جرائم کی شرح میں کمی حقیقت یا افسانہ
1997میں پنجاب پولیس کے انتہائی نیک نام اور معتبر سابق انسپکٹر جنرل (IGP) سردار محمد چوہدری مرحوم کی مشہور تصنیف دا الٹی میٹ کرائم) CRIME Ultimate (Theشائع ہوئی تھی جو آج بھی پولیس کا نظام سمجھنے کے لئے مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کتاب میں پنجاب پولیس کے درویش منش سربراہ نے ان عوامل پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے جو پولیس سے متعلق عام تاثر اور اس کو درپیش مشکلات پر براہِ راست اثر انداز ہوتے ہیں۔ گذشتہ برسوں کے دوران میں نے یہ کتاب کئی بار پڑھی ہے اور ہر مرتبہ نئے زاویوں سے اس پر غور کیا ہے۔ اگرچہ اس تصنیف میں بہت سی باتیں ایسی ہیں جن پر تفصیلاً گفتگو کی جا سکتی ہے، لیکن اس کا ایک جملہ ہمیشہ ہی میرے دماغ پر نقش رہا ہے اور وہ یہ کہ اگر پولیس کی کارکردگی بہتر بنانی ہے تو اسے اعتماد دینا ہو گا اور اس کا مورال بلند کرنا ہو گا۔جس قوم اور معاشرے میں محکمہ پولیس جتنا مضبوط اور مستحکم ہوگا جرائم اور بدعنوانیاں اس میں اتنی ہی کم ہوں گی،امن وامان اور حفظ و سلامتی اس میں اسی قدر زیادہ ہوگی،اِس حوالے سے اگر ہم اپنے ملک کی پولیس بالخصوص لاہور پولیس کا جائزہ لیں تو ہمیں اِس حقیقت کا اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ قیام پاکستان کے وقت سے لے کر آج تقریباً پون صدی گزرنے کے بعد تک بھی ہمارا محکمہ پولیس جوعوام الناس کے دل و دماغ میں اپنے متعلق کوئی مثبت اور لائق آفرین تشخص بٹھانے میں کامیاب نہیں ہو سکا تھا،بہتر کمانڈنگ اور اقدامات کے پیش نظر آج محکمہ پولیس عوام میں اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرنے کی طرف گامزن ہے۔ لاہور جو پنجاب پولیس کا چہرہ اور صوبہ بھر کی عکاسی پیش کرتا ہے یہاں امن و امان کی بگڑتی صورتحال ہمیشہ پولیس کی نااہلی تصورکی جاتی ہے اور بہتر اقدامات حکومت کی گڈ گورننس کا باعث بنتے ہیں۔ماضی میں لاہور میں ہلاکو خان جیسی فرسودہ سوچ رکھنے والے افسران بھی گذرے ہیں۔مگرماسوائے چند ایک ایسے آفیسرز ہیں جنہوں نے لاہور میں امن وامان کی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے اپنا بھر پور کردار ادا کیا ہے۔ان میں ڈی آئی جی آپریشنزفیصل کامران بھی شامل ہیں جو لاہور شہر کو امن کا گہوارہ بنانے کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔ڈی آئی جی فیصل کامران نے فورس کی سربلندی اور عوام کے جان ومال کے تحفظ کے لیے جو اقدامات کیے ہیں وہ قابل ستائش ہیں ان کی کارکردگی کا اگر جائذہ لیا جائے تو معلوم ہوتا کہ لاہور میں جرائم کی شرح 3سال کی کم ترین سطح پر آگئی مسلسل چوتھے ماہ جرائم کی شرح میں کمی کا ٹرینڈ جاری ہے۔ لاہور پولیس آپریشن ونگ نے 15 کال ڈیٹا کی تقابلی رپورٹ عام کر دی۔گزشتہ سال کے مقابلے رواں سال اکتوبر میں املاک کیخلاف جرائم میں 44 فیصد کمی،اکتوبر 2023 کے مقابلے میں گھناونے جرائم کی شرح میں 46 فی صد کمی سامنے آئی۔ اکتوبر 23 میں 5814،اکتوبر 24 میں 2663 گھناونے جرائم رپورٹ ہوئے۔ ڈی آئی جی آپریشنز کے مطابق چوری کی وارداتوں میں 77 فی صد تک کمی واقع ہوئی، اکتوبر 2024 میں گن پوائنٹ پر کار چھیننے کی ایک بھی واردات نہیں ہوئی۔اکتوبر 2024 میں کار چوری کی وارداتوں میں 52 فی صد کمی ہوئی،اکتوبر 2023 میں کار چوری کی 50،اکتوبر 24 میں 24 وارداتیں ہوئیں،گن پوائنٹ پر موٹر سائیکل چھیننے میں 62 فیصد کمی ہوئی،گزشتہ سال گن پوائنٹ پر 131،اکتوبر 2024 میں 50 موٹرسائیکل چھینے گئے،اکتوبر 2024 میں موٹر سائیکل چوری میں 43 فیصد کمی ہوئی،تمام اعداد و شمار 15 کال ڈیٹا رپورٹ سے لیے گئے ہیں۔ڈی آئی جی آپریشنز فیصل کامران کے مطابق کرائم کنٹرول کیلئے جدید ٹیکنالوجی استعمال کی جا رہی ہے، پولیس جرائم پیشہ عناصر کی سرکوبی کیلئے تمام وسائل بروئے کار لارہی ہے۔ڈی آئی جی آپریشنز کا کہنا ہے کہ روایتی اقدامات کے بجائے کوالٹی پولیسنگ کی طرف بڑھے ہیں، وسائل میں کمی کے باوجود تھوڑے عرصے میں کئی گنا بہتری آئی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ لاہور پولیس کے سربراہ بلال صدیق کمیانہ،ڈی آئی جی انوسٹی گیشن زیشان اصغر،ڈی آئی جی آرگنائزڈ کرائم عمران کشور اور ڈی آئی جی آپریشنز فیصل کامران کی مشترکہ کوششوں اور بہتر کوارڈی نیشن کی بدولت ہی آج لاہور میں امن وامان کی صورت حال میں بہتری آئی ہے اور سب سے بڑھ کر سیف سٹی کے ایم ڈی، ڈی آئی جی احسن یونس نے جب سے سیف سٹی کا چارج سنبھالا ہے لا ہور سمیت ان تمام شہروں میں جہاں جہاں سیف سٹی کے کیمرے کام کررہے ہیں جرائم کی شرح کو کنٹرول کرنے میں نمایاں بہتری آئی ہے،ڈی آئی جی احسن یونس پیشہ ورانہ خوبیوں کے حامل آفیسر ہیں وہ جہاں بھی گئے اپنے معیاری کام کی وجہ سے ہمیشہ انہیں یاد کیا جاتا ہے۔ڈی آئی جی احسن یونس سمیت لاہور پو لیس کے تمام پولیس افسران نے اس عذم کا اظہار کیا ہے کہ ہمیں وقت کیساتھ اب آگے بڑھنا ہے، ڈی آئی جی آپریشنز کے مطابق جرائم کی شرح میں کمی کا جائزہ ہم تھانوں میں مقدمات کے اندراج سے نہیں لیتے بلکہ ایمرجنسی کالز سیف سٹی پراجیکٹ والوں کے پاس جاتی ہیں اور وہیں سے ریکارڈ مرتب ہوتا ہے، پنجاب سیف سٹی رپورٹ نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ لاہور پولیس نے شہر کو محفوظ بنایا ہے۔پنجاب سیف سٹی اتھارٹی کے مطابق شہر میں نہ صرف ڈکیتی، راہزنی اور دیگر جرائم کی شرح میں کمی ہوئی ہے بلکہ نسلی تعصب کی وجہ سے ہونیوالے جرائم بھی کم ہوئے ہیں۔ اسی طرح دن کے اوقات میں اور رات کے وقت شہر میں ڈکیتی کی وارداتوں میں واضح کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ ڈی آئی جی آپریشنز کے مطابق مسلسل پٹرولنگ اور بہتر حکمت عملی سے لاہور پہلے کی نسبت زیادہ محفوظ ہو گیا ہے اور آنیوالے دنوں میں اس میں مزید بہتری لائیں گے۔ لاہور دنیا کا پندرہواں بڑا شہر ہے جو اپنے ثقافتی ورثے، باغات، کالجز، چٹ پٹے کھانوں اور تاریخی مقامات کے حوالے سے عالمی اہمیت کا حامل ہے، خوبصورتی سے مالا مال شہر لاہور میں جرائم کی شرح میں کمی تازہ ہوا کے جھونکے سے کم نہیں جس سے نہ صرف مقامی افراد کا اعتماد بحال ہوگا بلکہ عالمی سطح پر بھی ہم ایک مرتبہ پھر توجہ کا مرکز بنیں گے۔
.