"اظہار رائے کی آزادی" پر اسلام اور مغرب کا نکتہ نظر اور سائبرکرام بل

اظہار رائے کی آزادی کو ‘فریڈم آف اسپیچ اینڈ ایکسپریشن سے تعبیر کیا جاتاہے۔جس کا سادہ سامطلب بولنے کی آزادی ہے۔ عمل اور لکھنے کی آزادی کو بھی اظہار رائے کی آزادی میں شمار کیا جاتاہے۔ یعنی ہر انسان تقریر وتحریر اورعمل کرنے میں آزاد ہے۔ اقوام متحدہ کے بین الاقوامی چارٹر کی شق نمبر 19 کے مطابق "ہرشخص کو اپنی رائے رکھنے اور اظہارِ رائے کی آزادی کا حق حاصل ہے۔ اس حق میں یہ امر بھی شامل ہے کہ وہ آزادی کے ساتھ اپنی رائے قائم کرے اور جس ذریعے سے چاہے بغیر ملکی سرحدوں کا خیال کئے علم اور خیالات کی تلاش کرے۔ انہیں حاصل کرے اور ان کی تبلیغ کرے۔"حیرت ہے اس شق میں کہیں اظہار رائے کی آزادی کی کوئی لمٹس بیان نہیں کی گئیںجس کا واضح مطلب اظہاررائے کی آزادی کی آڑ میں ہتک عزت کا دروازہ کھولنا ہے۔
عام طور پر اسلام پر الزام لگایا جاتاہے کہ وہ اظہار رائے کی آزادی کے خلاف ہے۔ مگر حقیقت میں اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جس نے سب سے پہلے اظہار رائے کی آزادی کا فلسفہ دیا، اس سے پہلے لوگ غلام تھے، مصنوعی خداو¿ں کے آگے جھکتے تھے، ان کے بارے کچھ نہیں کہہ سکتے تھے، جو کوئی ان کے بارے میں لب کھولتاپوری سوسائٹی اس کی دشمن بن جاتی۔ اسلام سے قبل روم وفارس میں لوگ حکمرانوں کے غلام تھے، ان کے خلاف ایک لفظ کہنے کی اجازت تک نہ تھی، یونان کا کلیسا مقدس خدائی کا دعویدار تھا، جس سے اختلاف رائے کا مطلب موت تھی۔ مگر اسلام نے انسانوں کو انسانیت کی غلامی سے نکال کر آزاد کروایا اور صرف ایک اللہ کا بندہ بنانے کا اعلان کیا۔ یہی اسلام ہے جس میں ہر انسان آزاد ہے، وہ جو چاہے کرسکتا ہے، جو چاہے بول سکتا ہے۔ اللہ نے"لااکراہ فی الدین"(دین میں کوئی جبر نہیں)،"لایکلف اللہ نفسا الا وسعہا"(کہ اللہ کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ ذمہ داری نہیں سونپتا) اور پیغمبر اسلام کو سماج چلانے کے لیے "وشاورھم فی الامر"(کہ معاملات میں لوگوں سے مشورہ کرو)جیسے سنہری اصولوں سے واضح کردیا کہ اسلام اظہاررائے کی آزادی کاحامی ہے۔لیکن اسلام اعتدال پسند ہے، فساد کے خلاف ہے، چنانچہ اسلام نے رائے کی آزادی کے ساتھ یہ فلسفہ بھی پیش کیا کہ انسان رائے دینے میں حیوانوں کی طرح بے مہار نہیں، بلکہ اس کی اظہار رائے کی آزادی کچھ حدود اورلمٹس کی پابندہے۔ ان لمٹس پر تنبیہ کرنے کے لیے ارشاد فرمایا:"مایلفظ من قول الا لدیہ رقیب عتید" انسان کوئی لفظ زبان سے نکال نہیں پاتا مگر اس پر نگران مقرر ہوتا ہے، ہر وقت (لکھنے کے لیے) تیار۔ سورہ حجرات میں اظہار رائے کی آزادی کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ انسان کسی کا تمسخر نہیں کرسکتا، کسی کی غیبت نہیں کرسکتا، کسی پر بہتان، الزام تراشی، یاکسی کی ذاتی زندگی کے عیب نہیں ٹٹول سکتا، حتی کہ کسی کو برے نام اور القاب سے نہیں پکارسکتا۔ اظہار رائے کی آزادی میں اسلام نے ایک طرف یہ بہترین اخلاقی اقدار فراہم کیں تو دوسری طرف انسان کو رائے دہی میں آزاد کیا اور جبر اور طاقت سے زیادہ ذمہ داری سونپنے کی حوصلہ شکنی کی۔ مشورے اور اظہار رائے کی آزادی کا عملی مظاہرہ ہمیں سیرت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی جابجاملتاہے۔ چنانچہ آپ ﷺ نے غزوہ خندق ، غزہ احداور غزوہ بدر کے قیدیوں کے معاملے میں نہ صرف صحابہ ؓ سے مشورہ کیا بلکہ ان کے مشورے کو عملی جامہ بھی پہنایا۔ اسی طرح قبیلہ غطفان (جو مشرکین مکہ کا حلیف تھا) کے ساتھ مدینہ کی پیداورا کے تیسرے حصے پر جب معاہدہ کرنے لگے تو انصار نے بلاخوف وخطر آزادی رائے کا اظہار کیا اور آپ ﷺ کو اس معاہدے سے روک دیا۔ نیز حضرت بریرہ ؓاور مغیث کے معاملے میں حضرت بریرہ ؓنے کھل کراپنی رائے کا اظہارکیا اور اس پر عمل کرکے دکھایا۔ حیرت ہے لوگ پھر بھی اسلام کو الزام دیتے ہیں کہ وہ اظہاررائے کی آزادی کے خلاف ہے۔
دوسری طرف مغرب کے ہاں آزادی اظہار رائے کاجو تصور پایا جاتاہے وہ منافقت اورتضاد سے بھرپورہے۔ ایک تو ان کے ہاں عملًا اظہار رائے کی آزادی کی کوئی لمٹس نہیں، چنانچہ چغل خوری، عیب جوئی، تمسخر، مذاق وغیرہ وہاں معمول ہے۔ دوسرا آزادی اظہار رائے کے نام پر جو چیزیں وہ خود پسند نہیں کرتے مسلمانوں سے ان کا مطالبہ کرتے ہیں۔ مثلاً ہولوکاسٹ پر بات کرنا، دونوں جنگ عظیم میں ہلاک ہونے والے لوگوں پر بات کرنا، امریکہ کے قومی پرچم ، قومی پرندے کی قید ، عدلیہ اور دیگر بعض دفاعی اداروں پر بات کرنا جرم سمجھاجاتاہے۔ کینیڈا کے قانون میں عیسائیت کی توہین وتنقیص جرم ہے۔ دوسری طرف مسلمانوں کو پیغمبر اسلام کی توہین پر عدم برداشت کا طعنہ دیا جاتاہے۔ مغرب کی دوغلی پالیسی کا اندازہ ان مثالوں سے بخوبی لگایاجاسکتاہے۔ ایک مرتبہ آسٹریلیا میں ایک مراکشی عالم نے تنگ وچست لباس پر بات کی تو پورا آسٹریلیا ان کے خلاف ہوگیا۔ 27 جنوری 2003 میں ٹیلی گراف اخبارنے اسرائیلی وزیر اعظم کا خاکہ شائع کیا جس میں فلسطینی بچوں کی کھوپڑیاں کھاتا دکھائے دیا۔ اس پر اسرائیل اور ان کے ہمنواو¿ں نے ہنگامہ کھڑا کردیا جس پر اخبار نے معذرت کی۔ اٹلی کے وزیراعظم نے حضرت عیسیٰ ؑکے مشابہ حکومت کی بات کی تو پورا یورپ ان کے خلاف ہوگیا۔ اظہار رائے کی آزادی کے نام نہاد علمبردار امریکہ کاحال یہ ہے کہ وہاں لوگوں کے فون تک ٹیپ کیے جاتے ہیں۔ آزادی اظہار رائے کے نام پر امریکہ کے نیچ اخلاق کا اندازہ اس واقعہ سے لگائیں کہ لیبیا میں توہین قرآن وتوہین رسالت ﷺکا واقعہ ہوا جس میں مشتعل مظاہرین نے امریکی ایمبیسی میں آگ لگادی اور چندامریکی مارے گئے۔ جس کے بعد اقوام متحدہ کا اجلاس بلایا گیا، اجلاس سے خطاب کے دوران امریکی صدر نے کہا کہ "توہین رسالت ﷺوتوہین قرآن آزادی اظہار رائے کی ایک شکل ہے۔ امریکی آئین اسے تحفظ دیتاہے۔ امریکی اکثریت عیسائی ہے ، ہم باوجود عیسائی ہونے کے عیسیٰ ؑ کی توہین پر قدغن نہیں لگاسکتے"۔ لیکن منافقت اور گھٹیا پن دیکھیے کہ پیغمبر اسلام ﷺ ومقدس شعائر کی توہین تو برداشت ہے مگرامریکہ کے قومی پرچم، قومی پرندے کی قید اور عدالتوں کی توہین پر سزائیں اور جرمانے ہیں۔ ابھی حال ہی کا واقعہ ہے کہ امریکہ میں ایک ڈینٹل ڈاکٹر کو حجاب پہننے پر نوکری سے برطرف کردیاگیا، فرانس اور جرمنی میں حجاب پر پابندی تو پوری دنیا کے سامنے ہے۔ ان مثالوں سے با آسانی فیصلہ کیا جاسکتاہے کہ اظہاررائے، عمل اور مذہب کی جس آزادی کا ڈھنڈورا اقوام متحدہ ، یورپ اور امریکہ پیٹتاہے وہ صرف ایک دھوکہ ہے۔
افسوس یہ ہے کہ ہمارے ہاں بعض سیکولراور لبرل دانشور مغرب کے اس دھوکے میں آکر اسلام پسندوں کو شدت پسندی کا طعنہ دیتے ہیں کہ وہ اظہار رائے کی آزادی کے خلاف ہیں۔ حالانکہ کوئی بھی منصف مزاج مسلمان اس کے خلاف نہیں۔ البتہ وہ اظہاررائے کی آزادی کے نام پر مسلمانوں کی دل آزاری کے خلاف ہے۔ مشہور کہاوت ہے کہ انسان کی آزادی دوسرے کی ناک تک ہے۔ جہاں سے دوسرے شخص کی ناک شروع ہو وہاں سے انسان کی آزادی ختم ہوجاتی ہے۔جس کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ انسان وہاں تک آزادہے جہاں سے دوسروں کو تکلیف یادل آزاری نہ ہو۔ دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں جہاں انسانوں کو مطلق آزادی حاصل ہو۔ ریاستی معاملات میں انسان کا ریاستی قوانین کا پابند ہونا اس کی واضح مثال ہے۔
خوش آئند بات ہے کہ پاکستان میں سائبر کرام بل پاس ہوا۔ جس سے عام لوگوں کو یہی تاثر ملاکہ یہ پاکستان میں مقدس شخصیات اورمقدس شعائر کی توہین وتنقیص میں کارآمد ہوگا۔ مگر شاید یہ ایک خواب ہی ہو۔ کیونکہ دیگر قوانین کی طرح یہ قانون بھی سیاسی مقاصد کے لیے استعمال ہوگا۔ جس کااندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ اس بل میں فحاشی وعریانی کے خلاف ایک لفظ تک نہیں لکھاگیا۔ حالانکہ فحاشی وعریانی سے نہ صرف اسلام کی توہین وتنقیص ہوتی ہے بلکہ ہماری تہذیبی اقدار بھی پامال ہوتی ہیں۔ اسی طرح یہ بل سوشل میڈیا پر ملحدین اور الیکٹرانک وپرنٹ میڈیا پر سیکولردانشوروں کو لگام دینے میں بھی پاور فل نہیں۔ ورنہ الحاد کے نام پر سوشل میڈیا پر فتنہ پردازوں کو کب کا گرفتارکرلیاجاتا۔ بہرحال اگر واقعی اس بل سے دوسروں کی توہین وتنقیص کرنے والوں بالخصوص مقدس شخصیات کی توہین کرنے والوں کو لگام دی جائے تو اس کی حمایت کی جانی چاہئے لیکن اگر یہ بل عام بلوں کی طرح محض سیاسی مفادات کے لیے ہو تو پھر ڈٹ کر اس کی مخالفت کرنی چاہئے۔
غلام نبی مدنی المدینہ یونیورسٹی مدینہ منورہ میں تخصص کے طالبعلم ہیں اور مختلف موضوعات پر قلم اٹھاتے رہتے ہیں ۔ ان سے gmadnig@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔