اس طرف ہی ٹھہر گئیں فواد کا وہ سراپا وجود لوگوں میں سے اس طرح گزر گیا جیسے ہوا۔۔۔گویا وہ صرف وینا کو ہی دکھائی دے رہا تھا۔ لوگوں کے ہجوم میں سے نکلا تو وہ زندہ انسان کی طرح مادی وجود دکھائی دے رہا تھا۔
سنسناہٹ کے جھٹکے سے وینا کاپورا جسم تھرتھرا گیا۔ وہ جوں جوں وینا کے قریب آرہا تھا اس کی تھرتھراہٹ بڑھ رہی تھی۔ وہ وینا کے سامنے کھڑا ہوگیا۔ وینا بھی فواد کی طرف مبہوت نظروں سے دیکھتی ہوئی کھڑی ہوگئی۔
’’فواد ۔۔۔‘‘ وینا کانپتے لبوں سے آواز ابھری۔ فواد کے چہرے پر تناؤ اور آنکھوں میں نمی تھی، غصہ و غم کے یکجا تاثرات نے اس کی آنکھوں میں بہت کچھ لکھ دیا تھا۔
فواد نے وینا کے چہرے پر اپنی آنکھیں گاڑ دیں۔’’کیا سوچ رہی ہو۔ یہی نا کہ میں زندہ ہوں یا مردہ۔۔۔میں زندہ ہوں تمہاری خوشیوں میں، تمہارے احساسات میں تمہارے دل میں مگر یہ یاد رکھنا کہ اگر تم نے عارفین سے شادی کی تو میں اسے زندگی سے آزاد کر دوں گا۔‘‘
وینا کی ماں اس کے قریب آئی تو فواد کا وجود دھویں میں تحلیل ہو کر ہوا میں بکھر گیا۔ وینا کی ماں چلا اٹھی۔ ’’وینا! یہ دھواں کیسا تھا، تم ٹھیک تو ہونا۔‘‘
وینا پھٹی پھٹی آنکھوں سے فضا کو گھورتی رہی پھر چکرا کر گئی۔ وینا کی والدہ صائمہ نے اس کا سر اپنی گودمیں رکھا اور اس کا چہرہ تھپتپھانے لگی۔’’وینا آنکھیں کھولو کیا ہوا۔‘‘
وینا نے آنکھیں کھولیں تو ایک انجام سا خوف اس کی آنکھوں میں سرایت تھا۔ اس کی متلاشی نگاہیں اپنے گرد جمع مہمانوں میں کسی کو ڈھوند رہی تھیں۔ ایمن اور عذرا اس کے قریب آئیں’’کس کو ڈھونڈ رہی ہو۔‘‘
’’فواد ! ابھی تھوڑی دیر پہلے میرے سامنے فواد کھڑا تھا۔۔۔؟‘‘
’’فواد! یہ تم کیسی باتیں کر رہی ہو۔ ہم نے تمہارے پاس تو کسی کو نہیں دیکھا۔‘‘
وینا اپنے ہاتھوں پر زور ڈالتے ہوئے اٹھ کر بیٹھ گئی۔ اس نے عذرا کی طرف دیکھا۔’’آنٹی میں سچ کہہ رہی ہوں۔ میں نے اپنے پورے ہوش و حواس میں اسے دیکھا ہے اس نے بادامی رنگ کی زری کے کام والی شیروانی اور پاجامہ پہنچا ہوا تھا۔ مگر اسکا جسم ہوائی تھا۔اس کا جسم ہوا کے ہیولے کی طرح آپ لوگوں میں سے گزر گیا تھا۔‘‘
ایمن سٹپٹا کے رہ گئی۔ وہ وینا کے قریب بیٹھ گئی۔ اس نے اپنی آنسوؤں سے ڈبڈباتی آنکھوں سے وینا کی طرف دیکھا’’ا س کی شیروانی پر براؤن دھاگے کے ساتھ گولڈن تلے کا کام تھا اور بٹنز بھی گولڈن تھے۔‘‘
’’جی آنٹی۔۔۔مگر آپ کو کیسے پتہ، کیا آپ نے بھی کو دیکھا ہے۔‘‘ وینا نے حیرت میں ڈوبے ہوئے لہجے میں کہا۔
ایمن کی آنکھوں میں رکے ہوئے آنسو اس کے رخساروں پر جھلک پڑے۔’’میں نے اسے نہیں دیکھا مگر تم یہ کیوں کہہ رہی ہو کہ اس کا جسم ہوائی تھا۔‘‘
شور سن کر وقار احمد بھی وہاں آگئے’’کیا بات ہے۔‘‘
ایمن وقار کی طرف لپکی۔’’میں نے کہا تھا کہ میرا فواد ضرور آئے گا۔ ہمارے بیڈ روم میں کسی کا ہونا میرا وہم نہیں تھا۔ میرا فواد گھر آیاتھا۔ وینا بتا رہی ہے اس نے وہی شیروانی اور پاجامہ پہنا ہوا تھا جو آپ کو دکھا رہی تھی۔ اس نے ہمارے کمرے کی الماری سے وہی ڈریس لیا ہوگا۔‘‘
وقار احمد نے وینا کی طرف دیکھا’’یہ سب کیا کہہ رہی ہیں۔ تم صرف اتنا بتاؤ کہ تم نے فواد کو دیکھا ہے اس حال میں۔‘‘
’’جی انکل! میں نے اسے دیکھا، اس نے مجھ سے بات بھی کی۔‘‘
وقار احمد نے کچھ اور مزید نہیں پوچھا اس نے برقی سرعت سے اپنا موبائل نکالا اور کسی سے تیز تیز بولنے لگا۔ باہر سکیورٹی کو الرٹ کر دو۔ کچھ لوگ ادھر ہال میں بھی بھیجو کچھ لوگوں نے یہاں فواد کو دیکھا ہے۔ ہر ایک کو چیک کرو، اگر فواد یہاں ہے تو وہ ہوٹل سے باہر نہ نکل پائے۔
سپیکر پر اناؤنسمنٹ ہونے لگی۔ ’’اس ہال سے کوئی باہر نہ جائے۔ فواد! تم جہاں کہیں ہو ہمارے سامنے آجاؤ۔‘‘
ہال میں جیسے سکوت چھا گیا لوگ اپنی جگہ پر جامد ہوگئے۔ پولیس سولجرز ہال کے دروازے پر کھڑے ہوگئے فضا میں سیاہ دھویں کی بدلی سی نمودار ہوئی۔ ہال میں کسی قسم کی آتشزدگی استعمال نہ ہونے کی وجہ سے وہ دھواں لوگوں کی توجہ کا مرکز بن گیاتھا۔
دھویں کی وہ بدلی ہوا میں تیرتی ہوئی ہال کے دروازے کی طرف بڑھ رہی تھی۔ وقار احمد کی بھی نظر اسی پر تھی، دھویں کی وہ بدلی ہوا میں پھیلتی ہوئی دروازے سے باہر چلی گئی اور پھر وہ سیاہ دھواں ہوا میں بکھر کر کہیں غائب ہوگیا۔
اسی دوران وینا کی آواز وقار احمد کی سماعت سے ٹکرائی’’انکل آپ نے میری پوری بات نہیں سنی، میں آپ کو یہ بتانا چاہتی تھی کہ فواد کا جسم ہوائی تھا۔‘‘
وقار احمد کے پورے جسم سے جھرجھری دوڑ گئی۔’’کیا کہہ رہی ہو؟‘‘
’’جی انکل میرا یقین کریں جب امی میرے قریب آئیں تو فواد کا ہوائی روپ ایسی ہی سیاہ بدلی میں تحلیل ہوگیا تھا جیسی ابھی فضا میں نمودارہوئی تھی۔‘‘ وقار احمد خاموش کھڑا وینا کی طرف دیکھ رہا تھا اس کا ذہن وینا کی بات کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔
ایمن جذباتی انداز میں وینا سے بولی’’میرا فواد زندہ ہے۔اس کا جسم ہوائی کیسے ہو سکتا ہے۔ تم کیسی بہکی بہکی باتیں کر رہی ہو۔‘‘
وقار احمد ایمن کے شانوں پر بازو حائل کرتے ہوئے اسے صوفے تک لے گیا’’وینا کو کوئی وہم ہوا ہے تم خود کو سنبھالو۔ ہمارا بیٹا ہمیں ضرور مل جائے گا۔‘‘
کچھ دیر کے بعد عارفین اور اعجاز بھی آگئے۔ ان کے سامنے کسی نے فواد کی بات نہیں کی بلکہ اس واقعہ کو نظر انداز کرکے رسم کی تیاری میں مصروف ہوگئے۔ عارفین اور وینا نے ایک دوسرے کو منگی کی انگوٹھی پہنائی۔ عزیز و اقارب نے دوسری رسومات نبھائیں۔(جاری ہے )

وہ کون تھا ؟ایک خنّاس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 21 ویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں