جہنم کا پچھواڑا۔۔۔۔اس کے پاس سفر کے لیے کرائے کے پیسے بھی نہیں تھے

جہنم کا پچھواڑا۔۔۔۔اس کے پاس سفر کے لیے کرائے کے پیسے بھی نہیں تھے
جہنم کا پچھواڑا۔۔۔۔اس کے پاس سفر کے لیے کرائے کے پیسے بھی نہیں تھے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف : اپٹون سنکلئیر
ترجمہ :عمران الحق چوہان 
 قسط:158
جنگ ختم ہوتے ہی اس نے آکٹو پس کی طرح ہاتھ پاؤں پھیلانے شروع کر دئیے۔ پہلے وہ کاروبار کی طرف گیا لیکن وہاں اس کامقابلہ ان لوگوں سے تھا جنھوں نے جنگ کے دوران، جب وہ جان ہتھیلی پر رکھے محاذ پر لڑ رہا تھا، خوب دولت سمیٹی تھی۔شہری حکومتیں ان کے ہاتھ میں تھیں، ریلوے کا نظام ان کے قابو میں تھا اور ایماندارانہ کاروبار کو دیوار سے لگا دیا گیا تھا چنانچہ ہِنڈز نے اپنی ساری کمائی جائیداد کی خریدفروخت کے کام میں لگا دی۔ اور تنہا ہی اس چوربازاری (graft ) کے آگے بند باندھنے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا۔ وہ سٹی کاؤنسل میں اصلاحات کمیٹی کا رکن تھا اور اس کے علاوہ لاتعداد کمیٹیوں اور تنظیموں سے وابستہ تھا لیکن آخر 30 سال تک ماتھا پھوڑنے کے بعد اسے یقین ہو گیا کہ مرتکز دولت کو کبھی بھی کنٹرول نہیں کیا جا سکتا، صرف تباہ کیا جا سکتا ہے۔اس نے اس حوالے سے اپنے خیالات پر مبنی ایک پمفلٹ لکھ کر چھپوایا اور اپنی ایک علیٰحدہ جماعت بنانے کا فیصلہ کیا۔ پھر اس کے ہاتھ سوشلسٹوں کا ایک پمفلٹ لگا تو اسے اندازہ ہوا کہ کچھ لوگ اس سے بہت آگے بھی ہیں۔ اور اب گزشتہ 8 سال سے وہ سوشلسٹ جماعت کے لیے جدوجہد کر ہاتھا۔ وہ اس کے لیے وقت اور جگہ کا بھی پابند نہیں تھا، چاہے جی۔اے۔ آر (Grand Army of the Republic) کی ری یونئین ہو، چاہے ہوٹل کِیپرز کا اجتماع ہو۔ ایفرو امریکن کاروباری لوگوں کی دعوت ہو یا بائیبل سوسائیٹی کی پکنک ہو۔ ٹامی ہِنڈز کسی نا کسی طرح خود کو مدعو کروا لیتا اور موضوع زیر ِگفتگو کا کوئی نا کوئی تعلق سوشل ازم سے نکال کر وضاحت کرنی شروع کر دیتا۔ پھر اس نے دورے کرنے شروع کر دئیے اور کہیں نیویارک اور آریگان کے آس پاس جا کر دم لیا۔ وہاں سے واپس آکر اس نے سٹیٹ کمیٹی کے لیے نئے لوکل منظم کرنا شروع کر دئیے۔ تھک ہار کر وہ گھر لوٹ آیا اور شکاگو میں سوشل ازم کی تبلیغ شروع کر دی۔ ہِنڈ کا ہوٹل پراپیگنڈے کا بڑا مرکز تھا۔ وہاں سارے ملازم پارٹی کارکن تھے اور اگر نوکری کے آغاز میں نہیں بھی تھے تو یہ بات یقینی تھی کہ جاتے وقت وہ ضرور سوشلسٹ بن چکے ہوتے تھے۔ ہوٹل کا مالک لابی میں کسی کے ساتھ مصروف ِ گفتگو ہوتا، بات چیت بحث میں بدلتی اور ارد گرد کے لوگ شور سن کر اکٹھے ہو جاتے، حتیٰ کہ آس پاس کے سب لوگ ایک گروہ کی شکل اختیار کر لیتے اور باقاعدگی سے روز ہونے والے بحث مباحثے کی نیو رکھ دی جاتی۔ یہ سلسلہ جاری رہا، کبھی ہنڈز موجود نہ ہوتا تو ا س کا کلرک اس کی جگہ ڈیوٹی سر انجام دیتا، کلرک کمپین پر نکلا ہوتا تو اس کا ماتحت یہ فرض ادا کرتا۔ یہ کلرک اس کا پرانا دوست تھا، ہٹّاکٹّا، لحیم شحیم، لمبے چہرے والا دہقان نما 50 سالہ آدمی۔ وہ کسانوں کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والی جماعت ” پاپولِسٹ“ کا حصہ رہا تھا۔ ٹامی نے اسے ٹرسٹ کو تباہ کرنے کے بجائے اسے استعمال کرنے کی تجویز دی تو وہ اپنی زمینیں بیچ کر شکاگو آگیا۔
اسسٹنٹ کلرک کا نام ہیری آدم تھا۔ زرد چہرے والا کلرک جو شکل سے بہت پڑھا لکھا لگتا تھا، میسا چیوسٹس سے آیا تھا۔وہ فال ریور میں کاٹن آپریٹو تھا۔ کاروبار کی مسلسل خسارے نے اسے بے حال کردیا تو وہ اپنے خاندان کے ساتھ جنوبی کیرولائنا ہجرت کر گیا۔ جنوبی کیرولائنا میں ووٹ ڈالنے کے لیے تعلیم کے علاوہ مخصوص جائیداد کی شرط بھی تھی۔ اس وجہ سے اور کئی دیگر وجوہ کی بنا ءپر وہاں چائلڈ لیبر عروج پر تھی۔ اسی بنا ءپر وہاں کی ملوں نے میساچیوسٹس والوں کے کاروبار کا بھٹا بٹھایا تھا۔ آدم کو ان باتوں کا علم نہیں تھا، وہ تو صرف اتنا جانتا تھا کہ جنوبی ملیں چل رہی ہیں۔ وہاں پہنچ کر اسے اندازہ ہوا کہ اگر انھوں نے زندہ رہنا ہے تو سب گھر والوں کو شام 6 بجے سے صبح کے 6بجے تک کام کرنا پڑے گا۔ اس نے میساچیوسٹس کی طرح یہاں بھی مزدوروں کو منظم کرنا شروع کیا، چناں چہ اسے نوکری سے نکال دیا گیا، لیکن اسے دوسری نوکری مل گئی اور وہ اپنا کام کرتا رہا۔ نتیجتاً وہاں کام کے گھنٹے کم کروانے کے لیے ہڑتال ہوگئی۔
 ہیری آدم نے ایک سرِ عام جلسے سے خطاب کرنے کی کوشش کی جو اس کا انجام ثابت ہوئی۔ جنوب کی دور افتادہ ریاستوں میں مجرموں کو پٹے پر ٹھیکے داروں کو دے دیا جاتا تھا اور اگر مجرم کم پڑ جاتے تو باہر سے منگوائے جاتے تھے۔ ہیری آدم کو جس جج نے پٹے پر بھیجا وہ اس مل مالک کا کزن تھا جس کے کاروبار سے آدم نے پنگا لیا تھا۔ وہ سمجھ دار تھا اس نے چپ سادھ لی اور سزا کی مدت پوری ہونے پر اپنے گھر والوں کے ساتھ جنوبی کیرولائنا سے، جسے لوگ جہنم کا پچھواڑاکہتے تھے، نکل آیا۔اس کے پاس سفر کے لیے کرائے کے پیسے بھی نہیں تھے۔ لیکن یہ کٹائی کا موسم تھا، وہ ایک دن کام کرتے اور ایک دن سفر کرتے۔ اس طرح بلآخر آدم شکاگو پہنچ گیا اور سوشلسٹ جماعت میں شمولیت حاصل کرلی۔ وہ محنتی، اپنے آپ میں رہنے والا اور کم گو آدمی تھا جسے تقریر کرنا بالکل نہیں آتی تھی۔ لیکن ہوٹل میں اس کے ڈیسک کے نیچے ہمیشہ کتابوں کا انبار موجود رہتا اور اس کے قلم سے نکلے ہوئے مضامین جماعت کے اخبار میں توجہ حاصل کرنے لگے تھے۔( جاری ہے ) 
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم “ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں )ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔

مزید :

ادب وثقافت -