سٹریٹ فائٹرکی ان کہی داستان، اٹھتیسویں قسط

سٹریٹ فائٹرکی ان کہی داستان، اٹھتیسویں قسط
سٹریٹ فائٹرکی ان کہی داستان، اٹھتیسویں قسط

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

وسیم اکرم نے شارجہ کپ بھی بڑی شان کے ساتھ جیتا تھا۔ اسے فائنل میں مین آف دی میچ بھی قرار دیا گیا تھا۔
یہ فائنل سے پہلے کا ذکر ہے ۔پاکستان شارجہ کے راؤڈ میچ میں انگلینڈ کے ہاتھوں شکست کھا گیا تو اس پر وسیم اکرم کے مبینہ دشمن اوّل راشد لطیف نے جھٹ الزام لگایا کہ ٹیم پر پھر جوا لگ گیا ہے۔کرکٹر قوم کو بیوقوف بنا رہے ہیں۔راشد لطیف کا منہ اس وقت بند ہو گیا جب وسیم اکرم نے فائنل میں بھارت کو8وکٹوں سے شکست دی۔
وسیم اکرم کا مورال بلند اور اعتماد بحال ہو گیا تھا۔ جسٹس قیوم نے اس دوران انکوائری مکمل کرکے فیصلہ قلم بند کر دیا تھا لیکن ورلڈ کپ تک اسے اوپن نہ کیا گیا۔ اگر اس وقت فیصلہ کا اعلان کر دیا جاتا تو وسیم اکرم کو کپتانی سے اتار دیا جاتا اور پوری قومی ٹیم شدید ذہنی کرب میں مبتلا ہو جاتی۔ یہ فیصلہ جس مصلحت کی بنا پر موخر کیا گیا تھا اس کے نتائج پھر بھی حسب توقع نہ نکلے اور پاکستان ورلڈکپ کا فیورٹ ہونے کے باوجود بنگلہ دیش کے ہاتھوں عبرتناک شکست کھاگیا۔ بنگلہ دیش سے شکست پروسیم اکرم کے خلاف طوفان دوبارہ اٹھ کھڑا ہوا۔ ورلڈ کپ کے فائنل میں آسٹریلیا کے ہاتھوں شکست کی بدترین مثال نے بھی اسے مشکوک ٹھہرایا اوریوں اس کی وہ ساری محنت اور کارکردگی کا محل ایک دام زمین بوس ہو گیا جو اس نے گزشتہ آٹھ ماہ کی محنت سے کھڑا کیا تھا۔

سٹریٹ فائٹرکی ان کہی داستان، سینتیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
وسیم اکرم ایک بار پھر سخت محاسبے کے کٹہرے میں کھڑا تھا۔ ساری ٹیم پر تھو تھو کی گئی۔ آسٹریلیا کے ہاتھوں شکست کوتو کسی طور پر ہضم کرلیا گیا مگر پوری قوم بنگلہ دیش کے ہاتھوں ذلت آمیز شکست قبول کرنے پر تیار نہ تھی۔ لہٰذا جب ٹیم واپس وطن پہنچی تو ائرپورٹ پر سخت حفاظتی حصار میں انہیں گھروں تک پہنچایا گیا۔ پورے ملک میں ان کے خلاف نفرت کی لہر اٹھی تو بورڈ یہ معاملہ بھی عدالت میں لے آیا۔ بنگلہ دیش کے ہاتھوں شکست کی وجہ بنیاد میچ فکسنگ قرار پائی لہٰذا اس کی انکوائری لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس کرامت نذیر بھنڈاری کے سپرد کی گئی۔جنہوں نے انکوائری کا آغاز کیا تو قومی کھلاڑیوں کو لتاڑ کر رکھ دیا۔ اس شکست و ذلت کا سارا الزام وسیم اکرم پر آیا۔ وہ اسے ہی قصور وار سمجھتے تھے۔
پاکستانیوں کے غم و غصہ کا یہ عالم تھا کہ لاہور کی ایک عدالت میں اس کے خلاف ایک انوکھا مقدمہ کر دیا گیا۔ورلڈکپ میں وسیم اکرم بھارت کے خلاف نہ کھیل سکا تھا۔ اس بارے میں کہا گیا کہ میچ فکسنگ کے باعث اس نے کھیلنا گوارہ نہ کیا تھا۔ اس پر لاہور کے ایک شہری طارق اسحاق نے مقامی سول جج کی عدالت میں وسیم اکرم کے خلاف ہرجانہ کادعویٰ کیا۔ عدالت نے وسیم اکرم کو طلب کیا تھا مگر وہ حاضر نہ ہوا تو عدالت نے اس کے خلاف طارق اسحاق کو چوبیس ہزار روپیہ ہرجانہ ادا کرنے کا فیصلہ دیا۔ مدعی نے وسیم اکرم پر الزام لگایا کہ وہ فٹ ہونے کے باوجود ورلڈکپ کے کوارٹر فائنل میں نہیں کھیلا تھا جس کے باعث پاکستان ازلی دشمن سے میچ ہار گیا جس سے مدعی کی دل آزاری ہوئی ہے۔عدالت نے وسیم اکرم کو متعدد بار سمن جاری کئے مگر وہ عدالت میں پیش نہیں ہوا۔
وسیم اکرم کو توقع تھی کہ جسٹس قیوم انکوائری میں اس کے ساتھ انصاف کیا جائے گا اور کمیشن کا فیصلہ آنے پر اس کے دامن پر لگے داغ دھل جائیں گے۔98ء میں شروع ہونے والی عدالتی کارروائی کا فیصلہ بعض وجوہات اور مصلحتوں کی بنا پر موخر ہوتا رہا۔اگرچہ جسٹس قیوم نے99ء میں ہی تحقیق مکمل کرکے بورڈ کے حوالے کر دی تھی لیکن اس کے مندرجات کا کسی کو علم نہیں تھا۔بالآخر25مئی2000ء کو رپورٹ منظر عام پر آگئی جس میں وسیم اکرم پر تین لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا گیا۔
جسٹس قیوم رپورٹ کے فیصلہ کے مطابق سلیم ملک اور عطاء الرحمن پر تاحیات پابندی لگا دی گئی۔ وسیم اکرم کے خلاف مناسب شواہد نہیں مل سکے تھے کیونکہ عطاء الرحمن نے جھوٹا حلف اٹھایا تھا۔ اس کے باوجود کمیشن نے لکھا کہ بعض شواہد وسیم اکرم کو مشکوک ظاہر کرتے ہیں لہٰذا کمیشن یہ سفارش کرتا ہے کہ اسے قیادت سے برطرف کرکے کسی اچھے کردار کے حامل شخص کو کپتان بنایا جائے جبکہ اس پر کڑی نگاہ رکھتے ہوئے اس کے اثاثوں کے بارے میں مزید تحقیق کی جائے۔

جاری ہے۔ انتالیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

دنیائے کرکٹ میں تہلکہ مچانے والے بائیں بازو کے باؤلروسیم اکرم نے تاریخ ساز کرکٹ کھیل کر اسے خیرباد کہا مگرکرکٹ کے میدان سے اپنی وابستگی پھریوں برقرار رکھی کہ آج وہ ٹی وی سکرین اور مائیک کے شہہ سوار ہیں۔وسیم اکرم نے سٹریٹ فائٹر کی حیثیت میں لاہور کی ایک گلی سے کرکٹ کا آغاز کیا تو یہ ان کی غربت کا زمانہ تھا ۔انہوں نے اپنے جنون کی طاقت سے کرکٹ میں اپنا لوہا منوایااور اپنے ماضی کو کہیں بہت دور چھوڑ آئے۔انہوں نے کرکٹ میں عزت بھی کمائی اور بدنامی بھی لیکن دنیائے کرکٹ میں انکی تابناکی کا ستارہ تاحال جلوہ گر ہے۔روزنامہ پاکستان اس فسوں کار کرکٹر کی ابتدائی اور مشقت آمیز زندگی کی ان کہی داستان کو یہاں پیش کررہا ہے۔