ترقی کا راز
جا پا ن کی بے پنا ہ ترقی کا راز کیا ہے ؟ بظا ہر بہت سا دہ اور گھسا پٹا سا پرا نا سوال ہے ، مگر پھر بھی نہا یت اہم اور بنیا دی سوال ہے ۔ ہما ری طرح ایشیا کا جو بھی ملک ترقی کر نا چاہتا ہے جا پا ن اس کے لیے مثا ل کی حیثیت رکھتا ہے ، یہی سوال مجھ سے سرکٹ ہا ﺅس خانیوال کے ہال میں میڈیا ہا ﺅ س کے صحا فیو ں کی جا نب سے میرے اعزاز میں بر پا کی گئی تقریب میں پو چھا گیا ۔ اس وقت جو جوا ب بن پڑا میں نے وضا حت کر نے کی اپنی سی کوشش کی۔ بعد ازاں اس سوال پر میں تا دیر سو چتا رہا کہ جاپان نے دو سری جنگ عظیم کے ملبے سے کیسے شکست کے بعد خو د کو نکالا اور سرعت سے معا شی ترقی کر کے دنیا کے لیے ایک مثا ل بن گیا ۔ غو ر کر نے پر مجھ پہ کھلا کہ راز کی تو اس ترقی کے سفر میں کو ئی با ت ہی نہیں ہے۔ بہت کھلی کھلی سی وجو ہا ت ہیں جو اسے معاشی طورپربا م عروج پر لے گئی ہیں ۔ اگر مجھ سے کہا جا ئے کہ صرف ایک جملے میں ہی بیا ن کر ڈالو ں تو بھی کو ئی دقت نہیں ہے ۔میں کہوں گا کہ مستقل مزاجی سے سخت محنت اور محنت کا سما جی اعترا ف اس خیرہ کن معا شی ترقی کا سبب ہے۔یہ معا شرہ قا ئد اعظم کے فر ما ن کا م ، کام اور کام کی عملی تصویر ہے ۔ محنت کے سما جی اعترا ف سے میری کیا مراد ہے ، یہ با ت شا ید میں اس ذا تی وا قعے سے وا ضح کر سکو ں گا۔
یہا ں پر بھی تما م شا ہرا ہوں پر ہما ر ی مو ٹر وے پو لیس کی طرز پر تیز رفتا ر گا ڑ یو ں کی پکڑ دھکڑ کے لیے پو لیس کیمرے نصب کرکے چھپی بیٹھی ہو تی ہے ، اور مو قع وا ردات پر ہی جر ما نہ بھی عا ئد کر تی ہے ۔ اس کے علا وہ جگہ جگہ تیز رفتا ر ی کی روک تھا م کے لیے مستقل خو د کا ر کیمرے بھی نصب کیے گئے ہیں ۔ جو کہ تیز رفتار گا ڑیو ں کی خو د بخو د تصا ویر کھینچ لیتے ہیں۔ سڑک پر حد رفتار کی خلا ف ورزی کر نے والی موٹروں کی نمبر پلیٹ سے پو لیس ان کے ما لکا ن کا پتہ معلو م کر کے انہیں نو ٹس بھجو ا دیتی ہے ۔ چند سا ل پہلے میں بھی تیز رفتا ر ی کے سبب ایک ایسے ہی خو د کا ر کیمرے کی زد میں آگیا تھا ۔ دن کا وقت تھا اس لیے فلیش لا ئیٹ کا بھی پتہ نہ چلا ۔ اس کو تا ہی کا علم تب ہوا جب دفتر میں پو لیس کی جا نب سے نو ٹس آیا کہ فلا ں دن ، فلاں مقام پر آپ نے فلا ں وقت حد رفتا ر کی خلاف ورزی کی تھی، اور آپکی تصویر کھینچی جا چکی ہے ، اس لیے اپنی پہلی فر صت میں تھا نے تشریف لے آئیں ۔ تھا نے پہنچا تو پو لیس والے نے تیز رفتار ی کرتے ہو ئے میری تصو یر دکھا کر مجھ سے پو چھا کہ کیا یہ آپ ہی کی تصو یر ہے ؟ انکا ر کی گنجائش نہیں تھی کیونکہ بڑی کلیئر فو ٹو آئی تھی۔ میرے اقرار پر معا ملہ عدالت کے سپر د کر دیا گیا ۔ عدالت کی مقررہ تا ریخ پر مجھے سیا ہ رنگ کی سرکا ری کا ر کی پچھلی سیٹ پر تما م ملزمو ں کی طرح بیٹھا کر پو لیس اسٹیشن سے عدالت لے جا یا گیا ۔ وکیل کے ہمراہ جج کے روبرو پیش کیا گیا ۔ مجھ سے اس نے صرف ایک سوال کیا ، کہ جس وقت تم تیز رفتا ری سے گا ڑی چلا رہے تھے ، تو تم کہا ں جا رہے تھے ؟ کو ئی ذا تی معا ملہ طے کر نے جا رہے تھے یا پھر کا م کے سلسلے میں محو سفر تھے؟ میں نے اس بے ضرر سے سوال کا جواب دیا کہ ایک ذا تی نو عیت کے معا ملے میں تیز رفتا ری سے جا رہا تھا ۔ جج صاحب نے مجھے ستر ہزار روپے جر ما نہ کر کے وو چر ہاتھ میں تھمادیا ۔
مجھے اس فیصلے پر تھو ڑی سی حیر ت ہو ئی ۔ اس حیرانگی کی وجہ یہ تھی کہ جب میں اپنی باری کے انتظار میں کمرہ عدا لت میں بیٹھا تھا تو وہا ںپر ایک برا زیلی سے گپ شپ ہو ئی ۔ جس نے میری طرح تیز رفتاری کے با عث ٹریفک کیمرے سے تصویر کھینچوائی تھی ، مزے کی با ت یہ ہے کہ اس کی رفتا ر بھی میرے جتنی ہی تھی جب اسکی خو د کا ر کیمرے نے تصو یر کشی کی ۔ عدالت میں جج کے رو برو مجھ سے پہلے وہ پیش ہوا تھا ، اور اس پر چا لیس ہزار روپے جرما نہ عا ئد کیا گیا تھا ۔ جب میں کمرہ عدا لت سے باہر نکلا تو اتفاق سے کا ر پا ر کنگ میں مجھے وہی برا زیلی لڑکا مل گیا ۔ میں نے اس سے استفسا ر کیا کہ یار !ہمار ا جرم تو ایک جیسا تھا مگر ظالم جج نے مجھ پر جرما نہ تمہارے مقا بلے میں زیا دہ کیو ں عا ئد کر دیا ہے ؟ اس نے الٹا سوال داغ دیا کہ تم نے جج کے سوال کا جواب کیا دیا تھا ؟ میں نے کہا کہ یہی بتا یا تھا ایک نجی مصروفیت کے سلسلے میں ایک جگہ جا رہا تھا ۔ یہ سن کر برا زیلی نے مجھے کہا کہ تم نے غلطی کر لی۔ اگر تم میری طر ح یہ جوا ب دیتے کہ میں کا م کے سلسلے میں کہیں جا رہا تھا تو تمہا ر ا جرمانہ بھی میری طرح کم ہی ہو تا ۔ آپ سو چ رہے ہو ں گے کہ اس طرح تو تمام ملک کے لوگ ہی یہ بیان دیں گے کہ وہ محنت ، مزدوری اور کام پر نکلے ہو ئے تھے، تو جنا ب عر ض یہ ہے کہ جاپانی جھو ٹ نہیں بو لتے، میرا مطلب ہے کہ بالکل بھی اس فن سے نا آشناہیں ۔
یہا ں مجھے اپنے دفتر کے ہمسا ئے میں واقع الیکڑک بیٹری بنا نے والی کمپنی کا مالک بھی با ر با ر یا د آرہا ہے،جسے میں سا لہا سا ل تک اس کمپنی کا مزدور سمجھتا رہا ۔ گو کہ خو د ہی بیٹریا ں اٹھا اٹھا کر اپنی گا ڑی میں رکھتا اور نکا لتا تھا ۔ ہما رے ہا ں ما لک بھلا ایسے تھو ڑی ہوتے ہیں۔ اس کے ما لک ہو نے کا انکشا ف تو یو ں ہوا کہ ایک دن میں اس کی فیکٹری میں چلا گیا گو کہ وہ مزدوروںکے لبا س میں ملبو س تھا مگر سب ملا ز مین اسے ”سا چو“یعنی با س کہہ کر پکا رہے تھے۔ پا کستا نی حسا ب سے اسے ارب پتی کہو ں تو کسربیا نی ہو گی ۔ میرے مشا ہدے کے مطا بق پاکستانی لوگ جاپانیوں سے زیا دہ ذہین ہیں ۔ ہما رے قدرتی وسائل بھی جا پا ن کے مقا بلے میں بہت زیا دہ ہیں ۔ عا لمی سطح پر کئے گئے کئی سروے بتا تے ہیں کہ دنیا کی ذہین ترین اقوام کے پہلے پا نچ درجو ں میں پاکستانی شا مل ہیں ۔
ہما رے قدرتی وسا ئل اور ہما ری قو م کی ذہا نت اپنی جگہ مسلم حقا ئق ہیں ۔مگر یہ چیزیں ترقی کی ضمانت نہیں ہو سکتیں ،کسی دانا کا قول ہے کہ ”ذہا نت کچھ کچھ ہے اور محنت سب کچھ “ جو خا لق کا ئنات ہمیں یہ حکم دیتا ہے کہ مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہو نے سے پہلے ادا کر دی جا ئے ، وہ رب العالمین ایسی نا انصا فی نہیں کر سکتا کہ خو د محنت کر نے والی اقوام اور افرا د کو ثمر با ر نہ کر ے ، ان کی مزدوری کا صلہ عطا نہ فرما ئے ۔