سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . . قسط 20
دمشق آکر صالح کا نام خطبے سے اڑا دیا اور اپنا خطبہ پڑھایا۔ سکّہ مضروب کرایا اور صلاح الدین کا لقب اختیار کر کے تاج پہن لیا۔ دوسری بار حلب پر چڑھائی کر دی۔ مکمل ناکہ بندی کر کے شہر لے لیا اور قلعے کی دیواروں پر منجیقیں لگا دیں۔ اور طغرل اور طفتگین کو قہر ناک فوجیں دے کر کیفا اور مار دین کی گوشمالی کے لئے روانہ کیا اور خود اپنی کمان میں لشکر کی موجیں قلعے کی برف پوش چوٹیوں پر چڑھا دیں اور یقین کیا کہ صبح تک فتح قدموں میں پڑی ہو گی۔
سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . . قسط 19 پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
حلب کی پہاڑی پر زرد شاہی بارگاہ پر زرد پرچم لہرا رہا تھا۔اندر وہ آبنوس کر کرسی پر بیٹھا تھا جس کے پایوں پر ہاتھی دانت کا کام تھا اور جوہرن کے سینگوں کی طرح باہر کی طرف نکلے ہوئے تھے جس کے دستوں اور پشت پر زرد مخمل چڑھا تھا اور تکیے پر چاندی کا فرانسیسی مرصع تاج رکھا تھا۔ سامنے یمن میں تربیت کیا ہوا وہ بچھڑا کھڑا تھا جو ایلنیور کے بخشے ہوئے گھوڑے سے نسل کشی میں نصیب ہوا تھا اور جو اپنے باپ کی طرح شوکت کا اظہار کر رہا تھا اور جس کی اداؤں سے وہ محفوظ ہو رہا تھا کہ سامنے کھڑے ہوئے ذاتِ خاص کے رسالے کے سپاہی نے خنجر نکال کر گرج کر بولا۔
’’شیخ الجبال کے حکم کے مطابق آپ محاصرہ اٹھالیں ورنہ قتل ہو جائیں گے۔‘‘
آخرلفظ کے ساتھ خنجر سینے میں تیر گیا اور وہ تڑپنے لگا ار ٹھنڈا ہو گیا۔ وہ دم بخود بیٹھا ۔ پھر تفتیش ہوئی ۔ پتہ چلا کہ اس فدائی نے ذاتِ خاص کے سپاہی کا بہروپ بھرا اور اصلی سپاہی کو قتل کر کے خود اس کی خدمت انجام دینے لگا۔ اور آج موقع پا کر یہ حرکت کی۔ بارگاہ پر زبردست پہرا قائم ہو گیا۔ تاج الملوک (ایک بھائی) بکتر پہن کر دروازے پر نصب ہو گئے ۔ وہ اپنے خیالوں میں گم تہجد کی نماز کیلئے اٹھا۔ سلام پھیر کر دعا کیلئے ہاتھ اٹھائے تھے کہ مدتوں کے وفادار خادم نے چُھرا چلا دیا۔ جسے طربوش کے نیچے لوہے کی گڑیوں نے روک لیا۔ دوسرے وار کو ہاتھوں پر سنبھالا اور تیسرے وار سے پہلے ہی تاج الملوک نے اس کے ٹکڑے اڑا دیئے ۔ مقتول بھی ترکمان خادم کے بھیس میں فدائی نکلا۔ سارے لشکر میں سنسنی پھیل گئی ۔ بڑے بڑے جلیل الشان سردار گھوڑوں پر سوار ہو کر ایک ایک آدمی کو کھوجتے پھرے۔ آخر ایک ترکمان نے نام و نسب کے سوال پر بہکے بہکے جواب دیئے اور گرفتار ہوا اور پیش کیا گیا۔ اسے اپنی مسند پر بٹھا کر قرآن مجید پر ہاتھ رکھا اور قسم کھائی کہ اگر اس نے سچ سچ ساری روداد سنا دی تو جان بخشی کر دی جائے گی ورنہ ایسی سزا ملے گی کہ جہنم کے عنقریب کانپ اٹھیں گے۔ وہ تھوڑی دیر گم سم بیٹھا رہا پھر بولا۔
’’میرا نام صہیب ہے۔ میں مشہد میں پیدا ہوا ۔ سترہ برس کی عمر میں دستار باندھی گئی اور مصیاف کی نظامت میں ملازم ہو گیا ۔ دن میں قلم گھستا اور رات میں شعر کہتا ۔ زندگی بھلی بری گزر رہی تھی۔ اس وقت تک میری کوئی نماز قضا نہ ہوئی تھی، کوئی روزہ ساقط نہ ہوا تھا۔ پھر میں اپنے ایک ہم پیشہ سے قریب ہو گیا۔ جب دوستی بڑھتی گئی تو میں نے اس سے پوچھا کہ تم نماز کیوں نہیں پڑھتے ۔ اس نے جواب دیا نماز وہ پڑھیں جو مرنے کے بعد جنت حاصل کرنا چاہیں۔ میں تو زندگی ہی میں جنتی ہو چکا ۔ اس جواب سے مجھ پر حیرت کی بجلی گر پڑی۔ جب میں نے تفصیل چاہی تو وہ مکر گیا۔آخر میں جستجو کی آگ میں پھینکنے لگا ۔ اور ایک دن اپنے آپ کو میں نے اس کے قدموں میں ڈال دیا۔ اس نے مجھے قبول کر لیا اور کہا کہ کل شام کو میرے پاس آنا ۔ میں سہ پہر ہی سے اس کے گھر جا کر بیٹھ گیا۔ مغرب کے بعد وہ گھر سے نکلا اور مصیاف کے قلعے کی فصیل کے نیچے بنے ہوئے مکانوں میں سے ایک مکان میں داخل ہو گیا۔ میں بھی اس کے ساتھ تھا۔ وہیں ایک کمرے میں اس نے میری آنکھوں پر پٹی باندھی اور میرا ہاتھ پکڑ کر چلا ۔ میں کوئی دو گھڑی تک چلتا رہا اور جب پٹی کھلی تو میں ایک کمرے میں تھا جس میں سفید چاندنی کا فرش تھا ،چھت پر فانوس روشن تھے، طاقوں میں عوددان مہک رہے تھے اور مسند پر ایک بزرگ متمکن تھے جو سفید عبا اور عمامہ پہنے تھے اور ان کی داڑھی عمامے سے زیادہ سفید تھی اور آنکھوں میں ستارے جل رہے تھے۔ میں نے ایسی پر جلال صورتیں زندگی میں دو چار ہی دیکھی تھیں۔ میں نے خود ہو کر ان کے سامنے دوزانوبیٹھ گیا ۔ ان کے نصف چہرے کے نقاب کا آخری سرا ان کے دونوں سفید ہاتھوں تک لمبا تھا۔ تھوڑی دیر بعد انہوں نے اپنا ہاتھ میرے سر پر رکھ دیا اور میں بے خود ہونے لگا ۔ پھر انہوں نے چاندی کا ایک لانبا گلاس مجھے عنایت کیا جو برف سے زیادہ ٹھنڈا ، دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھا تھا۔ میں نے ایک گھونٹ پیا۔ انہوں نے گلاس میرے ہاتھ سے لے لیا اور اپنا نقاب میرے سر پر ڈال دیا۔ اب مجھ پر رقت طاری ہوئی، ہچکیاں بندھ گئیں اور گریبان آنسوؤں سے تر ہو گیا۔ انہوں نے نقاب اٹھا لیا اور گلاس میرے ہاتھ میں پکڑا دیا۔ میں نے پورا پی لیا۔ میری روح تسکین اور طمانیت سے سیر ہو گئی۔ اور میں نے پھر ان کے مقدس ہاتھوں پر سر رکھ دیا۔ اب دنیا کے گھناؤ نے پر دے ہٹ چکے تھے اور میں جنت میں تھا ۔ میرا محل چاندی کا تھا۔ تمام ستون دیواریں ، محراب، فرش سب کچھ چاندی کا تھا۔ تمام دروازے سونے کے تھے۔ فرش کے قالینوں میں سونے کے تار پروئے ہوئے تھے اور پردوں پر موتی ٹنکے تھے۔ ہر کمرے میں ہرقسم کے کھانے اور شربت جو انسان تصور کر سکتا ہے موجود تھے۔ میں قاقم کا لباس، یا قوت کی جوتیاں اور ہیرے کا تاج پہنے ہوئے تھا۔ میرے لباس کو اگر بغداد کا خلیفہ دیکھ لیتا تو بھوک پیاس اڑ جاتی ۔ دروازوں پر غلمان کھڑے تھے جو موتیوں کے عمامے اور ہیرے کی پاپوش پہنے ہوئے تھے اور ان کے جسم سے ایسی خوشبو اٹھ رہی تھی جس کی نظیر نہیں ہو سکتی۔ میں جب ان کے سامنے سے گزرتا تو وہ جھک جھک کر سلام کرتے۔ پھر حوروں کا ایک پرا آیا، جن کی صورتوں کا انسان تصور نہیں کر سکتا۔ میں کسی کے حسن کو بیان نہیں کر سکتا۔ سب لامثال تھیں۔ ان میں سانولی ، سفید ، زرد، سرخ، ہر رنگ کی تھیں۔ سب کے شانوں پر پر تھے جن میں عقیق کی جھالریں لگی تھیں۔ ان کے جسم پر کپڑے کے بجائے ہیرے ، نیلم، عقیق، زمرد، فیروزہ، پکھراج اور موتی کے ہار اس طرح لپٹے ہوئے تھے کہ ستر پوشی ہو گئی تھی۔ وہ جب آئیں تو میں بدحو اس ہو گیا لیکن وہ سب میرا طواف کر کے مجھ سے بے تکلف ہو گئیں۔ کوئی میرے بالوں سے کھیلنے لگی کوئی میرے شانوں سے جھول گئی۔ ان کے منہ سے عنبر اور جسم سے مشک کی خوشبو آرہی تھی۔ میں ان کی بہار حسن کی گلچینی کرتا رہا اور اپنے پیر کو دعا دیتا رہا۔ پھر مجھے وہ باغ میں لائیں جس کی زمین مشک کی تھی ، کیا ریاں زعفران کی ، درخت چاندی کے ، شاخیں سونے کی، پھل اور پھول اور پتے عقیق اور زمرد کے تھے۔ اس کے بیچ میں شیشے کی نہریں تھیں جن میں شہد‘ دود ھ اور شراب بہہ رہی تھی۔ ان کے کنارے ہاتھی دانت کے تخت بچھے ہوئے تھے جن پر حوریں لیٹی بیٹھی تھیں جو مجھ پر نچھاور ہوئی جا رہی تھیں۔ ان میں سے کسی کے سر پر نقل کی کشتی ، کس کے کاندھے پر شراب کا کدو تھا اور کسی کی چمکیلی کمر پر شرابِ سرخ کی بلوریں صراحی تھی جس کے عکس سے اس کے عریاں کولہے جو خود شراب کے قرابے تھے، سرخ ہو گئے تھے۔ کچھ کے ہاتھوں میں موسیقی کے آسمانی آلات تھے جن سے ملکوتی نغمے پھوٹ رہے تھے پھر وہ گنگنانے لگیں۔ ایک نے تان لگائی اور مجھے محسوس ہوا کہ میرا دل سینہ توڑ کر نکل جائے گا۔ پھر ایک حور نے ناچنا شروع کر دیا۔ اور معلوم ہوا کہ اس کے رقص کے سحر سے زمین و آسمان ٹکرا کر چو ر چور ہو جائیں گے ۔ میرے پہلو سے لگی ہوئی حور نے دوسری حور کی کمر سے صراحی اتاری اور یشعب کے پیالے میں ڈھال کر مجھے دیا۔ وہ شراب طور تھی جو مزے میں شہد سے شیریں تر، برف سے سرد اور تیزی میں آگ سے کہیں تیز اور رنگ میں دودھ سے سفید تھی۔ میں نے دوسرا پیالہ مانگا، اس نے دیا۔ میں نے تیسرا پیالہ بھی سیر ہو کر پیا۔ پھر رقص اپنے عروج پر پہنچ گیا اور زمین و آسمان چکرا گئے۔ جب ہوش آیا میں اپنے مکان میں پڑا تھا۔‘‘
’’سلطان اعطم !‘‘
’’جنت میں گزرے ہوئے تھوڑے سے لمحے یہاں کے کئی دنوں سے بھی لمبے تھے میرے دوست نے بھی حساب لگا کر بتایا لیکن نہ مجھے اجابت محسوس ہوئی اور نہ استنجے کی خواہش ہوئی۔ اب دنیا میری نگاہ میں تاریک تھی۔ نہ دن کو سکون نہ رات کو قرار۔ بس ایک آرزو تھی جو بے قرار کئے ہوئے تھی یعنی جنت کے ان چند لمحوں کا دوبارہ حصول۔ بڑے ریاض کے بعد پھر اپنے شیخ کے حضور میں باریابی ہوئی۔ شیخ نے دست بوسی کے بعد ایک خنجر عنایت کیا اور حکم دیا کہ اس کی مہارت حاصل کروں۔ میں کہ فنونِ جنگ سے آشنا تھا چند ہی دنوں کی کوشش میں ایسا کامل ہو گیا کہ انسان کے جس حصے کے جس روئیں کو چاہوں تراش لوں۔ پھر مجھے حکم ہوا کہ بغداد کے میر عدل کو جس نے ہمارے شیخ الجبال سے گستاخی کی تھی، جہنم پہنچادوں۔ میں نے اپنے شیخ کے مریدوں کی مدد سے میر عدل کے محافظوں میں سے ایک کا بہروپ بھرا اور اس محافظ کو اس کے مکان سے غائب کر کے میر عدل کی خواب گاہ پر پہرہ دینے کھڑا ہو گیا۔ اور موقع ملتے ہی اس کے ٹکڑے کر دیئے ۔ میں شیخ کی خدمت میں حاضر ہو کر انعام جنت حاصل کرنے کو تھا کہ دوسرا حکم پہنچا کہ آپ پر خنجر چلاؤں اور ساری عمر کے لئے جنت میں داخل ہو جاؤں۔ میں جو جنت میں داخلے کی کوشش سے زیادہ وہاں سے نکلنے کے اندیشے سے مضطرب تھا مسرور ہو گیا اور سلطان اعظم کے لشکر میں ترکمان کا بھیس بنا کر داخل ہو گیا۔ ‘‘سلطان کی آنکھیں قہر سے پھیل گئیں۔
’’لیکن خدا کا شکر ہے کہ ہمارے جاسوسوں نے تجھے تلاش کر لیا۔ ‘‘
تاج الملوک نے لقمہ دیا۔
تھوڑی دیر بعد اس نے نگاہ اٹھائی۔ فدائی نے گردن جھکائی ۔
’’اپنے مرشد اور الموت کے ساحر سے پوچھنا کہ اس کی جھولی میں کوئی ایسا بھی خنجر ہے جو کہ کرکر کے رہزن ، طرابلس کے ڈاکو اور بیت المقدس کے غاصب پر بھی چمک سکے۔ یا اس کی ملعون آستین میں وہی پلید چھرے ہیں جو افرنجیوں سے نبرد آز ما لشکروں پر چلا کرتے ہیں۔ اس مارِ آستین کو شاید علم بھی نہ ہو کہ فلسطین کے فاتح عیسائی لشکر نہیں، اس کے کمبخت خنجر ہیں۔ ہم تیری زندگی کی حفاظت کریں گے تاکہ تو اس پہاڑی چوہے کو ہمارا پیغام پہنچا سکے کہ ہم شیروں کی طرح للکار کر شکار پر جھپٹتے ہیں۔ اس کو خبردار کر دو کہ اپنے لشکروں کو استوار کر لے، اپنے قلعوں کو آراستہ کر لے۔ ہماری یلغار ان تاجداروں کا محاصرہ نہیں جو موت کے خوف سے اپنے لشکر اٹھا لائے۔ ہم جب رکاب میں پاؤں رکھتے ہیں تو اس یقین کے ساتھ کہ شہادت ہماری رکاب پکڑے گی اور رضوان ہمیں اتارے گا۔ ہماری موت لڑائی کا خاتمہ نہ ہو گی۔ ہمارا ہر سردار صلاح الدین ہو گا جسے اس کے زمانے نے تلوار پکڑا کر اٹھایا۔ ہمارے جلو میں زربفت کے لباسوں اور جواہرات میں لپٹے ہوئے امیر و رئیس نہیں ہیں جو عزت کی موت اور ذلت کی زندگی کا فرق نہیں جانتے۔ ہماری رکاب میں وہ مجاہد ہیں جو موت کی جستجو میں دشمن کی صفیں چھانتے گھومتے ہیں۔۔۔جاؤ اور خدا نے چاہا تو اسی مہینے الموت کے دروازے پر تمہارے شیخ الجبال کی لاش لٹک رہی ہو گی۔‘‘
مصر کے نائب السلطنت کو فرمان لکھا کہ فاطمیوں کے خلاف تلوار پر گرفت مضبوط رکھو۔ سپہ سالار عادل کو قاہر فوجوں کے ساتھ حکم دیا کہ افرنجیوں کی سرحدی بستی میں تہلکہ ڈال دے اور خود دس ہزار خچروں پر قلعہ شکن آلات بار کئے اور بارہ ہزار سواروں کے ساتھ بادل کی طرح اٹھا اور حشیشیوں کے مرکز پر بجلی کی طرح گرا۔(جاری ہے)
سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . . قسط 21 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں