صرف مذاکرات ہی سے نجات ممکن ہے!

پاکستان پیپلزپارٹی کے بانی، قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کو مارشل لاء کے تحت جب اقتدار سے محروم کرکے قید کیا گیا تو اس وقت بھی وہ بہت مقبول سیاستدان تھے، اس کا اندازہ اس سے بھی ہوتا ہے کہ 4-5جولائی کو جس شب خون کے ذریعے پارلیمان ختم کی گئی تو ابتداء میں اکتوبر 77 میں ہی انتخابات کا اعلان کیا گیا۔ ان انتخابات کے لئے شیڈول بھی دیا گیا اور متوقع طور پر پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستان قومی اتحاد ہی آمنے سامنے تھے، ہر دو طرف سے جو امیدوار میدان میں اتارے گئے وہ بڑے بڑے نام والے تھے، میں نے یہ انتخابی مہم بڑے قریب سے دیکھی۔ ایک تو روزنامہ امروز کی طرف سے فرض کے طور پر دوسرے پرانے لاہور کی نشست پر برادرم ڈاکٹر جہانگیر بدر(مرحوم) کے امیدوار ہونے کے باعث، وہ اس وقت سنٹرل جیل کوٹ لکھپت میں مقید تھے، ان کے خلاف حضرت مولانا شاہ احمد نورانی کی توہین کا الزام تھا اور فوجی عدالت نے ان کو ایک سال قید بامشقت اور پانچ کوڑوں کی سزا دی تھی، ان کے مقابلے میں پی این اے کی طرف سے حضرت علامہ عبیداللہ انور صاحب قبلہ امیدوار تھے اور یہ مقابلہ بڑا سخت تھا، جہانگیر بدر اس حلقہ سے منتخب ہو کر وفاقی وزیر بھی رہ چکے ہوئے تھے۔
وقت کم ہونے کی وجہ سے انتخابی مہم ابتداء ہی سے تیز شروع ہوئی اور بڑے بڑے جلسے ہونے لگے۔ جہانگیر بدر کی انتخابی مہم ان کے بھائیوں اور دوستوں نے شروع کی تھی۔ اکتوبر 77کے ان انتخابات کے لئے میدان لگ جانے کے بعد ہی یہ اندازہ ہو گیا کہ پیپلزپارٹی اوربھٹو مقبول ہیں، جوں جوں وقت گزرا، یہ بات اور واضح ہوتی گئی اور بالآخر مقتدر ضیاء الحق نے اندیشہ ہائے دور دراز کے باعث یہ انتخابات ملتوی کر دیئے اور پھر ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف احمد رضا خان قصوری کی ایک تحریرکرائی گئی۔ ایک ایف آئی آر کے تحت ان کو 109/307-302وغیرہ کے تحت گرفتار بھی کرلیا گیا۔
یہ عرض کرنے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ قارئین کو موجودہ حالات سے موازنہ کرنے میں آسانی ہو، ذوالفقار علی بھٹو کی حراست کے دوران پیپلزپارٹی کن مراحل سے گزری وہ الگ مسئلہ ہے۔ میں آج دو گزارشات کرنا چاہتا ہوں جن سے واضح ہوگا کہ حالیہ حالات سے مماثلت کیا ہے اور کیسے ایک مقبول تر رہنما کو تختہ دار تک پہنچا دیا گیا، صرف ذوالفقار علی بھٹو ہی جیل میں نہیں تھے ان کے علاوہ باباء سوشلزم شیخ رشید اور متعدد دوسرے رہنما بھی گرفتار ہوئے حتیٰ کہ کوئی عہدیدار نہ بچا، اس دور میں باباء سوشلزم کی طرف سے بار بار تاکید کی جاتی کہ عوامی قوت سے مقابلہ کیا جائے کارکن اور عوام باہر نکلیں اور پھر ایسا ہوا بھی۔ پیپلزپارٹی کے جیالے پورے ملک میں نکلے اور بڑے چھوٹے مظاہرے کئے، میں قارئین کو لاہور کے حوالے سے عرض کرتا ہوں کہ کارکنوں نے جان توڑ کوشش کی لیکن مارشلائی قوت اور حکمت عملی کے باعث ان کی ایک بھی نہ سنی گئی، بلکہ کئی جان سے گئے تو اکثر شاہی قلعہ لاہور کے عقوبت خانوں میں اذیت برداشت کرنے پر مجبور ہوئے۔ بھٹو کی اہلیہ بیگم نصرت بھٹو اور ان کی پنکی بھی اس رہائی مہم کا حصہ اور اسے چلا رہی تھیں، لاہور میں ابتداء بڑے بڑے جلوسوں سے تو ہوئی لیکن پولیس کے تشدد کا مقابلہ مشکل ہو گیا۔ جیالے توڈٹ گئے لیکن عام لوگ شیدائی ہونے کے باوجود سمٹ گئے تھے۔ اس وقت مارشلائی انتظامیہ کی حکمت عملی یہ تھی کہ جیالے مظاہرے کے لئے نکلتے تو ان کی مزاحمت نہ کی جاتی، چنانچہ ابتداء 50-60 جیالوں سے ہوتی اور پھر روز بروز اضافہ ہوجاتا، جونہی یہ تعداد ڈیڑھ دو سو سے زیادہ ہوتی، پولیس کی بھاری نفری آلات سے لیس ان پر پل پڑتی۔ایک تو ان کی زبردست پٹائی ہوتی اور دوسرے بڑی تعداد گرفتار ہوجاتی انتظامیہ کی نگاہ میں ”خطرناک“ قلعہ کی سیر کرتے، بعض کو سرعام کوڑے لگوا دیئے جاتے اور اکثر کی جیل یاترا ہوتی۔ یوں بیگم نصرت بھٹو بھی اپنا سر پھٹوا بیٹھیں اور پھر ماں، بیٹی بھی گرفتار ہوئیں، مارشل لائی حکمت عملی ایسی ہو گئی کہ مظاہرین کی تعداد گھٹ کر رہ گئی، حتیٰ کہ بھٹو کی سزا پر عملدرآمد اور تدفین کی خبر کے بعد بھی بڑے مظاہرے نہ ہو سکے اگرچہ جیالوں نے خودسوزیاں بھی کیں۔
اگر قارئین! آپ حضرات کا خیال ہے کہ وہ مارشل لاء تھا اور آج سول حکومت اور عدالتیں موجود ہیں، جہاں سے معتوب افراد کو ریلیف بھی مل رہی ہے تو یہ درست کر لیجئے کہ کے پی کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور ارادتاً یا عادتاً اتنی بار چڑھائی کر چکے اور ناکامی کا سامنا کیا کہ ان کی حالت بھی وہی ہو چکی ہے کہ مظاہروں (دھرنوں کی دھمکیاں) میں اب پہلے سی طاقت نہیں رہی، کچھ راہنما روپوش ہیں اور اکثر اپنے سوٹوں کی کریز کا بہت خیال رکھتے ہیں اور اب انتظامیہ کی طرف سے بھی بڑے کریک ڈاؤن ہوئے اور مزید ہو رہے ہیں، ان ہی حالات کی وجہ سے اب فرد جرم تک نوبت پہنچ گئی اور اعلیٰ عدالتوں سے ریلیف بھی کم ہوتی جا رہی ہے کہ اب انتظامیہ نے پراسیکیوشن میں سنجیدگی بھی اختیار کرلی ہے، حالیہ دنوں میں تھوک کے حساب سے گرفتاریاں کی گئیں، گو یہ کتنا بھی ”ظلم“ ہو، تاہم تحریک کی کمر توڑنے کی حد تک ٹھیک ہے اور پھر خود قائدین کے تنازعات اور اختلافات بھی منظر عام پر ہیں اور بات ”کس کے ہاتھ پر لہو تلاش کروں“ تک پہنچنے والی ہے، مقتدرہ کا رویہ اب فارمیشن کمانڈرز کے اجلاس سے بھی ظاہر ہے جبکہ حکمران 26ویں آئینی ترمیم پر عمل میں کامیاب ہیں، 9دسمبر کو سپریم کورٹ کی آئینی بنچ کے سامنے اہم ترین کیس لگ گیا اور شنوائی ہو گی، اس پر حکومت اور مقتدرہ کا بہت بڑا بھروسہ ہے اگر حکم امتناعی ختم اور فیصلہ حکومت وقت کے لئے ”مفید“ ہو گیا تو جن مقدمات میں فرد جرم لگی(خصوصاً فوجی تنصیبات کے مقدمات والی)وہ نہ صرف فوجی عدالتوں میں چلیں گے بلکہ ان کے لئے حقوق انسانی کے حوالے سے اعتراضات اور تنقید کے لئے بھی انتظامات موجود ہیں، ہم جیسے خبطی لوگوں کو یہ جتنا بھی ناپسند ہو، حقیقت یہی ہے، اس لئے حالات بانی اور شدت پسندوں کے لئے سازگار نہیں ہیں اور یہ توقع بھی عبث ہے کہ امریکہ میں اقتدار کی تبدیلی معاون ہوگی۔ امریکی ”ڈیپ سٹیٹ“ کوہماری مقتدرہ کی بہرحال ضرورت ہے اور بات مگرمچھ کے آنسوؤں تک رہ سکتی ہے میں نے اپنے ذاتی تجربات ہی کے باعث نہائت دلسوزی سے عرض کی تھی کہ قومی مصالحت ہو جائے لیکن ضد اور انا نے تاحال ایسا نہیں ہونے دیا اور جو حضرات طاقت کے سرچشمہ ہی سے بات کرناگوارا کرتے ہیں ان کو حالیہ حالات کا جائزہ لینا چاہیے کہ ایسا ممکن نہیں رہا، نہ صرف ملک و قوم بلکہ خود اپنی خاطر سپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کو وسیلہ بنا کر مذاکرات شروع کریں کہ اسی میں سب کی بھلائی ہے اور سیاسی ہیں تو پھرسیاست میں بات بھی سیاسی جماعتوں کے درمیان ہوتی ہے، یہی جماعتیں بعد میں مقتدرہ کو آن بورڈ لے لیتی ہیں۔