روسی کوبرا

روسی کوبرا
روسی کوبرا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

روسی کوبرا جس کا سائنسی نام Naja Oxiana اور انگلش نام وسطی ایشیائی کوبرا (Central Asian cobra)، آکسس کوبرا (Oxus cobra) اور کیسپیئن کوبرا (Caspian cobra) ہے، Elapidae خاندان کے زہریلے سانپوں کی نسل سے تعلق رکھتا ہے اور وسطی ایشیا میں پایا جاتا ہے۔
یہ درمیانی لمبائی کا ایک وزنی جسامت والا سانپ ہوتا ہے اس کی اوسط لمبائی تقریباً ایک میٹر جبکہ زیادہ سے زیادہ لمبائی 1.5 میٹر تک ہوتی ہے۔ اس کی لمبی پسلیاں پھیل سکتی ہیں۔ اس کا جسم سلنڈر نما ہوتا ہے جبکہ سر والا حصہ پشت سے تھوڑا چپٹا، بیضوی اور گردن سے تھوڑا الگ ہوتا ہے۔ تھوتھنی چھوٹی اور گول جبکہ نتھنے بڑے، آنکھ کا سائز درمیانہ اور پتلی گول ہوتی ہے۔ جسم کی پشت کے چانے (scales) ہموار اور انتہائی ترچھے ہوتے ہیں جن میں باہر والی 2 سے 3 قطاریں بقیہ چانوں کی قطاروں سے بڑی ہوتی ہیں۔ اس نسل کے نابالغ سانپ ظاہری ہیئت میں بے رنگ ہوتے ہیں اور ان کے پورے جسم پر تقریبآ ایک جیسے فاصلے پر واضح گہرے اور ہلکے رنگ کی کراس کے نشان والی پٹیاں بنی ہوتی ہیں۔ بالغ مکمل طور پر ہلکے یا گہرے بھورے، یا پیلے رنگ کے ہوتے ہیں جن میں سے کچھ پر نوعمری والی کراس کی پٹیاں خاص طور پر پیٹ کے پہلے حصے پر موجود رہ جاتی ہیں۔ اس سپی شیز کے پھن پر کوئی نشان نہیں ہوتا۔ پاکستان اور شمالی انڈیا میں دونوں کی موجودگی کے باعث بنا پھن کے انڈین کوبرا کو اکثر روسی کوبرا سمجھ لیا جاتا ہے۔ روسی کوبرا اگرچہ بہت گہرے رنگ کا ہو سکتا ہے لیکن کبھی بھی مکمل کالا نہیں ہوتا۔
روسی کوبرا کے گلے کے نیچے عام طور پر بہت سی گہری پٹیاں بنی ہوتی ہیں جبکہ پاکستان میں پائے جانے والے کالے انڈین کوبرا کا پورا گلا کالا ہوتا ہے۔

چانے

روسی کوبرا کے سر والے حصے کی پشت پر چانوں کی 23 تا 27 (عموماً 25) قطاریں، درمیانے جسم تک 19 تا 23 قطاریں ، پیٹ پر 191 تا 210 چانے اور دم پر جوڑوں کی شکل میں 57 تا 71 چانے موجود ہوتے ہیں۔ ہونٹوں کے چانے اکثر نہیں پائے جاتے۔

علاقائی تقسیم

روسی کوبرا ٹرانس کیسپیئن علاقوں میں پایا جاتا ہے۔ یہ ترکمانستان، ازبکستان، کرغزیستان، وادی فرغانہ، شمالی اور مشرقی افغانستان، شمال مشرقی ایران، نصف شمالی پاکستان، بھارت میں کشمیر سے لے کر ہماچل پردیش تک اور جنوب مغربی تاجکستان میں بھی پایا جاتا ہے۔ واقعاتی شواھد سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ازبکستان اور قازقستان کی سرحد پر موجود بحیرہ ارال تک ملتا ہے۔

مسکن

روسی کوبرا بنجر اور نیم بنجر، چٹانی یا پتھریلی، جھاڑی دار یا کھردری چھوٹی پہاڑیوں پر پائے جاتے ہیں جن کی بلندی سطح سمندر سے تقریباً 3000 میٹر تک ہوتی ہے۔ یہ سانپ ایشیائی کوبرا کی مغربی سپی شیز ہے۔

رویہ اور ماحول

یہ سانپ جارحانہ اور غصیلی طبیعت کا مالک ہوتا ہے۔ اگرچہ یہ انسان کو جتنا ہو سکے نظر انداز کرتا ہے لیکن اگر اس کو خوف دلایا جائے یا گھیر لیا جائے تو یہ شدید جارحانہ رویہ اختیار کر لیتا ہے یہاں تک کہ نا بالغ بھی انتہائی غصیلے ہوتے ہیں۔ گھیرے جانے اور اکسائے جانے پر یہ سانپ اپنا سر اٹھا لیتا ہے، سنسکارتا ہے، اِدھر سے ادھر جھولتا ہے اور بار بار کاٹتا ہے تاہم یہ زہر نہیں تھوکتا۔ یہ زمینی سپی شیز دن کو جاگنے والے جانوروں میں سے ہے لیکن علاقے کی نسبت سے یہ گرم مہینوں (جولائی اور اگست) میں رات کا شکاری بھی بن جاتا ہے۔ روسی کوبرا ایک اچھا چڑھائی کرنے والا اور قابل تیراک ہے۔ یہ اکثر پانی میں ملتا ہے اور پانی سے دور علاقوں میں کبھی کبھار ہی ملتا ہے جہاں یہ چھوٹے ممالیہ، جل تھلوں اور پرندوں کا شام اور صبح کے اوقات میں شکار کر رہا ہوتا ہے۔ روسی کوبرا بالخصوص کترنے والے جانوروں، مینڈکوں، گاہے بگاہے مچھلیوں، پرندوں اور ان کے انڈوں کا شکار کرتے ہیں۔ تیز رفتار اور پھرتیلے یہ سانپ پشتوں اور درختوں پر اپنا مسکن بناتے ہیں۔

زہر

روسی کوبرا ناجا سپی شیز میں سب سے زیادہ زہریلا سانپ ہے۔ اسکی چوہوں میں جِلدی LD50 کی اوسط مقدار 0.18 ملی گرام فی کلو گرام ہے اور سب سے کم مقدار 0.10 ملی گرام فی کلو گرام ہے۔
 روسی کوبرا، کوبرا کی زہریلی ترین سپی شیز ہے جو فلپائنی کوبرا کو بھی پیچھے چھوڑتا ہے۔ چھوٹی غیر انزائمی پروٹینز کی ایک بہت بڑی تعداد زہر میں پائی گئی جس میں Neurotoxins اور کچھ Cytotoxins کےخاندان کے کچھ عناصر بھی موجود تھے جو lysosomes کو نقصان پہنچا کر خلیوں کی موت کا سبب بنتے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ زہر میں نیوکلیز بھی پائے گئے جو متاثرہ جگہ پر ٹشوز کو نقصان پہنچاتے ہیں اور purines خارج کر کے زہر کے اثر کو تیز کرتے ہیں۔ روسی کوبرا کے زہر سے مصفا Ribonuclease VI کو مالیکیولر بیالوجی کے تجربات کے لیے لیبارٹریز میں reagent کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ اس میں منظم RNA کو توڑنے کی غیر معمولی صلاحیت پائی جاتی ہے۔

زہریلے اثرات

روسی کوبرا کے ہر دفعہ ڈسنے پر زہر کی اوسط پیداوار 75 تا 125 ملی گرام ہوتی ہے جو کہ 590 ملی گرام تک تجاوز کر سکتی ہے۔اس سانپ کے ڈسنے سے زہر کے اعصابی اثر کے ساتھ ساتھ شدید درد اور سوجن ہو سکتی ہے۔ ڈسنے کے بعد ایک گھنٹہ گزرنے سے پہلے پہلے کمزوری، غنودگی، اعضا کی حرکات کا رک جانا، گلے، بازوؤں اور ٹانگوں کے فالج جیسی علامات ظاہر ہو سکتی ہیں۔

طبی علاج نہ ہونے کی صورت میں یہ علامات تیزی سے بدترین صورت اختیار کر سکتی ہیں جو نظامِ تنفس کے ناکارہ ہونے کے باعث موت کا سبب بن سکتی ہیں۔ شمال مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون روسی کوبرا سے ڈسے جانے کے بعد زہر کے شدید اعصابی اثر کا شکار ہوئیں اور 50 منٹ کے اندر اندر نزدیکی ہسپتال لے جاتے ہوئے راستے میں دَم توڑ گئیں۔ 1979 اور 1987 کے دوران سوویت یونین میں اس سانپ کے ڈسنے کے مصدقہ واقعات 136 رہے جن میں سے 121 کو تریاق زہر (anti-venom) دیا گیا اور 8 جان کی بازی ہار گئے جن 15 کو تریاق فراہم نہیں کیا گیا ان میں سے 11 کی موت واقع ہوئی یعنی شرح اموات 73 فیصد رہی۔

روسی کوبرا کے ڈسے انسان پر تریاق زہر اتنا موثر نہیں جتنا دیگر کوبرا سپی شیز مثلاً انڈین کوبرا کے ڈسے پر ہے اور اکثر مریضوں کے لیے اس کی بہت زیادہ مقدار کی ضرورت پڑ جاتی ہے طبی علاج نہ ہونے کی صورت میں شرح اموات 70 سے 75 فیصد ہے جو کہ کوبرا کے جینس ناجا سے تعلق رکھنے والی سپی شیز میں اب تک سب سے زیادہ ہے۔ وسطی ایشیاء اور ایران میں یہ سپی شیز سب سے زیادہ سانپ کے ڈسنے کے واقعات کی ذمہ دار ہے جو کہ موت کا سبب بنتے ہیں۔

ابتدائی طبی امداد

1۔ اس بات کو یقینی بنانے کے بعد کہ مریض اور اس کی دیکھ بھال کرنے والے اب سانپ کی پہنچ سے دور ہیں، مریض کو ایک جگہ پر لیٹے رہنے پر قائل کیا جائے۔ بہت سے مریض موت کے خوف سے جذباتی ہو جاتے ہیں اور پاگل پن کا مظاہرہ کرنے لگ جاتے ہیں۔ جدید طبی علاج کی وجہ سے سانپ کے ڈسّے کا علاج اب ممکن ہے۔
2۔ زخم کو کبھی بھی چھیڑا نہ جائے۔ گیلے کپڑے سے زخم کو صاف کرنے میں کوئی حرج نہیں البتہ مساج نہ کیا جائے۔
3۔ ڈسے ہوئےحصے پر موجود کسی بھی قسم کی جیولری کو اتار لیا جائے خاص طور پر انگلیوں کی انگوٹھیاں، کیونکہ یہ خون کے بہاؤ کو روک کر ورم بنا سکتی ہیں۔
4۔ اگر متاثرہ حصہ بازو یا ٹانگ ہے تو ڈسنے والی جگہ سے اوپر مناسب دباؤ سے ایک پٹی باندھ دی جائے اور کوشش کی جائے کہ اس حصے کو حرکت کرنے سے روکا جائے۔
5۔ اگر سانس لینے میں رکاوٹ ?ا دل کے مسائل کی علامات ظاہر ہونے لگیں تو جلد از جلد طبی علاج شروع کیا جائے۔
6۔ کبھی بھی متاثرہ حصے پر کٹ نہ لگائے جائیں اور نہ ہی زہر چوسنے اور کیمیکل لگانے یا بجلی کا جھٹکا لگانے کی کوشش کی جائے۔
7۔ مریض کو الکوحل یا نشہ آور دوا ڈاکٹر کی ہدایت کے بغیر نہ دی جائے۔ ہسپتال یا ڈاکٹر تک رسائی کئی گھنٹوں یا دنوں تک نہ ہو سکنے کی صورت میں صاف پانی یا کوئی بھی فلوئڈز دیے جا سکتے ہیں۔
8۔ اگر سانپ کو مارا جا چکا ہو تو اس کی شناخت کے لیے اس کو ساتھ لایا جائے لیکن اس کے سر کو ہاتھ لگانے سے گریز کیا جائے اور اگر سانپ بھاگ جائے تو اس کا پیچھا نہ کیا جائے یہ خطرے کا باعث ہو سکتا ہے۔
9۔ جتنی جلدی ہو سکے کسی ہسپتال، کلینک یا ڈاکٹر تک پہنچنے کی کوشش کی جائے۔
10۔ سانپ کے ڈسے کے علاج کے لیے جو روایتی طریقے استعمال کیے جاتے ہیں وہ خطرناک ہو سکتے ہیں۔ مثلاً داغنا، چیرا لگانا، زہر کو چوسنا، ویکیوم پمپ یا سرنج کے ذریعے پوٹاشیئم، فینول اور ٹریپسینن جیسے کمپاؤنڈ جسم میں داخل کرنا، بجلی کے جھٹکے دینا، جڑی بوٹیاں پودوں سے حاصل کردہ ادویات اور سانپ کے کچھ مخصوص حصے کھلانا، بار بار چیرا لگانا وغیرہ۔

حفاظتی انتظامات 

اس سانپ کے خطرناک اور جان لیوا حملے سے بچنے کے لیے عام عوام مندرجہ ذیل احتیاطی تدابیر پر عمل کریں۔
1۔ اردگرد کے ماحول کو کوڑاکرکٹ سے صاف رکھیں۔
2۔ گھروں کو چوہوں سے پاک رکھیں۔
3۔ گھر کے قریبی ایریا میں موجود کچرے کو متعلقہ صفا?ی والے محکمے سے صاف کرائیں۔
4۔ گھر کے قریب موجود تمام چوہوں کے سوراخوں کو بند رکھیں۔
5۔ اپنے باغیچے کی صفائی کو اچھی طرح سے برقرار رکھیں
گملوں کو دیوار سے ایک فٹ کے فاصلے پر رکھیں۔
6۔ اگر آپ رات کوکسی بھی کام کے لیے اپنے کمرے سے باہر نکل رہے ہیں تو پورچ/برآمدہ کی لائٹس آن کر لیں۔
7۔ جب استعمال میں نہ ہوں تو کموڈ کے ڈھکن اور ٹوائلٹ کے دروازے بند رکھیں۔
8۔ گٹروں کے ڈھکن اچھے سے بند رکھیں اورکھلے گٹروں کو مناسب طور پہ بند کرائیں۔
9۔ نکاسی کے پائپ کو جالی سے اس طرح سے بند رکھیں کہ
سیوریج باہر آسکے لیکن سانپ اندر نہ جاسکے۔
10۔ سانپ ، اور جنگلی جانور نظر آنے کی صورت میں ریسکیو 1122 والوں کو فوراً فون کریں۔
11۔ اگر خدانخواستہ کو?ی سانپ یا موذی جانور کاٹ لے یا ڈنگ مار لے تو، جادو اور دم کروانے کے چکروں میں وقت ضائع مت کریں۔ علاج کے لیے فوراً قریبی بڑے ہسپتال پہنچیں۔

مزید :

بلاگ -