ہمارا دوست فوجی ماحول میں رہنے کی وجہ سے بڑا تنظیم پسند تھا، کبھی فجر کی نماز گھر میں نہیں پڑھی، ہم حسرت اور شرمندگی سے اسے دیکھا کرتے
مصنف:محمد سعید جاوید
قسط:263
ایک دن خٹک کا وسیم سے شدید نوعیت کا بحث و مباحثہ شروع ہو گیا، دونوں ایک دوسرے کو یہ بتانے کی کوشش کر رہے تھے کہ دراصل وہ ہی اصلی پٹھان ہے اور یہ کہ سامنے والے فریق کی پختونیت کچھ مشکوک ہے، ہم اس بے وجہ مگر دلچسپ بحث سے بڑے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ دونوں دعوے کے حق اور مخالفت میں دلائل دے رہے تھے اور اپنے اپنے قبیلوں کا پوسٹ مارٹم کر رہے تھے۔ نتیجتاً، وہ ہی ہوا جو ہمیشہ ہوتا تھا۔ آخر کار چائے کی ایک پیالی پر اُن کی جنگ بندی تو کروا دی گئی، لیکن ہمیں آخری وقت تک علم نہ ہوسکاکہ اس بحث کا انجام کیا ہوا اور اُن دونوں میں سے اصلی پٹھان کون قرار پایا تھا،پتہ لگ جاتا تو اچھا تھا، ہم کم از کم دوسرے فریق سے توخوفزدہ ہونا چھوڑ دیتے۔
خٹک فوجی ماحول میں رہنے کی وجہ سے بڑا تنظیم پسند تھا۔ اصولوں پر سودے بازی نہیں کرتا تھا، خواہ کیسے ہی حالات ہوں۔ صبح فجر کی نماز وہ مسجد میں ادا کیا کرتا تھا اور فخریہ کہتا تھا کہ آج تک اس نے کبھی فجر کی نماز گھر میں نہیں پڑھی۔ ہم حسرت اور شرمندگی سے اسے دیکھا کرتے تھے۔ جو وقت اس کے سونے کا ہوتا تھا دنیا ادھر کی ادھر ہو جائے، وہ ٹھیک اسی وقت سو جاتا تھا۔ اس کا تلخ تجربہ ہمیں اس وقت ہوا جب وہ گھر میں تنہا رہتا تھا۔ اس نے مجھے اور ڈاکٹر محسن کو دعوت کی کہ جمعہ کی نماز پڑھ کے ہم اس کے ساتھ اس کے گھر چلیں گے جہاں وہ ہمیں بہترین کھانا کھلائے گا اور پھر سب بیٹھ کر ویڈیو پر ایک بہت شاندار اور عجیب و غریب فلم دیکھیں گے۔ ہم دونوں اس کی میٹھی میٹھی باتوں میں آگئے، اس نے انتہائی ذمہ داری اور ایمانداری سے اپنا پہلا وعدہ تو مکمل طور پر نبھایا اور بہترین کھانے سے ہماری تواضع کی۔ جب کہ دوسرے وعدے کے مطابق ابھی فلم دیکھتے ہوئے آدھ گھنٹہ ہی گزرا تھا اورآگے چل کر کہانی میں کچھ سخت مگر خوبصورت مقامات آنے والے تھے،کہ اس نے کمال بے اعتنائی سے اپنی گھڑی دیکھی، ایک خوبصورت سی انگڑائی لی اور اعلان کر دیا کہ ”میرا سونے کا وقت ہو گیا ہے آپ لوگ باقی فلم دیکھیں میں تو سونے جا رہا ہوں اور ہاں جاتے ہوئے باہر کا دروازہ یاد سے بند کرتے جانا۔ “ ہم دونوں ابھی سکتے اور بے یقینی کی کیفیت میں ہی تھے کہ وہ اُٹھ کر خواب گاہ کی طرف جانے لگا، اب وہاں ٹھہرنا محال بلکہ فضول تھا اس لیے ہم بھی شرمندگی سے اٹھ کر واپس آگئے۔ شام کو جب وہ ہمارے ہتھے چڑھا تو اس کی ٹھیک ٹھاک کلاس لی گئی لیکن وہ اپنی مخصوص مسکراہٹ بکھیرتا رہا اس کی ہنسی میں بھی شرمندگی کا کوئی عنصر شامل نہیں تھا۔بس ایسا ہی تھا وہ۔
خٹک بڑا ہی یار باش اور ملنسار انسان تھا اور پاکستان میں ایک پُر آسائش زندگی گزار رہا تھا تب بھی دوستوں کو کبھی نہیں بھولا اور ہر ایک کی خوشی غمی میں شریک ہوتا رہا۔ ویسے بھی اس کی دعوت اتنی پر خلوص ہوتی تھی کہ کوئی انکار کر ہی نہیں سکتا تھا۔ ایسے موقعوں پر عموماً ہم زیادہ تر پرانے دوست ملتے اور ایک بار پھر پچھلا سب کچھ یاد کرکے قہقہے لگاتے رہتے۔ خٹک ایسے موقعوں پر سگریٹ سلگانا نہیں بھولتا، اس کو سگریٹ کے کش لیتے اور دھویں کے چھلّے بناتا ہوئے دیکھ کرنجانے کیوں میرے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ آ جاتی۔
چند برس پہلے ہم اسلام آباد سے ہوتے ہوئے نتھیا گلی گئے، خٹک کے ساتھ گو اسلام آباد میں ملاقات ہوگئی تھی لیکن اس کا اور نہ ہمارا دل بھرا تھا اس لیے اگلی صبح وہ ڈھیر سارے کھانے بنوا کر بھابھی کو ساتھ لیے نتھیا گلی آ پہنچا، وہاں میرے ساتھ ہمارے دوسرے دوست قیوم صاحب بھی تھے، جن کا ذکر کچھ ہی دیر میں آنے والا ہے۔ ہم تینوں اور ہماری بیگمات نے مل کر خوب دھما چوکڑی مچائی اور پھر وہ رات بھی ہمارے ساتھ والے کمرے میں ہی مقیم رہا۔ اس نے اپنی مختصر سی مگر آخری رفاقت سے اس قیام کو یاد گار بنا دیا تھا۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔