دلائی ٹارچر کیمپ سے گونجتی جمہوریت کی چیخیں

دلائی ٹارچر کیمپ سے گونجتی جمہوریت کی چیخیں
دلائی ٹارچر کیمپ سے گونجتی جمہوریت کی چیخیں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

(آخری حصہ )

سابق وزیر اعظم اور پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی بنائی گسٹاپو فورس ایف ایس ایف کے ٹارچر سیل دلائی کیمپ سے منحرف ہوکر فرار ہونے والے ہیڈکانسٹیبل رشیدالدین کی روح فرسا کہانی کا تیسرا اور آخری حصہ پیش خدمت ہے ۔رشید الدین کو ایف ایس ایف اور زیڈ اے بھٹو کا اصلی بھیانک روپ پوری دنیا کے سامنے بے نقاب کرنے والا اہم ترین کردار سمجھا جاتا ہے ۔رشید الدین نے ضمیر کی آواز پر بھٹو کے دلائی کیمپ میں بے گناہ سیاستدان قیدیوں کی مدد کرنے کی ٹھان لی تھی جس کی خود انہیں بھاری قیمت چکانا پڑی اور بالاخر وہ بھٹو حکومت کا تختہ الٹے جانے کے بعد ایف ایس ایف کے چنگل سے رہا ہوئے تو ہمیشہ کے لئے پاکستان چھوڑ گئے ۔پاکستان میں اقتدار پر براجماں ہوتے ہی جمہوریت کا نعرہ لگانے والے خودکتنے بڑے منتقم آمرثابت ہوتے ہیں،رشید الدین کی اس کہانی سے اسکا اندازہ کیا جاسکتا ہے ۔ یہ واقعات انکے بیٹے نصیر الدین نے لکھے تھے جو یہاں بیان کئے جارہے ہیں ۔
۔۔۔۔
میرے ابا کوقبائلی علاقہ کے پاس ایسے مقام پر منتقل کردیا گیا تھا کہ جہاں انہیں کسی قسم کی کوئی سہولت فراہم نہیں کی جاسکتی تھی ۔یہاں انہیں احساس ہونے لگا کہ انہیں کسی بھی وقت قتل کردیا جائے گا ۔سکیورٹی گارڈز بھی انہیں یہ باور کراتے تھے کہ اگر انہوں نے بھٹو کے بارے میں کوئی بھی غلط لفظ بولا تو انہیں گولی ماردی جائے گی ۔دوسری جانب بھٹو خود بھی مصیبت سے دوچار ہورہے تھے ،انکی حکومت کمزور ہورہی تھی اس لئے وہ کوئی رسک لینے کے روادار بھی نہیں تھے۔اباان حالات میں خودکشی کرنے کا سوچنے لگے لیکن اس سے پہلے انہوں نے ایک بار پھر فرار کا منصوبہ بنایا۔انہیں روزانہ صبح ٹوائلٹ لے جایا جاتا تھا ۔اس دن وہ ٹوائلٹ گئے تو انہون نے اسکی ٹونٹی کھول دی ۔اس کا شور بہت زیادہ تھا ۔ٹوائلٹ کا ایک دروازہ پچھلی جانب بھی تھا ۔وہ باہر نکلے اور پندرہ کلومیٹر دور جا کر ایک بس پکڑی اور سیف ہاوس سے کافی دور نکل گئے لیکن بدقسمتی سے بس نے کچھ فاصلہ طے کیا تھا کہ ایف ایس ایف والوں نے روک کر بس کی تلاشی لی اور ابا کوپکڑ لیا گیا ۔انہیں گھسیٹ کر انہیں وین میں ڈالا اورقریبی جنگل میں لے گئے ۔ اس بار انہیں اسقدر بے دردی سے مارا گیاکہ ان کے بدن کی ایک ایک پور زخموں سے بھر گئی ۔
ایف ایس ایف افیسرز نے ابا کو واررننگ دی ’’ اب اگرم تم بھاگے تو ہم زیڈ اے بھٹو سے نہ صرف اجازت لیکر تمہیں گولی ماردیں گے بلکہ تمہارے گھر والوں کو بھی عبرت کا نشان بنا دیں گے ‘‘اب کی بار ابا کو سیف ہاوس مین بدترین حالات کا نشانہ بنایا گیا ۔انہیں باہر نکلنے کی اجازت بھی نہیں تھی ۔انکے کمرے میں تیز روشنیاں چوبیس گھنٹے جلی رہتیں ۔ مسلح گارڈ ان کے سر پر سوار رہتے حتٰی کہ ٹوائلٹ میں بھی گارڈ ان کے ساتھ جاتے ۔
ابا کے لئے تیز روشنی میں سونا ناقابل برداشت تھا ،ایک دن انہوں نے جوتا مارکر بلب توڑ ڈالے ۔جس پر انہیں روزانہ باقاعدگی سے تشدد کا نشانہ بنایا جانے لگا ،ابا نے اس مارکی کوئی پرواہ نہ کی کیونکہ وہ جان چکے تھے کہ ان کے ساتھ بالاخر کیا ہوسکتا ہے ۔دراصل ان کی امیدیں اب دم توڑ گئی تھیں۔ان کی حالت ایسی ہوگئی تھی کہ ہر ہفتہ ایک ڈاکٹر ان کے پاس جاتا اور انہیں نیند کی گولیاں دیتا کیونکہ ان کی نیند ان سے روٹھ گئی تھی ۔
کئی ہفتوں بعد ابا کووارسک ڈیم کے علاقے میں ایک نئے اور آخری سیف ہاوس میں لے جایا گیا ۔یہ پشاور سے تیس کلومیٹر دور شمال مغرب کی پہاڑیوں میں واقع تھا ۔ابا نے مجھے بتایا تھا ’’ یہ وقت میری زندگی کا سب سے بدترین دور تھا ۔گارڈ مجھ سے نفرت کرتے اور چاہتے تھے کہ مجھے ماردیا جائے ۔میں اگر زندہ تھاتو صرف اس ایک وجہ سے کہ ایف ایس ایف کا ایک جاسوس میرے ساتھ کمرے میں سوتا تھا جس سے زندہ ہونے کا احساس ہوتا تھا ۔یہ جاسوس مسعود محمود (ڈی جی ایف ایس ایف) کے ساتھ کام کرچکا تھا ۔اسے خاص طور پر میری نگرانی کرنے کا حکم دیا گیا تھا ۔ایک دن وہ جاسوس کہیں کام سے گیا تو پیچھے سے مجھ پر ان بے رحم گارڈزنے نان سٹاپ تشدد کیا ‘‘
آخرمئی 1977 کا وہ دن بھی آگیا جب اباکو چھوڑ دیا گیا ۔اس سے کئی دن پہلے انہوں نے مسعود محمود کو ایک خط لکھا تھاکہ اگر انہیں چھوڑا نہ گیا تو وہ یا تو خود کشی کرلیں گے یا سیف ہاوس میں کسی کو مارڈالیں گے ‘‘ انہوں نے خفیہ طور پر ایف ایس ایف کے ایک کارکن کو رشوت دیکر اسکی ایک کاپی اپنے والد کو بھیج دی تھی۔یہ خط ملتے ہی انکے والد بہت پریشان ہوئے اور انہوں نے مختلف وزراء اور اخبارات سے رابطے کرکے انہیں صورتحال سے آگاہ کیا کہ یہ سب کچھ بھٹو اور اسکی حکومت کی وجہ سے ہورہا ہے اور اگر انکے بیٹے کی مدد نہ کی گئی تو وہ مر جائے گا ۔اس سے دو ہفتہ قبل بھٹو بطور وزیر اعظم بہت کمزور ہوگئے تھے ، انہیں معزول کردیا گیا تھا ۔ایف ایس ایف کو اندازہ ہوگیا تھا کہ جلد ہی فوجی قوتیں تخت پر قبضہ کرلیں گی اس لئے انہوں نے بھی کوئی رسک نہ لینے کا فیصلہ لیا ۔
ایف ایس ایف کے سربراہ مسعود محمود نے ان حالات میں میرے ابا سے وارسک ڈیم کے سیف ہاوس میں جاکر ملاقات کی اور انہیں کہا ’’ میں تمہیں جانے دوں گا ۔ زیڈ اے بھٹو نے تمہارے ساتھ جو کیا ہے میں اس سے قطعی متفق نہیں ہوں ‘‘ یہ الفاظ اُس مسعود محمود تھے جس نے بعد ازاں بھٹو کے خلاف جنرل ضیا الحق کی مدد کی تھی ۔بعد میں میرے ابا کو ایف ایس ایف کے ہیڈ کوارٹر لے جایا گیا جہاں انہیں دھمکی دی گئی ’’ اگرتم نے ہمارے بارے میں کوئی انفرمیشن لیک کی اور کسی کو یہ بتایا کہ تمہارے ساتھ کیا کچھ ہوا ہے تو ہم خود کسی بھی رات تمہارے گھر آئیں گے ،تمہیں اور تمہارے خاندان کو قتل کردیں گے اس لئے اب اپنے بارے میں سوچو کہ تمہیں کیا کرنا ہے ‘‘انہوں نے میرے والد کی تمام دستاویزات بھی جلا ڈالیں ۔اب والد کے پاس ایسا کوئی ثبوت نہیں تھا کہ وہ کبھی ایف ایس ایف میں بھرتی بھی ہوئے تھے ۔ اسکے بعد انہوں نے دو افسروں کے ساتھ میرے ابا کو گاوں پہنچا دیا ۔راستے میں وہ بھی ابا اور انکے خاندان کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دیتے رہے۔
ابا سترہ مہینوں کے بعداپنے اہل خانہ سے آملے تھے ۔وہ خدا کے کس قدر شکر گزار تھے ،اس کو الفاظ میں بیاں کرنا مشکل ہے ۔انہیں دوسری زندگی ملی تھی ۔ گھر آنے کے بعد ابا کی حالت ایسی تھی کہ وہ ہر وقت خوفزدہ رہنے لگے کہ نہ جانے کب ایف ایس ایف والے آجائیں اور انہیں قتل کردیں ۔دو دن اس اذیت میں گزارنے کے بعد وہ ملتان میں اپنی ہمشیرہ کے پاس چلے گئے لیکن ان کا خوف ختم نہیں ہوا۔وہ اپنے ملک میں اپنے ہی لوگوں سے سخت خوفزدہ رہنے لگے اور ہر کسی پر شک کرنے لگے تھے ۔ اس احساس سے وہ باہر نکل نہیں پارہے تھے لہذا انہوں نے پاکستان چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا اور یورپ کے لئے ون وے ٹکٹ کٹوالی ۔اپنی اور اپنے خاندان کی زندگی کو محفوظ بنانے کے لئے اسکے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔
بہت جلد ہی ضیاالحق نے مارشل لا لگا کر اقتدار سنبھال لیا۔اس نے ایف ایس ایف کے کئی افسروں کو گرفتار کراکے ان پر قتل کے مقدمات چلائے ،مسعودمحمودنے بھی فوج کے ساتھ خفیہ ڈیل کرلی ،بھٹو کو پھانسی کی سزا ہوگئی اور مسعود محمود کو بھاری رقم دیکر اسے امریکہ بھیج دیا گیا جہاں اس نے باقی ماندہ زندگی گزارنی تھی ۔
میرے والد پاکستان میں مزید ایک دن نہیں رک سکتے تھے ۔وہ ائر پورٹ پہنچے تو انہیں وہاں دلائی کیمپ کا ایک قیدی مل گیا۔اس نے ابا سے التجا کی ’’ رشید تم مت جاو ،ہمیں عدالت میں ایف ایس ایف کے خلاف تمہاری ضرورت ہے ،تمہاری مدد کے بغیر ہم کچھ نہ کرسکیں گے۔تم پاکستان میں رہو میں تمہیں بڑی معقول جاب بھی دوں گا‘‘ لیکن ابا یورپ چلے آئے اور خوف کے بغیر نئی زندگی کا آغاز کردیا ۔پہلے وہ سوئٹزلینڈ گئے اور پھر وہاں سے جرمنی میں سیاسی پناہ حاصل کرلی ،انہوں نے زندگی کا زیادہ وقت فرینکفرٹ میں بسر کیا ،اب وہ لندن میں اپنی اہلیہ کے ساتھ مقیم ہیں ۔

نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں،ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -