پولیس آفیسرکروڑوں روپے کرپشن انکوائری میں گنہگار
ہمارے ملک کی پولیس کا پوری دنیا میں کوئی ثانی نہیں۔ پولیس، تھانہ اور کچہری میں شریف لوگ نہ صرف جانے سے گھبراتے ہیں بلکہ کسی چوراہے پر بھی کوئی کانسٹیبل نظر آجائے تو عوام مجبوراً اپنا راستہ بدل لیتے ہیں۔پولیس کے نظام میں سیاسی مداخلت سرائیت کرچکی ہے۔ ممبران اسمبلی کا کیسز اور ٹرانسفر پوسٹنگ پر اثر انداز ہونا پولیس اپنے لیے فخر کا باعث سمجھتی ہے۔ ہمارے ملک کی اشرافیہ اپنا ہر جائز و ناجائز کام کروانے کیلئے پولیس کو استعمال کرتی ہے۔ پولیس کی جانب سے بھتہ نہ ملنے پر بیگناہ شہریوں کے قتل اور جھوٹے مقدمات کی بیسیوں مثالیں موجود ہیں۔ چوروں اور لٹیروں کو ان کی پشت پناہی حاصل ہے۔ رشوت کی تو بات ہی مت کیجیے، چائے پانی کے نام پر عوام سے موٹی رقم بٹوری جاتی ہے۔ پولیس کو بنانے کا مقصد ایسی ٹیم کا قیام تھا جو نہ صرف قوانین پر عمل درآمد کرواسکے بلکہ شہریوں کے جان ومال کی حفاظت کو بھی یقینی بنائے، مگر ہمارے معاشرے میں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ عوام اپنے حقوق لینے سے بھی گھبراتے ہیں، کیونکہ انہیں چور، ڈاکوؤں اور مافیا سے زیادہ پولیس اہلکاروں سے خوف آتا ہے۔ چھوٹی موٹی کرپشن پر یوں تو لاہور میں متعدد افسروں کے تبادلے ہوتے رہے ہیں لیکن پچھلے دنوں ایک ایسے پولیس آفیسر کا تبادلہ بھی کیا گیا ہے جو اپنی پوری ٹیم کیساتھ اس گھناؤنے کارو بار میں ملوث تھا جب انکوائری کی گئی تو معلوم ہوا کہ موصوف ایس پی 7کروڑ روپے سے زائد کی کرپشن میں ملوث پائے گئے ہیں اور وہ اکیلے نہیں ان کیساتھ کام کرنیوالی ٹیم کے 14اہلکار بھی شامل ہیں اب دیکھتے ہیں آئندہ ان کیخلاف کیا کارروائی عمل میں لائی جائیگی ایس ایس پی عہدے کے انکوائری آفیسر نے فی الحال تو انہیں گنہگار قرار دیکر محکمانہ انکوائری کی ہدایت کی ہے انکوائری میں گنہگار پانیوالوں میں سابق ایس پی ڈولفن، انسپکٹر پٹرول پمپ جاوید ایم ٹی او ڈولفن سب انسپکٹر ریاض گوندل،ایم ٹی او پیرو سب انسپکٹر ناصر خان،اے ایم ٹی او اے ایس آئی شاہد، ڈرائیور، ٹھیکیدار،پی اے اور ساتھ چلنے والی پوری ٹیم جن میں پانچ کے قریب کا نسٹیبل ہیں اس لٹ مار میں برابر کے شریک رہے،کرپشن میں ملوث اس ایس پی کی لاہور میں یہ پہلی تعیناتی نہیں تھی اس سے قبل بھی وہ انوسٹی گیشن جیسی ذمہ دار سیٹوں پر بھی کام کرتے رہے یہ جہاں بھی گئے ان کے متعلق یہ مشہور رہا کہ موصوف اعلی درجے کے کرپٹ ہیں لیکن تعیناتیاں پھر بھی ملتی رہیں انہیں پوسٹنگ سے نکالنے اور انکوائری کروانے کا کریڈٹ آئی جی پولیس ڈاکٹر عثمان انور اور لاہور پولیس کے سربراہ بلال صدیق کمیانہ کو ضرور جاتا ہے اور سب سے بڑھ کر اس کا کریڈٹ انکوائری آفیسرزایس ایس پی رانا طاہرالرحمن،انکی ٹیم اور ایس ایس پی رانا عمر فاروق کو جاتا ہے جنہوں نے حقائق پر مبنی انکوائر ی کر کے لوٹ مار کے ذریعے ہتھیائے گئے ایک ایک پیسے کی نشاندہی کردی ہے یقینا اس انکوائری کے دوران ان پر بھی بہت پریشر اور سفارشیں بھی آئی ہونگی لیکن انہوں نے میرٹ پر انکوائری کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ آئی جی پولیس ڈاکٹر عثمان انور اور لاہور پولیس کے سربراہ بلال صدیق کمیانہ کی ٹیم کے ایماندار آفیسرز ہیں۔ایسے آفیسرز کو جوپولیس کی سربلندی کا بوعث بنتے ہوں انہیں اور ان کی ٹیم کو انعام سے نوازنا چاہیے جبکہ ایسے کرپٹ افسران کو محکمے سے نکالنے کے کمانڈر کو سر دھڑ کی بازی لگادینی چاہیے۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ لاہور میں دیگر کئی افسران پر بھی مبینہ کرپشن کے الزام سامنے آئے ہیں سی سی پی اوکی جانب سے ان کیخلاف بھی انکوائری کروانے کا فیصلہ کیا گیاہے۔پاکستان میں پولیس کے اندر صاف شفاف اور موثر احتسابی نظام بنانے کی ضرورت ہے تاکہ پولیس کی کارکردگی کو بہتر بنایا جا سکے-اختیار ذمہ داری اور احتساب ہی وہ بنیادی اصول ہیں جو کسی بھی ریاستی ادارے کی کامیابی کے ضامن ہوتے ہیں -افسوس ہم ابھی تک پولیس کے احتساب کا نظام بھی تشکیل نہیں دے سکے- پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں پولیس کے بنیادی اصولوں کے مطابق میٹروپولیٹن پولیس ادارے قائم کرنے کی ضرورت ہے جو خود مختار ہوں اور ان میں کسی قسم کی سیاسی مداخلت نہ کی جا سکے اور نہ ہی طاقتور اور بااثر افراد پولیس کو اپنے ذاتی اور گروہی مفادات کیلئے استعمال کر سکیں -سر رابرٹ پیل نے 1829میں لندن میٹرو پولیٹن پولیس کی تشکیل کیلئے جو بنیادی اصول طے کئے وہ آج بھی قابل عمل ہیں - پولیس کا بنیادی مشن جرائم کو روکنا اور امن قائم کرنا ہوتا ہے تاکہ ریاست کا نظم و نسق خوش اسلوبی کیساتھ چلتا رہے-پولیس کی کامیابی اور اہلیت کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ عوام اس کے اقدامات کی تعریف کریں -پولیس جب آئین اور قانون پر بلاتفریق بلاامتیاز عمل کرتی ہے تو اسے عوام کا اعتماد حاصل ہوتا ہے اور یہ عوامی اعتماد ہی پولیس کی کامیابی کا ضامن بنتا ہے-پولیس جب عوام پر ڈنڈے کی طاقت استعمال کرتی ہے تو اس کے اور عوام کے درمیان فاصلے پیدا ہو جاتے ہیں لہٰذا لازم ہے پولیس تشدد کرنے سے گریز کرے اور عوام کو قائل کرنے پر زور دے-پولیس غیر جانبداری اور شفافیت کیساتھ ہی عوام کی ہمدردی حاصل کر سکتی ہے-پولیس عوام کیساتھ اس نوعیت کا رابطہ اور اشتراک رکھے کہ یوں محسوس ہو جیسے عوام پولیس ہیں اور پولیس عوام ہے- پنجاب پولیس جتنی آج کرپٹ ہو گئی ہے،تاریخ میں ہم نے اسے اتنا کرپٹ ہوتے نہیں دیکھا،تھانیدار سے لیکر ڈی ایس پی تک کرپشن کرتے ہیں ماضی میں یہ باتیں ضرور سنتے تھے مگر آج ایس پی،ایس ایس پی اور ڈی آئی جی رینک کے افسروں تک کرپشن میں ملوث ہونے کے چرچے عام ہیں ویسے تو یہ حال سبھی شہروں کا ہے اگر صرف لاہور کی بات کرلی جائے اس میں کوئی شک نہیں کہ سی سی پی او بلال صدیق کمیانہ، ڈی آئی جی انوسٹی گیشن زیشان اصغر،ڈی آئی جی آرگنائزڈ کرائم عمران کشور اور ڈی آئی جی آپریشنز فیصل کامران محنتی، دیانت دار اور محب الوطن ہیں اور وزیر اعلیٰ پنجاب کے ویژن کے عین مطابق پوری کوشش کررہے ہیں کہ پولیس میں کرپشن کا خاتمہ کرکے بہتری لائی جاسکے۔