مودی،کاظم خان اور ہماری حکومت

پاک بھارت کشیدگی کی بازگشت بڑھتے ہوئے اب سرحدوں پر بھی سنائی دینے لگی ہے تو پاک فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر نے بھی واضع کر دیا ہے کہ اگر ہم پر جنگ مسلط کرنے کی کوشش کی گئی تو فیصلہ کن یقینی جواب دیں گے،دو دیرینہ دشمن ملک ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑے ہیں، لفظی گولہ باری ہو رہی ہے، دشنام طرازی کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ عروج پر ہے، بھارت کا یہ وتیرہ رہا ہے کہ جب بھی وہ عالمی قوانین کے منافی کوئی اقدام کرتا ہے تو عالمی سطح پر کسی نان ایشو پر واویلا کر کے دنیا کی توجہ اصل ایشو سے ہٹانے کی بھونڈی کوشش کرتا ہے،بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے گزشتہ دنوں پاکستان اور بھارت میں دریائی پانی کی تقسیم کے معاہدے کو تسلیم کرنے سے انکار کیا یہ معاہدہ ورلڈ بینک کی نگرانی میں طے پایا تھا،تین دریا راوی،ستلج اور بیاس معاہدے کے تحت بھارت کے حصے میں آئے بھارت نے عالمی قوانین کے خلاف اس کا سو فیصد پانی روک لیا،جبکہ عالمی قانون کے مطابق بھارت اتنا پانی ان دریاؤں میں چھوڑنے پر مجبور ہے، جس سے دریا خشک نہ ہوں اور دریاؤں کے اطراف آبادیوں کی پانی کی ضرورت پوری ہوتی رہے،اسی پر اکتفا نہیں کیا،بلکہ عالمی معاہدہ کے برعکس دریائے جہلم اور چناب پر بھی ڈیم بنانا شروع کر دیئے اور ان دریاؤں کا پانی بھی استعمال کرنے لگا،اس لاقانونیت پر پاکستان کا رد عمل جائز،مگر بھارت نے اس مسئلہ سے عالمی توجہ ہٹانے کے لئے پہلگام پر حملے کرا دئیے،حملوں کے چند منٹ بعد ایف آئی آر بھی کاٹ دی گئی اور براہ راست پاکستان کو مورد الزام ٹھہراکر لفظی گولہ باری شروع کر کے جنگ کا ماحول بنا دیا۔
ایسی نازک صورتحال میں ہماری بہادر افواج نہ صرف اپنے ملک اور اس کی سرحدوں کی حفاظت کرنا جانتی ہیں، بلکہ دشمن کو جواب دینا بھی انہیں آتا ہے، مگر دوسری طرف ہماری حکومت نے پیکا ایکٹ کے تحت صحافیوں اور اخبارات کے خلاف جنگ کو تیز کر دیا ہے،یہ موقع قوم کو حقائق سے آگاہ اور مورال بلند کرنے کا ہے،بھارتی میڈیا جو بھارتی آرمی سے زیادہ جنگ کا ماحول بنائے ہوئے تھا کو کڑا جواب دینے کے لئے ہمارا میڈیا اپنا کردار ادا کر رہا ہے، عوام بھی بیدار ہیں،مگر حکومت میڈیا کے ساتھ کیا کر رہی ہے؟ایسے حالات میں سی پی این ای کے نو منتخب صدر کاظم خان نے آزادیئ اظہار کا علم ایک بار پھر بلند کیا ہے۔ دنیا گروپ کے کاظم خان اخباری ایڈیٹرز کی تنظیم سی پی این ای کے صدر اور ایکسپریس گروپ کے ایاز خان سینئر نائب صدر منتخب ہو گئے ہیں، روزنامہ ڈیلی پاک کے غلام نبی چانڈیو سیکرٹری جنرل اور روزنامہ ”غریب“ کے تنویر شوکت کو ارکان نے ڈپٹی سیکرٹری جنرل منتخب کیا ہے،کاظم خان نے منتخب ہونے کے بعد واضع کیا ہے کہ ”ملکی سرحدوں کی جی جان سے حفاظت کی جائے گی،خواہش پر مبنی خبروں کے بجائے سچی اور تصدیق شدہ خبروں کو اہمیت دی جائے گی، مگر پیکا ایکٹ کے ناجائز استعمال کے خلاف مزاحمت بھی جاری رہے گی، حکمرانوں کو توہین اور تنقید میں فرق سمجھنا ہو گا“انہوں نے اشتہارات کی غیر منصفانہ تقسیم پر بھی تنقید کی اور کہا حکومت کو اشتہارات کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنانا ہو گا،کاظم خان کی باتیں اپنی جگہ اہمیت کی حامل ہیں، یہ بات بھی سو فیصد درست ہے کہ عوام کو صحافت سے آج بھی بہت امیدیں ہیں،کون انکار کر سکتا ہے کہ آج کے دور میں عوامی مسائل،مشکلات،نا انصافی،ظلم و جبر کی داستان حکمرانوں تک پہنچانے کا واحد ذریعہ اخبارات ہیں، عوام کو بھی یقین ہوتا ہے کہ جو واقعہ اخبارات کی زینت بن گیا اس پر ضرور ایکشن ہو گا اور کچھ نہیں تونوٹس ضرور لیا جائے گا۔
یہ بہت بڑی حقیقت ہے کہ اس وقت حکمرانوں کی کارکردگی کو عوام تک پہنچانے اور عوام کے مسائل حکمرانوں کے گوش گزار کرنے کا واحد ذریعہ اخبارات ہیں،مگر آج کا اخبار،اخبار مالک اور اخبار نویس خود تلوار کی دھار پر چل رہا ہے،ایسے میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس اور پریس کلبز کے ساتھ ساتھ سی پی این ای، اخبار مالکان، اخبار نویسوں اور قاری کی امیدوں کا مرکز ہے،اب کاظم خان اور ایاز خان کا فرض منصبی بھی ہے اوران کے عہدوں کا تقاضا بھی کہ اخبار مالکان،اخبار نویسوں اور اخباری کارکنوں کی مسیحائی کریں اور سالہا سال سے حل نہ ہونے والے مسائل کے حل کی طرف توجہ دیکر صحافتی صنعت کو تباہی سے بچانے میں اپنا کردار ادا کریں،ہماری دُعا ہے رب ذوالجلال سی پی این ای کی نو منتخب باڈی کو اندرون ملک اقدار و روایات، آزادی صحافت اور سرحدوں پر دشمن کی چھیڑ چھاڑ کا قلم سے مقابلہ کرنے کا عزم حوصلہ اور توفیق دے۔
مجھے نوم چومسکی کے 12 سال پہلے لکھے گئے الفاظ ذہن میں اُبھرتے ہیں،2013ء میں اپنی کتاب ”نیوکلیئر وار اینڈ انوائرمینٹل کیٹسٹروف“ میں نوم چومسکی نے متنبہ کیا تھا کہ ”ہماری نسلوں کو بقاء کے لئے دو اہم مسائل لاحق ہیں، ایک جوہری تنازع دوسرا ماحولیاتی تباہی“،اس جملے میں شامل جوہری تنازع اور اس کے سنگین خطرے سے تو سب ہی واقف ہیں لیکن بڑے پیمانے پر یہ شعور نہیں کہ ماحولیاتی تباہی کا پہلو کس قدر تشویش ناک ہے، یہ بالخصوص جنوبی ایشیا کے لئے اہم ترین مسئلہ ہے جہاں بڑھتی ہوئی شہرکاری کے مسائل کا سامنا خطے کے دریا کر رہے ہیں، بڑے بڑے ڈیمز پانی کے بہاؤ کی راہ میں رکاوٹ بن رہے ہیں، جبکہ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے پہاڑوں پر جمی برف تیزی سے پگھل رہی ہے،پاکستان اور بھارت دونوں ہی مشترکہ طور پر سیلاب اور خشک سالی کے چیلنجز کا سامنا کر رہے ہیں، ایسے میں اگر دونوں ممالک کے درمیان پانی کی تقسیم پر بھی تنازع کھڑا ہوگیا تو یہ ایک مہلک بحران کی صورت اختیار کرلے گا۔
سانحہ پہلگام انتہائی لرزہ خیز تھا، لیکن اسے جواز بنا کر طبل ِ جنگ نہیں بجایا جاسکتا اور نہ ہی پانی کی تقسیم کو ہتھیار بنا کر یا نفرت پھیلا کر مسائل سے نمٹا جاسکتا ہے، ردعمل کے طور پر پاکستان نے بھارت کو خبردار کردیا ہے کہ پاکستان کے پانی کا رُخ موڑنے کی اگر کوئی بھی کوشش کی گئی تو اسے اعلانِ جنگ سمجھا جائے گا،ابھی کے لئے بھارت کی دھمکی صرف نظریاتی ہے اس پر اتنی لاگت اور وقت صرف ہوگا کہ بھارت کو اپنی دھمکی کو حقیقت کا روپ دینے میں کم از کم دو دہائیوں کا وقت لگے گا،یہ بھی طے ہے کہ بھارت کو کوئی دشمن اتنا نقصان نہیں پہنچا سکتا تھا جتنا مودی نے پہنچایا ہے اور مسلسل پہنچا رہا ہے،پاک بھار ت دو ایٹمی طاقتیں ہیں ان میں جنگ بھی اب روائتی نہیں ہو گی،کسی طرف سے بھی ایٹم بم پھینکا جا سکتا ہے،اس کے باوجود پانی کا مسئلہ جوں کا توں رہے گا،یہ تو پاک فوج کی پیشہ وارانہ مہارت ہے جس نے بھارت کے سیلاب کو روک رکھا ہے، قوم پاک فوج کے شانہ بشانہ ہے اور کسی بھی مرحلے میں پیچھے نہیں ہو گی، کوئی جنگ نہیں جیتی جا سکتی جب تک قوم اس میں شامل نہ ہو اور قوم کو فوج کی پشت پناہی کے لئے تیار کرنا ایک آزاد صحافت کا کام ہے،مگر کیا ہماری صحافت آزاد ہے؟
٭٭٭٭٭