کسان برباد…… ذمہ دار کون؟
قیام پاکستان کو 76 سال ہو گئے۔ نیا بحران آ گیا۔ یہ مکالمہ سنتے سنتے داڑھی بھی سفید ہو گئی بال بھی سفید ہو گئے، لیکن بحران ہے کہ ختم ہونے میں نہیں ا ٓرہے۔ خدایا یہ کیسا ملک ہے جہاں ہر چند ماہ بعد ایک نیا بحران جنم لیتا ہے، کچھ بحران تو سالانہ بنیادوں پر آتے ہیں اور ہمارے تجربہ کار بیوروکریٹ اور حکمران ان بحرانوں کا کوئی حل نہیں نکال پاتے، یہی سنتے آئے ہیں کہ پاکستان زرعی ملک ہے،70 فیصد لوگ زراعت کے ساتھ وابستہ ہیں، دیہات میں رہتے ہیں، لیکن پتہ نہیں کیا وجہ ہے کہ آج بھی ہمارے پاس گندم اور چینی کا بحران ہی رہتا ہے۔ پہلے ہم گندم اور چینی برآمد کرکے پیسے کماتے ہیں پھر یہی گندم اور چینی درآمد کرکے جیبیں بھرتے ہیں۔ خوردنی تیل ملائیشیا سے منگوانا پڑتا ہے، دالیں آسٹریلیا سے آتی ہیں، سنتے ہیں کہ ہمارے سمندر اور بلوچستان کے وسیع صحراؤں میں تیل کے وسیع ذخائر ہیں، مگر تیل ہم پھر بھی باہر سے منگاتے ہیں۔ ہمارے سمندر میں مچھلی، جھینگے، لابسٹر، شرمپ اور دیگر مہنگی سمندری مخلوق کا خزانہ موجود ہے،پتہ یہ چلتا ہے کہ کسی اور ملک کے ٹرالر آ کر یہاں غیر قانونی شکار کرکے لیجاتے ہیں، مگر سمندر کے نگہبان نہیں روک پاتے۔
ہمارے ماہی گیر کے پاس آج بھی وہی لکڑی کی پرانی کشتیاں ہیں، جبکہ ”غیر ملکی گھس بیٹھیے“ جن کے پاس ریفریجریٹرز والے جدید جہاز ہیں وہ سمندر میں ”لوٹ مار“ کرکے اور ”مچھلی فریز“ کر کے اپنے اپنے ملک کو روانہ ہو جاتے ہیں۔ لیکن اِس وقت جو بحران ہے اُس کا نام ہے گندم اور یہ وہ بحران ہے جو ہر سال نازل ہوتا ہے ”معذرت“نازل نہیں ہوتا نازل کیا جاتا ہے اور اس بحران میں ہمارے بیوروکریٹس، تاجر یعنی آڑھتی (ذخیرہ اندوز)، سیاستدان اور کچھ ”دستانے پہنے خفیہ ہاتھوں“ کا گٹھ جوڑ ہوتا ہے۔ اسے ملی بھگت بھی کہہ سکتے ہیں۔ تازہ ملی بھگت تو بے حد شرمناک ہے۔ گزشتہ سال جناب وزیراعظم شہباز شریف کے پہلے دور وزارتِ عظمیٰ میں ان کے پسندیدہ بیورو کریٹ محمد محمود (یہ محمد محمود ”نندی پور“ اور ”اسلام آباد رنگ روڈ“ میں ”پکڑے“ جا چکے ہیں) نے ایک سمری بنا کر بھیجی کہ پاکستان کو گندم کی ضرورت پڑنے والی ہے لہٰذا گندم منگائی جائے یہ سمری فوری طور پر منظور نہ کرائی جا سکی،کچھ لوگ کہتے ہیں کہ جان بوجھ کر موخر کی گئی، کیونکہ آنے والی حکومت بھی اپنی ہی تھی۔ انوار الحق کاکڑ کی حکومت کے بارے جناب شہباز شریف کے اپنے الفاظ ہیں کہ ہم نے پی ڈی ایم کی حکومت میں 16 ماہ بہت محنت کی اور اس کے بعد ہماری اس محنت کو نگرانوں نے جاری رکھا،جس کے آج اثرات یا ثمرات مل رہے ہیں۔ اس محنت کا ایک ثمر یہ بھی ہے کہ آج ہمارا کسان رو رہا ہے، گندم کے ڈھیر لگائے سڑکوں پر بیٹھا ہے اور احتجاج کی سزا میں حوالات میں بھی بند ہے۔گندم درآمد کرنے کی جو سمری سابقہ دور میں محمد محمود صاحب نے بھیجی وہ انوار الحق کاکڑ صاحب کے دور میں منظور ہوئی اس منظوری میں ڈھیروں طاقتور لوگوں کے نام شامل ہیں۔ کابینہ کے طاقتور وزراء، بیوروکریٹوں نے اس کو تیزی سے پاس کیا اور ایسا اس لئے کیا کہ گندم سے بھرے جہاز یوکرائن سے چل پڑے تھے گندم منگانے کی منظوری کے بعد جس جہاز کو پاکستان پہنچنے میں چار ہفتے لگتے تھے وہ اجازت ملتے ہی سات دن بعد کراچی پہنچ چکا تھا، اسی سے سمجھ آ جانا چاہئے کہ یہ تیزیاں، پھرتیاں کیوں دکھائی گئیں۔ یہ وہ وقت تھا جب شور مچا ہوا تھا کہ ہم ڈیفالٹ ہونے والے ہیں ایک ایسے وقت میں جب ایک ارب ڈالر کے لئے آئی ایم ایف کے سامنے گڑگڑا رہے تھے، ہم نے ایک ارب ڈالر کی گندم بلاجواز منگوالی۔ یہ گندم پاکستان آگئی،مگر گودام پہلے ہی بھرے پڑے تھے، پچھلے سال کی فالتو گندم پہلے ہی موجود تھی۔ 2900 سے 3200 روپے من آنے والی گندم آڑھتیوں نے 4700 روپے من بیچی اور سرکاری گندم جس کے گودام بھرے ہوئے تھے وہ ”محفوظ“ رہی۔ آڑھتی 4700 روپے بیچتے رہے نگران حکمرانوں نے سرکاری گندم فراہم کر کے نرخ گرانے کی کوشش نہیں کی۔ بیساکھی آئی کسانوں نے خوشی سے اپنی فصلیں کاٹنا شروع کیں پنجاب حکومت نے 3900 روپے اور سندھ حکومت نے چار ہزار روپے فی من کا ریٹ مقرر تو کر دیا، مگر خریدے گا کون؟ مریم نواز شریف صاحبہ کی پنجاب حکومت کا یہ کہنا ہے کہ ہمارے پاس گندم خریدنے کے لئے پیسہ نہیں ہے۔ کسان کی محنت اس وقت سڑکوں پر پڑی ہے۔ وہ پریشان ہے کہ اگر بارش ہو گئی تو وہ کیسے اس گندم کو بچائے گا۔ دوسری طرف ”گنجے گدھ“ (آڑھتی) اپنی گردنیں آگے بڑھائے اس کسان سے اس کی محنت اونے پونے داموں چھیننے کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔ کسان کی گندم کا ریٹ حکومت نے 3900 مقرر کیا ہے، مگر کسان کو صرف 2900 سے 3200 روپے فی من دیا جا رہا ہے۔ یعنی ہر ایک من پہ ایک ہزار روپے کا ڈاکہ ڈالا جا رہا ہے۔ یہ ڈاکہ عوام پہ پڑ رہا ہے کروڑوں لوگوں کے پیٹ پر پڑ رہا ہے اور چند ہزار یا چند سو افراد کے لئے ڈالا جا رہا ہے۔
آج حالت یہ ہے کہ کوئی اس ”جرم“کو قبول کرنے پر تیار نہیں ہے۔ سب ایک دوسرے کو قصور وار ٹھہرا رہے ہیں۔ انوار الحق کاکڑ کا کہنا ہے کہ یہ ان سے پہلے والوں کا یعنی ”پی ڈی ایم ون حکومت“کا قصور ہے یہ سمری ان کے دور میں بھیجی گئی تھی۔ شہباز حکومت نے ایک انکوائری کمیٹی بنائی ہے ویسے بھی یہ کمیٹیاں ”مٹی پاؤ“ کا کام کرتی ہیں اور جس معاملے کو ٹھپ کرنا ہو دبانا ہو اس کے لئے انکوائری کمیٹی یا جوڈیشل کمیشن بنایا جاتا ہے یہ سمری محمد محمود صاحب نے بنائی تھی، لیکن ”نزلہ بر عضو ضعیف“کے مصداق ”گلوٹین“موجودہ سیکرٹری فوڈ کیپٹن محمد آصف (جو کہ فروری میں اس عہدے پر لگائے گئے تھے) کی گردن پر گرایا گیا ہے اور کیپٹن محمد آصف کو فوری طور پر وہاں سے رخصت کر دیا گیا ہے۔ ان حالات میں تو نظر یہی ا رہا ہے کہ کمانے والے کما گئے اور لوٹنے والے موجیں کریں گے، جبکہ ہمارا غریب کسان اس برے وقت کو یاد کر کے روتا اور ”لوٹنے والوں کو بد دعائیں“دیتا رہے گا۔