مسلمان اپنی نالائقیوں کی وجہ سے اپنا سب کچھ کھو چکے تھے، ہندو اپنی عیاری سے اب انگریز کیساتھ مل گیا تھا،مسلمانوں کیلئے ہر طرح کی مشکلات تھیں 

 مسلمان اپنی نالائقیوں کی وجہ سے اپنا سب کچھ کھو چکے تھے، ہندو اپنی عیاری سے ...
 مسلمان اپنی نالائقیوں کی وجہ سے اپنا سب کچھ کھو چکے تھے، ہندو اپنی عیاری سے اب انگریز کیساتھ مل گیا تھا،مسلمانوں کیلئے ہر طرح کی مشکلات تھیں 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:9
 حصۂ    اوّل
 گلاب لمحوں کے مخمل پہ کھیلتے بچپن
 پلٹ کے آ، میں تجھ سے شراتیں مانگوں 
 اوّل حصے سے میرے خاندان کی کہانی ہندوستان کے گاؤں سُجان پور سے شروع ہو کر ہجرت کے بعد کے واقعات سناتی میری پیدائش تک جاتی ہے۔
بٹوارے سے پہلے
اپنی کہانی سنانے سے پہلے میں ٓپ کو بٹوارے سے قبل ہندوستان کے ضلع پٹھانکوٹ کے گمنام قصبے سجان پور لئے جاتا ہوں جہاں میرے دادا کی حویلی ایکٹر سے زیادہ رقبہ پر تھی۔ یہ غیر تقسیم شدہ ہندوستان ہے جہاں مختلف مذاہب کے لوگ صدیوں سے ایک ساتھ رہ رہے ہیں لیکن یہاں کے اصل باشندوں نے اپنی حاکم قوم یعنی مسلمانوں کو کبھی بھی دل سے قبول نہ کیا تھا۔ ٹیپو سلطان اورجنگ آزادی1857ء میں شکست کے بعد ہندوستان انگریز کے قبضے میں چلا گیا تھا۔ ہندو اپنی عیاری سے اب انگریز کے ساتھ مل گیا تھا۔ انہیں کوئی فرق نہ پڑتا تھا کہ پہلے وہ مسلمانوں کے محکوم تھے اور اب انگریز کے۔ دوسری طرف مسلمان اپنی نالائقیوں کی وجہ سے اپنا سب کچھ کھو چکے تھے۔ ہار کر وہ بھی غلام بن گئے تھے ایک ایسی قوم کے جو یہاں تجارت کی غرض سے آئی تھی اور اپنی عیاری و مکاری سے حکمران بن گئی تھی۔مسلمانوں کے لئے ہر طرح کی مشکلات تھیں جبکہ ہندو نئے حکمرانوں سے بھی تعلقات استوار کر چکے تھے۔ اسی غلام ہندوستان کے قصبے سجان پورسے اس کہانی کا آغاز ہوتا ہے۔
سجان پور کے یار؛
میں نے سجان پور کی معلومات والد سے اکٹھی کرکے کہیں لکھی تھیں لیکن وہ کاغذ کہیں کھو گیا۔ کچھ باتیں مجھے یاد رہ گئی تھیں۔ میں اپنی یا دداشت تازہ کرنے اور کچھ مزید معلومات اکٹھی کرنے ابا جی(ہم سب بہن بھائی اپنے والد کو ابا جی ہی کہہ کر پکارتے تھے۔ لہٰذا میں انہیں ابا جی ہی لکھوں گا۔) کے واحد حیات دوست انکل سیلم شاہ کو ملنے ان کے گھر پی سی ایس آئی آر لیبارٹری لاہور چلا آیا۔ وہ ماشااللہ عمر کے چھیانوے(96) سال میں ہیں۔ ان کی یادداشت ابھی بھی بلا کی ہے۔ گورنمنٹ کالج لاہور کے تعلیم یافتہ ہیں۔ تحریک پاکستان میں حصہ لیا۔ مسلم سٹوڈنٹ فیڈریشن لاہور کے ممبر رہے۔ خوش گفتار، خوش مزاج اور خوش لباس شخصیت ہیں۔ حلقہ ارباب ذوق کی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیتے رہے۔ شا عری بھی کرتے تھے۔ ان کی بڑے بھائی عظیم مصطفی پائے کے شاعر تھے۔ آئیں ان کے ساتھ تقسیم ہند سے قبل کے سجان پور چلتے ہیں؛
”بیٹا!سجان پور کشمیر وادی کا فٹ ہل ہے۔ ضلع گرُداسپور کی تحصیل پٹھانکوٹ کا یہ قصبہ دریائے راوی کے مشرقی کنارے آباد تھا جبکہ دریا کے مغربی کنارے شکر گڑھ کا قصبہ تھا جو اب پاکستان کے ضلع نارووال کی تحصیل ہے۔دریائے راوی اس علاقے میں پاک بھارت سرحد کا کام بھی کرتا ہے۔ کرتار پور راہداری اسی سرحد پر واقع ہے۔ اس قصبہ میں آبادی کا تناسب کچھ یوں تھا مسلمان تقریباً کل آبادی کا 70فی صد تھے اور اس70 فی صد میں 70 فی صد آبادی کشمیر ی مسلمانوں کی تھی۔ ہندو، سکھ وغیرہ کل ملا کر 30 فی صد تھے۔ سجان پور سے تین چار میل کے فاصلے سے کشمیر کی وادی کا گیٹ وے”کٹوھوا“ تھا۔“(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -