سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . . قسط 19

سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . . قسط 19
سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . . قسط 19

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

قصر کبیر کی فوجیں بے دست و پاکر دی گئیں۔ پھاٹکوں، غلام گردشوں اور ستونوں اور مورچوں اور دمدموں پر ترکمانوں کی تلواریں کھڑی کر دی گئیں اور اس وقت جب عیاش امیر المومنین کے بیمار ہاتھوں میں دوا کا پیالہ اور پیروں کے نیچے رومی کنیزوں کے برہنہ بدن لرز رہے تھے۔ قاہرہ کی جامع مسجد کے منبر پر موصل کے قاضی القضاۃ صمصام الدین خطبہ پڑھ رہے تھے اور خلیفہ بغداد کے حق میں دعا پڑھ رہے تھے۔

سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . . قسط 18 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

تین صدیوں کی خلافت ختم ہو گئی اور اتنی آواز بھی نہ ہوئی جتنی دو جانوروں کے ٹکرانے میں ہوتی ہے۔ تیسرے دن اس انقلاب سے لا علم عاضد کا انتقال ہو گیا ۔ اور قیراط نے اس کے سامنے شہنشا ہیت کی جمع کی ہوئی دولت ڈھیڑ کر دی جس میں ایک زمرد بارہ انگشت کا تھا اور ایک یا قوت’’جبل نور ‘‘ دو ہزار چار سو قیراط کے وزن کا تھا ۔ موتی اور ہیرے اور نیلم اور پکھراج اس طرح ڈھیر تھے جیسے منڈی میں اناج کے انبار لگے ہوتے ہیں۔ سونے کے تخت ، پلنگ ، کرسیاں، تپائیاں ، شیر ، چیتے ، مرغ، طاؤس ، گھوڑے ، مینڈھے سب سامنے لائے گئے۔ سونے اور چاندی کے ستونوں کے ان گنت شامیانے اور پچاس ہزار مرصع قبضوں کی تلواریں۔ مشک و عنبر کی ہزار ہا چیزیں ، ہاتھی دانت ، صندل اور آبنوس کو موم کی طرح ڈھال کر محیر العقول صناعی سے بنایا ہوا سامان اس کے سامنے سے گزارا گیا۔ وہ قالینوں ، دیوار پوشوں اور فانوسوں کی چھوٹی سی پہاڑی کے پاس کھڑا تھا کہ اگر ایلنیو ر نے اس مال کا دسواں حصہ بھی دیکھ لیا ہوتا تو ۔۔۔اور اس سے زیادہ وہ سوچنے پر رضا مند نہ ہو سکا اور خلیفہ راشد کی تقلید میں یہ تمام سامان سپاہ اور عوام میں کھڑے کھڑے تقسیم کر دیا اور عجائبات سے سجے ہوئے قصر الکبیر کی سکونت اپنے امیروں کو عطا کر دی اور خود یروشلم پر چڑھائی کے سامان کیلئے افریقہ میں ابریم تک اور یمن سے نغز تک زیر نگیں کر لیا۔
پھر شام و جزیر کا سلطان آقا نور الدین محمود زنگی کا انتقال ہو گیا اور ساری حکومت خود مختاری کا دم بھرنے لگی۔ ان کا گیارہ برس کا بیٹا حلب کے لالچی امیر گمشتگین کی تولیت میں تخت و تاج سے کھیلنے لگا اور موصل سے یروشلم تک سازش کے بادل امڈ آئے جو مصر کے اٹھتے ہوئے آفتاب کو غروب کر دینا چاہتے تھے۔ اس کے خون میں سپہ سالاری نے حکم لگایا۔ اگر ان چھوٹے چھوٹے لشکروں کو نہ سنبھالا گیا تو ایک دن بحرِ ذخاربن کر بغداد سے مدینہ تک ٹوٹے پھوٹے جہازوں کو ڈبو دیں گے ۔ وہ چیدہ سواروں کو رکاب میں لے کر اڑا قلعوں اور شہروں کا شکار کرتا ہوا دمشق کے دروازے پر جا پہنچا ۔ امیر دمشق نے تخت حکومت پیش کر کے قصر خالی کر دیا جسے ٹھکرا کر وہ اپنے باپ ایوب کے دروازے پر جا پہنچا ۔ داد ودہش کرتا اٹھا اور حلب کے دروازے کو کھلنے کا حکم دیا ۔ حلب آقازادے صالح کا دارالحکومت تھا اور گمشتگین کے ہاتھوں میں سونے کا انڈا دینے والی مرغی بنا ہو اتھا۔ حلب کے دروازے مسلمانوں کو تقدیر کی طرح بند رہے ۔ پھر سات آٹھ برس کا صالح تاج پہن کر اور گمشتگین کی انگلی تھام کر شہر کے برج پر آیا اور رعایا سے دروازے پڑے ہوئے لشکر کو ہٹا دینے کی درخواست کی۔ اس کے آنسو ؤں نے مدافعت کو شعلہ سامان کر دیا۔ تب اس نے بغداد ار قرطاجنہ کے درمیان سب سے بڑے سپاہی نے مصر سے کمک طلب کی اور دمشق کی منجنیقیں اور دبابے مہیا کرنے کا حکم دیا۔
حلب کا قلعہ ایک گول نکیلی چکنی پہاڑی پر تھا جو اردگرد کی ہموار سطح سے کئی ہزار فٹ بلند تھی اور موسم سرما عروج پر تھا ۔ پہاڑوں کی چوٹیاں سفید دلائیاں اوڑھے کانپ رہی تھیں۔ حلب کے چاروں طرف پھیلی ہوئی فوج الاؤروشن کئے کمک کا انتظار کر رہی تھی کہ ایک خط گرفتار ہو کر پیش ہوا جس میں گمشتگین نے طرابلس کے نواب ریمنڈ اور یروشلم کے بادشاہ کو لکھا تھا۔
’’امیر طرابلس اور شاہ یروشلم کو معاہدے کی اولین دفعہ کے مطابق مطلع کیاجاتا ہے کہ مصر کا غاصب بادشاہ یوسف ابن ایوب ہمارے صوبوں کو غارت کرتا ہوا دارالحکومت پر چڑھ آیا ہے۔ آپ دوسرے حلیف شاہ صقلیہ کی امداد لے کر اس کی پشت پر حملہ کریں۔ ہم کیفااور ماروین کے فرمانروا اشار کے انتظار میں بیٹھے ہیں۔ آپ کے حرکت کرتے ہی فاطمی مصر د بالیں گے اور ہم یلغار کریں گے۔ تاکید سے مطلع کیا جاتا ہے کہ یوسف بن ایوب جو مصر سوڈان اور یمن فتخ کر چکا ہے شام اور جزیرے کے بعد یروشلم کی طر ف متوجہ ہو گا۔ وہ مشرق کی شہنشاہی کا خواب دیکھ رہا ہے ۔ آپ اس معاملے کی سنگینی پر توجہ دیں ۔

لائیو ٹی وی نشریات دیکھنے کے لیے ویب سائٹ پر ”لائیو ٹی وی “ کے آپشن یا یہاں کلک کریں۔
مہر برائے
گمشتگین اتالیق سلطنت جزیرہ و شام‘‘
خطر پر صالح اور گمشتگین کی دوہری مہریں تھیں۔ اس کو وہ سازش یاد آگئی جس میں صقیلہ کا بحری بیڑہ ، یروشلم کی مرکب سوار فوجیں اور فاطمیوں کی دولت نے ایک ساتھ شریک ہو کر اس کی بربادی کا دام بچھایا تھا۔
خط میر عدل کے حوالے کر کے انتظام میں مصروف ہو گیا۔ پھرپرچہ لگا کر ریمنڈ نے حمص کو لے لیا۔ حمص جو اس کا اسلحہ خانہ اور رسد گاہ تھا ۔ اس نے مجبور ہو کر محاصرہ اٹھایا اور آندھی کی طرح حمص پر چلا اور ریمنڈ کے چالیس ہزار لشکر سے ایک ایک گردن کا حساب کیا۔
بعلبک کے مشہور عیسائی کو خون میں نہلا کر اور برف پوش مورچوں کا لالہ زار بنا کر چلاتو دریائے عاصی کے کنارے موصل، حلب ، کیفا اور ماردین کے متحدہ لشکر کا سامنا ہوا یعنی عہد نامے کی دوسری شق پوری ہوئی ۔ اس سازش کا جس میں مذہب و ملت کی قید اٹھ چکی تھی، دوسرا قدم سامنے تھا۔ امیر انِ بارگاہ نے گزارش کی کہ تازہ دم لشکر کا انتظار کیا جائے لیکن جلا وت نے گوارہ نہ کیا اور گھوڑے اٹھا دیئے اور ایک ہی یلغار میں میدان چھین لیا۔
(جاری ہے،اگلی قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں )