پاکستان میں گداگری کے فن میں جدیدیت(قسط 3)

پاکستان میں گداگری کے فن میں جدیدیت(قسط 3)
پاکستان میں گداگری کے فن میں جدیدیت(قسط 3)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

  

 برِصغیر میں باقاعدہ گداگری بطور پیشے کے بہت زیادہ پُرانی نہیں ہے۔ صنعتی اِنقلاب سے قبل دنیا کے تمام ملکوں کی آبادی زراعت پر گذارا کرتی تھی۔ آبادی کا زیادہ حصہ دیہاتوں میں فصیلیں بنا کر رہتا تھا تاکہ اُن کے پالتو جانوروں کو جنگلی جانور نقصان نہ پہنچائیں۔ فصیلیں کانٹے دار جھاڑیوں کی بھی ہوتی تھیں یا مٹی اور کچی پکی اینٹوں سے بھی بنائی جاتی تھیں۔ کسی بھی دیہات کی آبادی 100-150 مکانات سے زیادہ نہ ہوتی تھی اس لئے ہر دیہات کے رہائشی اپنے کمزور اور غریب مکینوں کو اچھی طرح جانتے تھے۔ دیہاتوں کا سماجی ڈھانچہ مضبوط ہوتا تھا اس لئے کسی نادار یا غریب مکین کو اپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ یعنی پیشہ ور گداگری اپنی ابتدائی  شکل میں ابھی نہیں آئی تھی۔ دنیا کے تمام بڑے مذاہب میں۔ بھوکوں کو کھانا کھلانے اورمالی اِمداد کی زوردار تلقین کی گئی ہے۔ قران میں تو بار بار ناداروں کی اِمداد کرنے کا کہا گیا ہے۔ بلکہ یہ دینِ اسلام کو ہی شرف حاصل ہے کہ ہر صاحبِ حیثیت مسلمان کو ہدائت ہے کہ وہ زکوۃٰ و عُشر، صدقات، عطیات یامالی اِمداد قرضِ حسنہ کی شکل میں معاشرے کے کمزور افراد کو دے۔  بُدھ مذہب نے بھیک مانگنے کو مذہبی رنگ دے کر بھکشو طبقہ پیدا کیا۔ دراصل بھکشو بدھ مذہب کے راہب ہوتے تھے جو گھر گرہستی کی ذمہ داریوں سے آزاد ہو کر اپنا تمام وقت عبادت میں گذارتے تھے، بُدھ مت کی عبادت گاہ کو سنسکرت میں وتَھار کہتے ہیں۔ بھکشو فقیر اپنی رہائشی کوٹھریوں سے باہر نکل کر سیاہ رنگ کے کشکول ہاتھ میں لئے اپنے مخصوص گیروے رنگ کی چادر نما دھوتی میں ملبوس ہو کر گاؤں کے گھروں کا دورہ کر کے دال روٹی کی بھیک مانگتے تھے جو اُن کو پابندی سے مل جاتی تھی۔ اِن بھکشو بھکاریوں کو پیشہ ور گداگر نہیں کہا جا سکتا تھا۔ بدھ مذہب کی دیکھا دیکھی ہندوؤں میں بھی برہمچاری سادھووں کا طبقہ بن گیا۔ ہندو برہمچاریوں کے لئے مندروں کے ساتھ رہائش گاھیں یعنی دھرم شالائیں ہوتی ہیں۔ اِن ہندو سادھووں کا بھیک مانگنے کا طریقہ بھی بُدھ بھکشوں کی طرح ہی ہوتا تھا۔ برِصغیر میں ابھی شہری بودوباش کا رواج نہیں آیا تھا۔ آبادی زرعی زمینوں کے ساتھ جڑے ہوئے گاؤں میں رہتی تھی۔ امیر طبقہ حویلیوں اور محلاّت میں رہتا تھا۔ ہندو نچلی ذاتیں یعنی شودر، ملیچھ،چنڈال وغیرہ گاؤں کی فصیل کے باہر جنگل بیلے میں جھونپڑیوں میں رہتے تھے۔ وہ صرف دن کے وقت گاؤں میں ڈھور ڈنگر کے گوبر اُٹھانے اور بیت الخلا کی صفائی کے لئے داخل ہو سکتے تھے۔ شمال مغربی ہندوستان کے اوّلین مسلمان Converts اِن ہی طبقات سے آئے کیونکہ بزرگانِ دین کا پڑاؤ بھی دریاؤں کے کنارے پر کھیتوں اور جنگلوں میں ہوتا تھاجہاں اؤلیائے کرام کا پہلا واسطہ اِن ہی نچلی ذاتوں سے پڑتا تھا۔ اسی لئے برِصغیر کی مسلمان اکثریت اسی غریب اور ذہنی پس ماندہ طبقے سے ہے۔ آہستہ آہستہ مسلمانوں کی سادہ سی مسجدیں اور مدرسے بھی بن گئے۔ مسلمان فاتحین اصل میں ہندوستان کے مندروں کی دولت لوٹنے آتے تھے۔ اِنفرادی طور پر کسی بادشاہ نے مدرسوں کی مالی مدد ضرور کی ہوگی ورنہ اِن مدرسوں اور مسجدوں کی گذر اوقات بھی خیرخیرات پر ہوتی تھی۔ جمعرات کو کھانا بھیجنے کا رواج آج بھی ہماری دیہاتی مسجدوں میں ہے۔ عرب، ایران، اور ترک معاشروں میں یہ ہندوانہ رواج نہیں تھا۔ مجھے اپنا بچپن یاد ہے۔ ہمارے محلے کی مسجد کے اِمام و موذن اور طالب علموں کا دو وقت کا کھانا ہمارے گھر سے جاتا تھا۔ 

 صنعتی اِنقلاب اور سامراجی دور میں شہر بننے شروع ہوئے۔ دیہاتی لوگ کام کاج کے لئے شہروں میں بسنا شروع ہو گئے۔ دیہی معاشرے میں بھیک مانگنے کے پیچھے مذہبی تائید ہوتی تھی۔ وہاں بھیک مانگنا گداگری میں شمار نہیں ہوتا تھا۔ شہروں کے وجود میں آنے سے ہزاروں سال قدیم دیہی رہن سہن درہم برہم ہو گیا۔ شہروں میں کارخانے قائم ہوگئے۔ کارخانوں کے مزدور اپنی علاقائی تہذیبوں، زبانوں اور رسم و رواج کے ساتھ آئے۔ شہربنے توغربت بھی آئی۔ جھونپٹرپٹیاں اور کچی آبادیاں وجود میں آگئیں، غربت، مذہبی لگاؤ، ذہنی پسماندگی اور کثرتِ اولاد کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ جن ممالک میں مذہب پسندی بہت زیادہ ہے۔ وہاں غریب بھی زیادہ ہیں، ذہنی پس ماندگی کثرتِ اولاد کا باعث بنتی ہے۔ خواہ آپ لاطینی امریکہ، فلپائن اور مشرقی یورپ کے مسیحی رومن کیتھولک ممالک دیکھ لیں، دنیا کے زیادہ تر مسلمان ممالک دیکھ لیں یا آپ شمالی بھارت (Cow belt) کے متعصب ہندو  دیکھ لیں، اِن ممالک میں مذہب کی گرفت زیادہ ہے اور اِن ہی ملکوں میں ہی پیشہ ور گداگری زیادہ ہے۔ جتنے فنکار گداگر پاکستان میں دیکھے ہیں وہ دوسرے غریب ممالک میں نہیں دیکھے۔ جنوبی ہندوستان جہاں تامل ناڈو، تلگو دیشم، کیرالہ، کرناٹک، آندھرا پردیش اور اُڑیسہ ہے، وہاں مڈل کلاس بہت تگڑی ہے۔ تعلیم زیادہ ہے، مذہبی رواداری زیادہ ہے اور سب سے بڑی بات گداگری اور جسم فروشی بھی بہت کم ہے۔ وہاں کا مسلمان آپ کو مزدور پیشہ نہیں ملے گا سوائے کیرالہ کے جو عرب ملکوں میں مزدوری کرتے ہیں۔ پاکستانی گداگروں کی طرح پلاننگ کر کے بھیک مانگنے اور جسم فروشی کرنے دبئی اور سعودی عربیہ نہیں جاتے۔جنوبی ہند کا مسلمان، تعلیم یافتہ اور آسودہ حال ہے۔ وہاں کبھی بھی فرقہ وارانہ فسادات آج تک نہیں ہوئے۔  

یورپ میں گداگری کا ہندوستانی روپ آج سے 3000 سال پہلے شمالی ہند کے اوڈ (چنگڑوں)خانہ بدوشوں کے ذریعے وقفے وقفے سے ہزاروں سال قبل افغانستان، خراسان، ترکیہ سے ہوتا ہوا بلغاریہ اور رومانیہ میں خیمہ زن ہوا۔ یہ  خانہ بدوش چنگڑ یورپ پہنچ کر Gypsy کہلائے۔ یورپ میں گداگری کے علاوہ یہ چھوٹے چھوٹے جرائم بھی کرنے لگے۔ آہستہ آہستہ یہ ہندوستانی نژاد جپسی رومانیہ سے آگے تمام یورپ میں پھیل گئے۔ گداگری اور چھوٹے جرائم کے علاوہ یہ کھیت مزدور، چھوٹے کاریگر، Street entetainer بھی بن گئے۔ وقت کے ساتھ اِن روما (چنگڑوں) کے چہرے تانبے کے رنگ جیسے ہو گئے ہیں۔ اِن کی اپنی Gypsy زبان میں شمالی ہند کی زبان کے ڈھیروں الفاظ اَب بھی ہیں۔ اِن کی گنتی، ہِک، دو، درائے، چار، پنچ، چھی، ست، اَٹھ، نو اور دس ابھی بھی ہیں۔ لندن میں میرا ایک جز وقتی صفائی کرنے والاGypsy ملازم دو سال تک میرے مشاہدے میں رہا۔ مجھے یورپی جپسیوں کو جاننے کا موقع ملا۔ میَں نے ایک روز اُس کے بوڑھے دادے سے بھی ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ وہ نوجوان جپسی مجھے اپنی دونسل پُرانے دادے سے ملوا نے اپنی بستی میں لے گیا۔ اُس بوڑھے جپسی سے مجھے اس طبقے کے ماضی کی زیادہ معلومات حاصل ہوئیں۔یورپ اور امریکہ میں اِن ہندوستانی نژاد خانہ بدوشوں کو سرکاری ریکارڈ میں ابھی بھی گداگر /جرائم پیشہ کہا جاتا ہے۔  

مزید :

رائے -کالم -