آہ خورشید علی۔ واہ خورشید علی
خواتین و حضرات، خورشید علی ایک شخصیت، ایک فنکار اور ایک براڈ کاسٹر تھا۔ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن اور ایک ادارہ تھا۔ وہ گزشتہ پنتالیس سالوں سے ریڈیو اسٹیشن لاہور مرکز پر خدمات سر انجام دے رہے تھے۔ اس دوران انہوں نے صداکار، پیش کار، صوتی تاثرات اور ایڈیٹنگ (تدوین) کے شعبہ میں ماہرانہ خدمات پیش کیں۔ وہ ریڈیو کے لیجنڈ صدا کار تھے جنہوں نے ریڈیو ڈرامہ میں لاتعداد کردار ادا کیے اور بے شمار فیچر پروگراموں میں صدا کاری کی۔ وہ بیک وقت آواز بدل کر ایک وقت میں دو دو، تین تین کردار ادا کرنے میں بھی ملکہ رکھتے تھے۔ ریڈیو اسٹیشن پر انکی بنیادی ذمہ داری ڈراموں اور فیچر پروگراموں میں صوتی تاثرات ڈالنا، ایڈیٹنگ کرنا اور ڈرامے کی مکمل پروڈکشن میں معاونت کرنا تھا۔ چونکہ خورشید علی ایک پیدائشی فنکار اور صدا کار تھے۔ اس لیے وہ ڈراموں میں صداکاری بھی کرتے تھے۔ ضرورت پڑنے پر اناؤنسمنٹ بھی کرتے، ریڈیو رپورٹس بھی پڑھتے تھے۔ وہ ریڈیو ڈرامہ اور ریڈیو فیچر کی مکمل تیاری کے تمام اسرار و رموز سے واقف تھے۔ وہ اسسٹنٹ پروڈیوسر کی خدمات بھی سر انجام دیتے رہے۔ خورشید علی نے 1974ء میں براڈ کاسٹنگ کی دنیا میں قدم رکھا۔ بہاولپور سے اٹھنے والی آواز نے کامیابی کی تمام منزلیں طے کرنے کے بعد ریڈیو پاکستان لاہور کا رخ کیا۔ انہوں نے یہاں آکر اپنی صدا کاری، اداکاری اور فنکاری کا لوہا جلد منوالیا۔ وہ ریڈیو، ٹیلی ویژن اور اسٹیج کے اداکار تھے۔ کمپیرنگ اور ون مین شو انکا خاص شعبہ تھا۔
خواتین و حضرات الطاف الرحمن ریڈیو پاکستان لاہور پر بہت طویل عرصہ تک ڈراموں میں صوتی اثرات کے استعمال کا کام جس مہارت سے سرانجام دیتے رہے تو وہ ریڈیو ڈرامے کا ایک لازم و ملزوم حصہ بن گئے۔ ان کی وفات کے بعد خورشید علی نے یہ کام جس مہارت اور عمدہ طریقے سے سنبھالا اس کی مثال دینا مشکل ہے۔ پھر وہ وقت بھی آیا جب ریڈیو پاکستان خورشید علی کی مہارت کا مرہون منت تھا۔ وہ قومی نشریاتی رابطے پر سینکڑوں ڈرامے اور فیچر پروگرام بحیثیت معاون پروڈیوسر اور ساؤنڈ ایفیکٹس مین Sound effects man پیش کرچکے ہیں۔ ریڈیو اسٹوڈیو میں ریکارڈنگ مشینوں پر چلتی ان کی انگلیاں جادو کا اثر رکھتی تھیں۔ 2007ء کے ریڈیو ڈرامہ فیسٹیول کے آٹھ شاہکار کھیل ان کی فنی مہارت اور صوتی اثرات کا منہ بولتا ثبوت تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے ٹیلی ویژن کے ڈراموں بشمول ”اندھیرا اجالا“ میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔ وہ ”سوہنی دھرتی“ پروگرام کی خالد عباس ڈار کے ساتھ میزبانی بھی کرتے رہے۔
خواتین و حضرات، میرا اور خورشید علی کا ریڈیو پر پچیس سالہ ساتھ تھا۔ اس دوران انہوں نے میرے 150 سے زائد ڈراموں اور فیچر پروگراموں میں صوتی اثرات دیئے، صدا کاری کی اور ریکارڈنگ کی۔ وہ ان پروگرام کے معاون پروڈیوسر کے فرائض بھی انجام دیتے رہے۔ اس دوران ان کی فنی مہارت کے چند نمونے پیش کرنا ضروری خیال کرتا ہوں۔ میرا ایک ڈرامہ ”گونگا“ تھا۔ جس کا مرکزی کردار ہی ایک گونگے لڑکے کا تھا۔ اب اندازہ کریں کہ ریڈیو پر گونگا کیا بولے گا۔ ڈرامے کے پروڈیوسر اور خورشید علی نے اس پر بہت محنت کی اور ایک گونگے شخص کے کردار کو ایسی مہارت سے اور صوتی اثرات سے پیش کیا کہ گویا اسے زبان عطا کردی۔ اسی طرح ایک ڈرامہ ”ہمسفر“ ریل گاڑی میں کھیلا گیا۔ یہاں خورشید علی نے ریلوے پلیٹ فارم کا تاثر، ریل گاڑی کا پلیٹ فارم پر موجود ہونا، رخصت ہونے کا مخصوص اعلان، پلیٹ فارم پر سیٹی بجا کر نکلنا اور کھیتوں میں سرپٹ بھاگنے کے تاثرات کو اس خوبی سے پیش کیا کہ گویا آپ یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہوں۔ چلتی ریل گاڑی میں کرداروں کی گفتگو کو اس طرح پیش کیا گویا اسے فلمایا گیا ہو۔ خورشید علی کے فن کا شاہکار ہمارا ایک ڈرامہ ”ابر رحمت“ بھی تھا۔ جس کے مناظر میں مختلف مقامات پر بارش برسنے کے مختلف شور اور تاثر کے ساتھ پیش کیا جانا تھا۔ اس میں گاؤں، کھیتوں، جدید رہائشی آبادی،، سڑکوں اور جھگیوں پر برسنے والی بارش کے الگ الگ تاثر خورشید علی نے اس مہارت سے پیش کیے جس نے سامعین کو حیرت میں ڈال دیا۔ کشمیر کے زلزلے کے پس منظر میں لکھے گئے ڈرامے ”راحت“ اور جنگ ستمبر پر لکھا گیا کھیل ”شہادت“ کا تمام دارومدار اور کمال صوتی اثرات پر ہی تھا۔ اسے بھی انہوں نے حقیقی رنگ دیا۔
یہ چند ایک مثالیں ہیں۔ خورشید علی کے پیش وارانہ مہارت کے جوہر چالیس سال پر محیط ہیں۔ خورشید علی سے میرے گھریلو تعلقات تھے۔ پچیس سالوں میں ہمارا رابطہ مسلسل رہا۔ وہ ڈرامے کی روح کو سمجھتے تھے۔ اس کے مطابق صوتی اثرات اور پروڈکشن کا خیال رکھتے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس عرصہ میں میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا جو سکرپٹ لائٹنگ، کردار نگاری اور منظر نگاری میں میرے لیے بہت معاون و مدد گاررہا۔ یوم پاکستان کے موقع پر اپنے کھیل ”منزل پاکستان“ میں انہوں نے مرکزی کردار ادا کیا۔ اس دوران ان سے بہت دلچسپ اور طویل گفتگو رہی۔ وہ ڈرامے کی سکرپٹ میں میری رہنمائی بھی کرتے تھے اور کمزور مناظر کی نشاندہی بھی کرتے۔ خورشید علی نے اپنا آخری ڈرامہ اور آخری فیچر پروگرام عید کے موقع پر مزاحیہ خاکے اور ستمبر کے مہینے میں ایک دستاویزی پروگرم جو پاکستان کے ہنر مند بڑھئی حضرات کے بارے میں تھا، بہت محنت اور فنکاری سے کیا۔ اس کے بعد ان کی طبیعت ناساز رہنے لگی۔ وہ بہت عرصہ سے دل اور شوگر کے عارضہ میں مبتلا تھے لیکن انہوں نے ان دونوں تکلیف دہ امراض کو اپنے کام میں حائل نہ ہونے دیا۔ آخر کار 30 اکتوبر کی شام پیغام اجل کے سامنے لبیک کہا۔
خورشید علی ان ہنر مندوں میں شامل تھے جنہوں نے 45 سال ریڈیو پاکستان لاہور کی خدمت مختلف حیثیتوں میں کی۔ ریڈیو حکام نے انہیں اس اتنے طویل عرصہ میں بھی مستقل ملازمت نہ دی اور وہ ساری عمر عارضی کنٹریکٹ پر ہی کام کرتے رہے۔ اور یوں وہ تقریباً نصف صدی کام کرنے کے باوجود پنشن، گریجیوٹی اور جی پی فنڈ جیسی مراعات سے محروم رہے۔ وہ جس طرح خالی ہاتھ ریڈیو اسٹیشن پر آئے تھے، پنتالیس سال بعد بھی خالی ہاتھ اس ادارے اور پھر اس دنیا سے رخصت ہوگئے……
مردے نوں پوجے ایہہ دنیا
جیوندے دی عزت کج وی نئیں