میاں شہباز شریف کی گرفتاری کیاانتقامی کارروائی ہے ؟
سابق وزیر اعلٰی پنجاب اور قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے قائد میاں شہباز شریف کی نیب کی جانب سے گرفتاری کے بعد یہ واویلا شدومد سے مچایا جانے لگا ہے کہ نیب پارٹی بن چکی ہے،نیب انتقامی سیاست کے لئے حکومت کی اعانت کررہی ہے، اس نے تعصب کی بنیاد پر ن لیگ کا ٹرائل شروع کررکھا ہے حالانکہ ن لیگ کے قائدین کے علاوہ بھی نیب کورٹ میں ایسی بڑی شخصیات کے کیسز موجود ہیں جن پر چیونٹی کی رفتار سے پیش رفت ہورہی ہے جبکہ شریف برادران کے خلاف اس قدر افراتفری اور تیزی سے احتساب کے نام پر ٹرائل کیا جارہا ہے جو کہ انتقام کے سوا کچھ نہیں ہے ۔انہیں صاف پانی کیس میں انکواریوں کا سامنا تھا مگر انہیں گرفتار آشیانہ کیس میں کیا گیا ہے ۔ جس سے حکومت کی منشا کھل کر سامنے آرہی ہے کہ شریف برادران وخاندان کو ایک ایک کرکے کورٹ کچہریوں میں رسوا کیا جائے اور کال کوٹھریوں تک لے جا کر عبرت کا نشانہ بنا دیا جائے ۔یہ ن لیگ کے ترجمانوں کے علاوہ کئی تجزیہ کاروں کی بھی رائے ہیں جو سیاسی مضمرات کا خوب اندازہ رکھتے ہیں اور انہیں اس بات کا بھی احساس ہے کہ قانون جب ایسے حالات میں کسی بڑے پر سخت ہاتھ ڈالتا ہے تو یقینی طور پر اسکے درپردہ مفادات کچھ اوربھی ہوتے ہیں کیونکہ حکمران اداروں کے ذریعے ہی اپنا انتقام پورا بھی کرتے ہیں اور یہ روایت ہمارے ہاں ستر برسوں سے قائم ہے۔ خود ن لیگ کو اس سے مفر نہیں،پیپلز پارٹی کے خلاف سب سے زیادہ سخت ترین احتسابی کارروائیاں ن لیگ کی حکومت کے دوران ہی معرض وجود میں آئیں جبکہ پیپلز پارٹی اپنے جنم سے انتقامی سیاست کی قابل مذمت تاریخ کی حامل ہے ۔
بادی النظر میں اہل نظر کو میاں شہباز شریف کی گرفتاری سازش ہی لگ رہی ہے ۔چودہ اکتوبر کو ضمنی انتخابات ہورہے ہیں جس میں اگر ن لیگ واضح اکثریت لے لیتی ہے تو پی ٹی آئی کی حکومت کو مرکز اور صوبے دونوں میں واضح جھٹکا لگ سکتا ہے لہذا ایسی صورتحال اور امکانات کو فوری روکنا حکومت کی مجبوری بھی بن سکتی ہے کہ ان کیسز کی آڑ میں سخت قدم اٹھانے پر اداروں کو مجبور کردے ،جیسا کہ ماضی میں ہوتا آیا ہے ۔کوئی ایک حکمران جماعت یا فرد اس شرمناک حقیقت کو رد نہیں کرسکتا ۔ نیب نے میاں شہباز شریف کو گرفتار کرنے سے پہلے انہیں فواد حسن فوادکے سامنے بیٹھا کر انکی تسلی بھی کرادی ہے کہ دیکھئے آپ کا یہ آدمی کیا کہہ رہا ہے ۔میڈیا رپورٹس کے مطابق فواد حسن فوادنے میاں شہباز شریف کے سامنے انکوائری کے دوران تسلیم کیا اور کہا بھی کہ وہ وہی کچھ کرتے رہے جو انہیں شہباز شریف کہتے تھے ۔گویا اسٹبلشمنٹ کے اندر ن لیگ کا مضبوط ترین مہرہ سلطانی گواہ بننے جارہا ہے جس کے لئے نیب نے بڑاقدم اٹھانے کا فیصلہ کیا اور آشیانہ ہاوسنگ سکیم میں موجود کرپشن کا سارا ٹوکرہ میاں شہباز شریف کے سر پر رکھ دیا گیاہے ۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ میاں شہباز شریف کو ضمنی انتخابات پر اثر انداز ہونے سے روکنے کے لئے نیب نے گرفتار کیا ہے تو اس واویلا یا الزام کو منطقی طور پر درست ثابت کرنے کے لئے چودہ اکتوبر کے گزرنے کا انتظار کرنا ہوگا ،بالکل وہی معاملہ کہ جیسے بڑے میاں صاحب کو بڑے قومی انتخابات پر اثر انداز ہونے سے روکنے کے لئے اڈیالہ بھیج دیا گیا اور جب پی ٹی آئی حکومت نے اقتدار کا ہنی مون پیریڈ پورا کرلیا تو انہیں ضمانت پر رہا کردیا گیا ۔ان کی رہائی تک ن لیگ کے ساتھ جو کچھ کرنا تھا ،وہ ہوچکاتھا ،اب 36 کے قریب قومی و صوبائی سیٹوں پر ضمنی انتخابات ہونے جارہے ہیں تو اس چھوٹے الیکشن میں چھوٹے میاں صاحب کو اندر کردیا گیا ہے ۔لیکن حالات کی شہادت یہ ہے کہ چھوٹے میاں صاحب تو اس وقت باہر تھے لیکن ایڑھی چوٹی کا زور لگا کر بھی پی ٹی آئی اور متحدہ اپوزیشن پر اپنا قائدانہ تاثر قائم نہ کر سکے تھے ،ن لیگ کی سیاست کا اصل محور اور طاقت بڑے میاں صاحب ہیں ،اس لئے یہ بات سوچنا پاپ لگتا ہے کہ انہیں ضمنی انتخابات کی وجہ سے جیل بھیجا جارہا ہے حالانکہ بڑے میاں صاحب اور مریم بی بی تو آزاد ہیں ۔اور جاتی عمرہ میں اہل سیاست نے طواف شروع کردئیے ہیں ۔ ان حالات میں میاں شہباز شریف کی گرفتاری اور اسکے سیاسی مضمرات کا اندازہ لگانا محض قیاس وگمان کے سوا کچھ نہیں۔
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں،ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔