ایک اور منصوبہ جس پر مجھے فخر ہے، وہ پرانے شہر لاہور کی تزئین و تعمیر نو کا تھا، جس میں اب بین الاقوامی اداروں کی مشاورت بھی شامل ہوگئی ہے

 ایک اور منصوبہ جس پر مجھے فخر ہے، وہ پرانے شہر لاہور کی تزئین و تعمیر نو کا ...
 ایک اور منصوبہ جس پر مجھے فخر ہے، وہ پرانے شہر لاہور کی تزئین و تعمیر نو کا تھا، جس میں اب بین الاقوامی اداروں کی مشاورت بھی شامل ہوگئی ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:محمد اسلم مغل 
تزئین و ترتیب: محمد سعید جاوید 
 قسط:91
ایک اور منصوبہ جس پر مجھے بجا طور پر فخر ہے، وہ پرانے شہر لاہور کا تحفظ اور اس کی تزئین و تعمیر نو کا تھا۔ جس میں اب بین الاقوامی شہرت یافتہ اداروں اور مختلف ممالک کی امداد اور مشاورت بھی شامل ہوگئی ہے۔ اس کے علاوہ  میرے ذہن پر 2 اور منصوبے بھی موجود تھے لیکن میرے پاس پہلے ہی بہت زیادہ مصروفیات تھیں اس لیے میں ان کو شروع کرنے کیلئے وقت ہی نہ نکال سکا۔ ان میں سے پہلا تو لاہور کیلئے شہر کے مختلف مقامات پر متعددنئے قبرستان تعمیر کرنا تھا کیوں کہ یہاں کے سارے قبرستان اب بھر چکے تھے اور نئی قبروں کے حصول میں رہائشیوں کو بے حد مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ در حقیقت قبرستانوں کی کمی اب بہت شدت سے محسوس کی جا رہی تھی۔ 
دوسرا کام جو چاہتے ہوئے بھی میں نہ کر سکا وہ ایک عجیب وغریب مگر ضروری مسئلہ تھا۔ سیکڑوں بلکہ ہزاروں بچے اور بڑے لاہور کی نہر کے گندے پانی میں نہاتے اور ڈبکیاں لگاتے پھرتے تھے۔ یہ سلسلہ شدید گرمیوں کے موسم میں بہت بڑھ جاتا تھا جب لوگ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت سے کچھ سکون حاصل کرنے کی خاطر نہر میں چھلانگ لگا دیتے تھے۔ میں چاہتا تھا کہ اس مقصد کیلئے شہر میں جا بجا صاف پانی کے مگر کم لاگت سے تالاب تیار کیے جائیں جہاں یہ لوگ اپنا شوق پورا کر سکیں۔ کئی برس بعد پنجاب حکومت نے بالآخر ایک بڑا قبرستان تو بنوا دیا لیکن پانی کے تالابوں والا میرا منصوبہ ابھی تک کسی ایسے ذمہ دار افسر کی طرف سے عملی کارروائی کے انتظار میں ہے جس کو اس کی ضرورت کا  احساس ہو اور وہ اس پر کام شروع کر سکے۔  
 حکومت کی طرف سے حتمی منظوری کے بعد میرا اب اقوام متحدہ کی ٹیم شامل ہونا طے تھا اور میں اس کیلئے تیار بھی تھا۔ لیکن ابھی بھی ایک بہت بڑی مگر معتبر رکاوٹ جنرل انصاری کی طرف سے تھی جو ایل ڈی اے کے ڈائریکٹر جنرل تھے۔ مجھے علم تھا کہ جب میں ان کو اپنی روانگی بارے خبر دوں گا تو وہ بہت پریشان اور مضطرب ہو جائیں گے اور میرے راستے میں رکاوٹ بن جائیں گے جو میرے لیے ایک بہت ہی تشویشناک صورت حال ہو گی۔ میں یہ ایسے ہی نہیں کہہ رہا اس سے پہلے بھی ایسی ہی صورتحال بنی تھی جب مجھے ڈائریکٹر جنرل پی پی اینڈ ایچ بنایا گیا تھا تو انھوں نے بالکل آخری مرحلے پر مجھے وہاں جا نے سے روک لیا تھا۔ اب مجھے اس مشکل کا کوئی قابل عمل حل نکالنا تھا۔ مجھے یقین تھا کہ وہ سب سے پہلے تو اپنی یہ مشکل بیان کریں گے کہ ان کے پاس میری جگہ چیف میٹروپولیٹن پلانر کے طور پر کام کرنے والا کوئی افسر موجود نہیں ہے۔ میں نے اپنے پرانے دوست نذر شیخ کا نام اس پوزیشن کیلئے سوچ رکھا تھا۔ وہ اس وقت ڈائریکڑ پی پی اینڈ ایچ کی حیثیت سے کام کر رہا تھا۔ میرا خیال تھا کہ وہ جنرل انصاری کیلئے قابل قبول ہو گا کیوں کہ جنرل انصاری بدعنوانیوں اور مالی بے ضابطگیوں کے معاملے میں بہت حساس تھیاور نذر شیخ ایک بہت ہی دیانت دار اور شریف انسان تھا۔ دوسری بات جو میرے لیے پریشانی کا سبب بن سکتی تھی وہ میرا مرکزی اور اہم ترین منصوبہ عالمی بینک کا اربن ڈیویلپمنٹ اور ٹریفک سٹڈی کا تھا جس کی منظوری اسٹیرنگ کمیٹی سے پہلے ہی مل چکی تھی البتہ اس کی حتمی رپورٹس ابھی تیار کرنا باقی تھا۔ مجھے اس بات کا بھی ادراک تھا کہ میرے دوسرے منصوبے جیسے کہ کچی آبادی یا  باغبانی  وغیرہ تو بہر حال دوسرے افسروں کو تفویض کرنے ہی پڑیں گے۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -