سیاسی احترام
پاکستان مسلم لیگ ن اور مرکزی جمعیت اہلحدیث کا سیاسی تعلق اور اتحاد پچھلے 34 برس سے قائم و دائم ہے اور الیکشن 2024ء میں بھی یہ اتحاد اپنے سیاسی حریفوں کو شکست دینے کیلئے پر عزم ہے، یہاں میں نے لفظ استعمال کیا ہے سیاسی حریف تو اس کو صرف سیاست میں ہی حریف سمجھا جائے، اس لفظ حریف کو دشمنی یا خونی دشمنی والا حریف سمجھنے سے احتراز برتا جائے۔پاکستان مسلم لیگ ن اور مرکزی جمعیت اہلحدیث کے اس اتحاد کو اگر کسی بھی دو سیاسی جماعتوں کے طویل ترین اتحاد کا نام دیا جائے تو شاید میں اس میں غلط نہیں ہوں گا اور مجھے نہیں یاد کہ کسی بھی دو سیاسی جماعتوں نے ایک الیکشن میں انتخابی اتحاد قائم کرنے کے بعد اس سے اگلے الیکشن میں بھی اس تسلسل کو برقرار رکھا ہو۔ کیونکہ پاکستان میں عموما سیاسی اتحاد بنتے ہیں تو صرف ایک الیکشن کے بعد ہی وہ ایک دوسرے سے دست و گریبان نظر آ رہے ہوتے ہیں اور جب ان کی توقعات پوری نہیں ہوتیں تو وہ پھر ایک دوسرے پر اپنی ناکامی کا الزام لگا رہے ہوتے ہیں۔ جبکہ مسلم لیگ ن اور مرکزی جمعیت اہلحدیث کے اتحاد کی بات کریں تو یہ 34 سال سے قائم و دائم ہے اور کبھی ان دو سیاسی جماعتوں کے اتحاد کے درمیان ایسا موقع نہیں آیا کہ اس کے سیاسی کارکنان آپس میں دست و گریبان ہوئے ہوں یا ان دو سیاسی جماعتوں کے مرکزی رہنماؤں نے کبھی ایک دوسرے پر دشنام طرازی کی ہو اس لئے اس اتحاد کو ہم ملکی سیاسی تاریخ کا طویل ترین سیاسی اتحاد کہنے کے ساتھ اس کو پاکستان کی تاریخ کے شریفانہ سیاسی اتحاد کا نام بھی دے سکتے ہیں۔ اس سیاسی اتحاد کو چار دہائیوں تک طول دینے میں کس کا کردار اہم ہے اس کا اگر میں اپنے کالم میں ذکر کروں تو اس کا کریڈیٹ میں دو شخصیات کو دوں گا جنہوں نے زمانے کے سرد و گرم حالات کے باوجود اس اتحاد کو مزید مضبوط بنایا ہے پروفیسر سینیٹرساجد میر اور مسلم لیگ کے قائد میاں محمد نوازشریف ہیں جنہوں نے تمام تر مخالفتوں کے باجود مشکل سے مشکل حالات میں ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے رکھا اور سیاسی حریفوں کی سازشوں کے باوجود اس اتحاد کیلئے قربانیاں بھی دیں، چاہے وہ مشرف کا پر خطر دور ہو یا اس کے بعد میاں نوازشریف کی جلا وطنی یہ اتحاد قائم رہا، مشرف دور میں جب سینیٹ میں آمریت کیخلاف آواز بلند ہوئی تو یہ آواز بلند کرنے والا کوئی اور نہیں پروفیسر سینیٹرساجد میر تھے جنہوں نے مشرف کیخلاف سینیٹ میں ان کے وردی میں صدر منتخب ہونے کیخلاف ووٹ دیا اور اس زمانے میں یہ سینیٹ میں مشرف کیخلاف پڑنے والا واحد ووٹ تھا۔
اب اس اتحاد کو دونوں جماعتوں کی باقی ماندہ قیادت بھی آگے پروان چڑھانے میں ایک دوسرے کے دست و بازو بن رہی ہے جو کہ ملک کے سیاسی ماحول اور جمہوریت کیلئے ایک خوش آئند بات ہے کیونکہ ہمارے ہاں دیکھنے میں آیا ہے کہ عموما سیاسی جماعتیں انتخابی اتحاد تو کر لیتی ہیں لیکن اسے برقرار رکھنے میں مشکل پیش آتی ہے بلکہ پھر دونوں جماعتوں کی قیادت ایک دوسرے پر الزام تراشیاں شروع کر دیتی ہیں اور ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالا جاتا ہے، رکیک الزامات لگائے جاتے ہیں اور ایک دوسرے کو برداشت نہ کرنے کی بات کی جاتی ہے اور یہاں تک ہوتا ہے کہ یہ سیاسی دشمنیاں خونی دشمنیوں میں بدل جاتی ہیں لیکن اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے ان دونوں سیاسی جماعتوں کے درمیان احترام اور اخوت کا رشتہ قائم ہے اور میں اپنے کالم کے ذریعے سیاسی کارکنان کو پیغام دینا چاہوں گا کہ وہ بھی ان دو سیاسی جماعتوں کے اتحاد سے کچھ سیکھیں کہ ایک دوسرے کے ساتھ کیسے مل کر کام کیا جاتا ہے اور کیسے ایک دوسرے کو احترام دیا جاتا ہے، مل کر الیکشن بھی لڑتے ہیں وہی احترام کارکنان کی سطح پر منتقل ہوتا ہے۔ سیاسی ماحول اور سیاسی اتحاد اس طرح کے ہی ہونے چاہئیں اور یہ چیز سیاسی حدت کو کم کرنے کا بھی باعث بنتی ہے۔اسی سیاسی احترام کو مد نظر رکھتے ہوئے گزشتہ دنوں مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما اور سابق صوبائی وزیر رانا مشہو د احمد خان نے مرکزی جمعیت اہلحدیث کے چیف آرگنائزر چوہدری کاشف نواز رندھاوا(انہیں حال ہی میں پروفیسر ساجد میر نے جماعت کا چیف آرگنائزر مقرر کیا ہے)کے اعزاز میں ظہرانہ دیا جس میں دونوں جماعتوں کے رہنماؤں سمیت سیاسی و سماجی اور صحافتی شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے بھرپور شرکت کی۔
شرکت کرنے والوں میرے پرانے دوست اور معروف کالم نگار حفیظ اللہ نیازی،سلمان غنی، سابق ایم پی اے ماجد ظہور،حافظ یونس آزاد،ڈاکٹر عبدالغفور راشد، بابر فاروق رحیمی اور راقم الحروف بھی شامل تھے۔ کاشف نواز رندھاوا کا اگر میں ذکر کروں تو ان جیسے افراد سیاسی جماعتوں کی پہچان ہوتے ہیں، ایسے لوگ اگر متحرک اور فعال ہوں گے تو سیاست میں ایک مثبت اپروچ کا اضافہ ہو گا، کاشف نواز رندھاوا سے جب بھی ملک اور سیاسی حالات کے متعلق بات ہوئی ہے ان میں دین اور ملک کے حالات کے متعلق ایک تڑپ پائی جاتی ہے،جو ہمیشہ ملک کیلئے کچھ کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں اور جو چیز مجھے ان کی سیاسی سوچ میں پسند ہے وہ دین کو ہمیشہ مقدم رکھتے ہیں اور آخرت کی فکر ہمیشہ ان کی گفتگو میں شامل رہتی ہے اور ایسے لوگوں کو ہی اس وقت سیاست اور ملک کیلئے آگے آنا چاہئے۔اس ظہرانے میں جہاں ملکی حالات کا تذکرہ ہوا وہاں اس بات پر بھی گفتگو کی گئی کہ سیاسی جماعتوں کو ایک دوسرے کو سپیس دینی چاہئے اور ایک دوسرے کیلئے احترام کا جذبہ رکھنا چاہئے۔ سیاست میں ایک دوسرے کی مخالفت ضرور کریں لیکن کیچڑ مت اچھالیں ، ایک دوسرے کیخلاف الیکشن ضرور لڑیں لیکن بیچ چوراہے پر کسی کو بھی ننگا مت کریں، ایک دوسرے کیخلاف سیاسی اتحاد ضرور بنائیں لیکن ملک کیخلاف سازشیں نہ کریں، سیاسی حریف کو خاندانی دشمن نہ بنائیں، دشمنیوں اور لڑائی جھگڑوں میں نہ بدلیں کیونکہ پاکستان کو بھائی چارے اور اتحاد کی ضرورت ہے، اختلاف تو پہلے ہی بہت ہو چکا ہے،سیاسی جماعتوں کو ملک کا سوچنا چاہئے، کیوں کہ اقتدار کی سیاست تو ہر کوئی کرتا ہے لیکن اب وقت ہے کہ ملک کیلئے ایک ہوا جائے اور یہی سوچ مسلم لیگ کے قائد میاں محمد نوازشریف اور مرکزی جمعیت اہلحدیث کے سربراہ پروفیسر ساجد میر میں پائی جاتی ہے جس کا عزم لے کر دونوں کوشاں ہیں،دونوں قائدین کا ماننا ہے کہ اتحاد و اتفاق کی برکت سے ہی ملک خوشحال اور ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔