کینال ویو UBLاور میَں (قسط سوئم)
ماڈل ٹاؤن لاہورکے بعد پاکستانی پنجاب میں یہ پہلی کواپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی تھی۔ میرے لئے اس کا Founder ہونا بڑا اعزاز تھا۔ اَب ہاؤسنگ سوسائٹی کے محلِ وقوع کی تلاش کا مرحلہ شروع ہوتا ہے۔ یہاں پر LDA کےDG سے لے کر بقیہ تمام افسر یہاں تک کہ ہاؤسنگ کے سیکریٹری پنجاب شفقت قریشی، یا مظہر منیر(جسٹس منیر کے صاحبزادے) میں سے کون سیکرٹری ہاؤسنگ تھا مجھے یاد نہیں لیکن تمام اَفسر شاہی میری رہنمائی اور مدد کے لئے تیار تھی۔ شائد اس لئے کہ پہلی کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی تھی، یا سعید مہدی کی معاونت کا اثر تھا۔ LDA کے ہی عملے نے مجھے بتایا کہ نہر کنارے پر موضع ہنجروال کا رقبہ مناسب داموں پر مل سکتا ہے۔موجودہ کینال ویو سوسائٹی کی Location کمیٹی کو پسند آ گئی۔ رقبے کی پہلی کھیپ 120کنال پر مشتمل تھی جو ایک ہی خاندان کی ملکیت تھی،اُس کا بیعانہ کر لیا گیا۔ UBL کے اپنے Suspense اکاؤنٹ سے کیونکہ سوسائٹی کے ا کاؤنٹ میں تو ابھی چند ہزار روپے تھے جو اِبتدائی ممبران کی ممبر شپ فیس تھی۔ آج کسی کو اندازہ نہیں ہو سکتا کہ اُن دِنوں میَں کتنے شدید ذہنی دباؤ اور فکر مندی کے دور سے گذر رہا تھا۔ UBL کے ملازمین کی نہ صرف ممبر شپ بڑھانی تھی بلکہ ان کا ہاؤسنگ قرض بھی منظور کروانا تھا، قرض کی اُس رقم کو ڈائریکٹ سوسائٹی کے اکاؤنٹس میں ٹرانسفر ہونا تھا، برانچ منیجروں کوعزت اور پیار سے پابند کیا کہ ہر برانچ کم از کم اپنے 10 گاہکوں کو سوسائٹی کا ممبر بنائے اور اُن سے 5000 روپے بطور Down payment لے اور سوسائٹی کا ممبر شپ فارم بھروا کر سوسائٹی کے دفترپہنچائے۔ اس تمام کام کی کاغذی تیاری، یعنی سوسائٹی کا ممبر شپ فارم ڈیزائن کر نا بمعہ سوسائٹی کے Logo کے، قرض کی درخواست کا ایسا Formatتیار کرنا کہ اُس درخواست میں وجہ قرض پرسنل ضرورت لکھی گئی ہو نہ کہ برائے خرید پلاٹ۔ورنہ اسٹیٹ بینک کے قانون کی Violation ہو جانی تھی۔ ساتھ ہی بہت ہی بڑا معرکہ یہ تھا کہ سوسائٹی کا موجودہ نام یعنی کینال ویو کوپرآیٹو ہاؤسنگ سوسائٹی رجسٹرار کے تمام دفاتر کے ریکارڈ میں تبدیل کروانا تھا۔ اس قریباً ناممکن کام میں مرحوم احسان جان، مرحوم فاروق ایوب نے مدد کی۔ یو۔بی۔ایل کوآپریٹو سوسائٹی رجسٹر ہو چکی تھی اُس کو نئے نام سے رجسٹر کروانے کے لئے تمام کاغذی ریکارڈ تبدیل کروایا گیا۔ شکر ہے کہ سوسائٹی کا اکاؤنٹ ابھی پراونشنل کواپریٹو بینک میں نہیں کھلا تھا ورنہ وہاں تو بہت تبدیلیاں کرنی پڑتیں کیونکہ اُن دِنوں بینک لیجروں اور رجسٹروں میں قلم سے اندراج ہوتا تھا۔ ہر نئی کوآپریٹو سوسائٹی کا اکاؤنٹ پراوینشنل کواپریٹو بینک میں کھلنا ضروری تھا۔ کینال ویو نام کے لئے جو کاغذی تبدیلیاں کرنی پڑیں،کوآپریٹو کے عملے نے PCU سے نئے رجسٹر کاروائی منگوائے اوردوبارہ تمام کاروائی میں سوسائٹی کا موجودہ نام یعنی کینال ویو کواپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی لکھا گیا۔ یعنی ہر کاغذ، ہررجسٹر اوربینک اکاؤنٹ میں کینال ویو سوسائٹی کا نام لکھا گیا یہ ناممکن کام محکمے کے ہر چھوٹے بڑے افسر کے تعاون سے پایہ تکمیل کو پہنچا۔ مجھے یا دہے ایک کواپریٹو انسپکٹر ہوتا تھا نام یاد نہیں وہ قصور سے آیا کرتا تھا، اُس بے چارے کو اُسی روز قصور سے واپس بلوایا گیا اور اُس کے ہاتھ سے رجسٹر کاروائی دوبارہ سے لکھوایا گیا۔ وہ زمانہ بھی اچھا تھا، محکمے کے افسروں کی آنکھ میں لحاظ ہوتا تھا، کینال ویو چونکہ پہلی کوآپریٹو سوسائٹی پنجاب میں 1947 کے بعد بن رہی تھی اس لئے محکمے کے تمام اہل کار اور افسروں کا جوش دیدنی تھا۔ کچھ UBLکے نام کی شہرت تھی اور شائد تھوڑی بہت میری PR بھی تھی کہ ہر کام سہولت سے ہو گیا۔
سوسائٹی کے لئے نہر کے کنارے 120 کنال زمین کے بعد مزید ملحقہ زمین کی خریداری کے لئے UBL ہنجر وال برانچ منیجر نے ملک محسن کھوکھر ایڈوکیٹ (مرحوم) سے میرا تعارف کروایا۔ یہ ہنجروال سے پیپلز پارٹی کے MPA تھے، اثر و رسوخ والے تھے، اُنہوں نے اور برانچ منیجر نے بقیہ رقبے کی خریداری میں مدد دی۔ UBLکی ہر برانچ کوجو کام دیا گیا کہ برانچ اپنے گاھکوں کے پلاٹ کی مکمل قیمت کا قرض ریجنل آفس سے منظور کرواکر اُس رقم کو سوسائٹی کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کروائے۔ وہ خوش اسلوبی سے شروع ہو گیا۔ مکمل پلاٹ کی قیمت بمعہ ڈویلپمنٹ /- 42,000 روپے فی کنال مقرر کی گئی۔ ہر درخواست گذار سے 5000 روپے اُس کی جیب سے بطور Down payment لئے جاتے تھے اور بقیہ 37,000/- روپے کا قرض بینک معقول Interest پر ماہانہ اقساط میں وصول کرتا اتھا۔میَں برانچوں سے معلومات لیتا رہتا تھا کہ اُنہوں نے روزانہ کتنے نئے ممبران سوسائٹی کے بنائے۔ میَں نہیں چاہتا تھا کہ درخواستیں زیادہ آجائیں اور اُس حساب سے ہمارے پاس رقبہ نہ ہو۔ پہلے دو تین رقبوں کی خریداری میں میَں خود مکمل طور پر شامل رہا، اُس کے بعد میَں نے زمین کی خریداری کے لئے ایک کمیٹی بنا دی جس میں UBL ہنجروال کا منیجر بھی شامل تھا۔مجھے اَب کنیال ویو کے تمام رقبے کی تعداد تو یاد نہیں ہے۔ اتنے برس گذر گئے اور میَں بھی عمر رسیدہ ہو گیا ہوں لیکن زمین کی خرید کے دوران میرے ذہن میں ایک ”پھڈے“کی یاد محفوظ ہے۔ کینال ویو کا رقبہ نہر کے فرنٹ سے شروع ہو کر عقب میں پھیلتا پھیلتا ملتان روڈ تک پہنچ گیا۔ یعنی کینال ویو سوسائٹی کو نہر سے اور ملتان روڈ سے بھی داخلہ ملتا تھا۔ زمین کی خرید کے ساتھ سرکاری طور پر نشان دہی بھی کروائی جاتی تھی اور قبضہ بھی لیا جاتا تھا۔ سوسائٹی کی زمین کے ساتھ ایک فیکٹری کی باؤنڈری لگتی تھی۔ اس فیکٹری میں سرجیکل کاٹن بنتی تھی۔ فیکٹری کی باؤنڈری کی دیوار سوسائٹی کی زمین میں 5-6 فٹ اندر آئی ہوئی تھی۔ جس مالک سے سوسائٹی کی اراضی خریدی گئی تھی اُسی کے خسرہ نمبروں میں فیکٹری کی دیوار بنی ہوئی تھی۔ ہم مالک رقبہ کو تمام خسروں کی قیمت دے چکے تھے لیکن قبضے کے وقت خرید کردہ زمین قریباً 6-7 کنال کم نکلی۔ مسئلہ بن گیا۔ فیکٹری کے عملے سے بات ہوئی تو اُنہوں نے میرے سٹاف کو جھنڈی دکھا دی بلکہ اُنہوں نے بدتمیزی کا بھی مظاہرہ کیا، میَں سائٹ پر خود آیا اور معلوم کیا کہ یہ فیکٹری چوہدری پرویز الہی کی ہے جو چوہدری ظہور الہی کے بھتیجے ہیں۔ اُن دِنوں پرویز الہی سیاست میں نہیں آئے تھے۔ یہ میں 1974/75 کی بات کر رہا ہوں۔ اُن دِنوں میرے پاس مزدا کار 929 تھی۔ بڑی گاڑی تھی اور اُس زمانے کے لحاظ سے بارعب بھی تھی کیونکہ ابھی پاکستان میں پیجرو، نسان پیٹرول یا پریڈو جیسی رعب داب والی SUVs نہیں آئی تھیں۔ برٹش ساختہ لینڈروور ہی بڑی گاڑی سمجھی جاتی تھی۔ فیکٹری منیجر اور عملے کو میَں نے فیکٹری سے باہر بلوایا، یہ کام میرے ہنجروال کے بینک منیجر نے کیا۔ اُس نے غالباًمیری ایسی تصویر کشی کی کہ فیکٹری منیجر اور دوسرا عملہ باہر آکر نہایت ادب سے کھڑا ہو گیا۔ میری شخصیت عام سفید پوش جنٹلمین کی تو ہو سکتی تھی لیکن کسی MPA/MNA والی تو کبھی نہ تھی، لیکن اس خاص موقع پر اپنی کار سے میَں اسی طرح باہر آیا جس طرح بڑے سرکاری اَفسر چہرے پر حکومتی سنجیدگی طاری کر لیتے ہیں۔عوام کے سامنے اس اداکاری کا تجربہ تو مجھے تھا کیونکہ بطور اسسٹنٹ کمشنر بعض اوقات اس قسم کی مصنوعی شخصیت بنانے کی ضرورت پڑجاتی تھی خاص طور پر جب میں سندھ میں تعینات تھا۔
فیکٹری منیجر پڑھا لکھا نظر آ رہا تھا۔ پوچھنے پر اُس نے بتایا کہ چوہدری پرویز الہی ہفتے میں دو روز فیکٹری آتے ہیں۔ اگلے روز آئیں گے، اُنہیں یہ سب معاملہ بتائیں گے، پھر جو بھی آپ اور چوہدری صاحب کے درمیان طے ہو گا اُس پر فوراً عمل کیا جائے گا۔ بات معقول تھی۔ دوسرے روز چوہدری پرویز الہی سے فیکٹری کے احاطہ میں ملاقات ہوئی۔ غالباًفیکٹری منیجر اور UBL ہنجروال منیجر نے میرا غائبانہ تعارف مناسب الفاظ میں کروایا ہو گا۔ پرویز الہی بڑے ادب سے پیش آئے معاملہ فہمی سے کام لے کر مجھے انہوں نے چوہدری صاحب کہہ کہ مخاطب کیا، اپنی اور عملے کی کوتاہی کی معذرت کی اور مجھے بڑا قابلِ عمل حل بتایا جو مجھے پسند آیا۔ سوسائٹی نے تو تمام خسرے نمبروں کی رجسٹری بھی کروا لی تھی اور مالک کو رقم بھی دے دی تھی۔ اُس سے سوسائٹی رقم مشکل سے ہی واپس لے سکتی تھی۔ سوسائٹی اگر مقدمہ بازی کرے گی تو لامحالہ اُس قانونی لڑائی میں فیکٹری بھی شامل ہو جائے گی۔ ٹائم اور پیسہ ضائع ہو گا۔ بہتر حل یہ ہے کہ سوسائٹی کا جتنا رقبہ فیکٹری میں آچکا ہے وہ آپ فیکٹری کو فروخت کر دیں اُسی قیمت پر جو اصل مالک نے سوسائٹی سے حاصل کی، واقعی یہ بہت اچھا حل تھا۔ اس وقت میرے وہم و خیال میں بھی نہ تھا کہ آگے چل کر چوہدری پرویز الہی پنجاب کا بڑا سیاستدان بنے گا۔ وزیر اعلیٰ بنے گا۔ لیکن یہ ضرور ہوا کہ چوہدری پرویز الہی سے اچھی دُعا سلام ہو گئی۔ جو 2006 تک قائم رہی جب یہ پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ تھے اور GMسکندر اُن کے پرنسپل سیکرٹری تھے۔ آہستہ آہستہ ملنا جُلنا کم ہوتا گیا۔ چوہدری پرویز اعلیٰ کو میَں نے صلح جُو اور معاملہ فہم پایا۔ اَفسروں سے احترام سے بات کرتے دیکھا۔ گفتگو کرتے وقت چہرے پر کبھی تکبر نہیں آیا۔ اُن ہی دِنوں اپنے برخوردار مونس الہی سے بھی مجھے مِلاوایا، اُسے بھی میَں نے با ادب پایا۔(جاری ہے)