لاہور پولیس کی موثر حکمت عملی کام کر گئی
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے میانوالی،بہاول پور، فیصل آباد اور اسلام آباد کے ڈی چوک، کے بعد ایک روز قبل لاہور کے مینار پاکستان پر احتجاجی مظاہرہ کی کال دی گئی۔ پنجاب کے ان تینوں اضلاع اور ڈی چوک اسلام آباد میں قانون نافذ کرنے والے اداروں اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں اور گرفتاریوں سے یہ تاثر پیدا ہو گیا تھا کہ پی ٹی آئی لاہور میں بھی ایک کامیاب احتجاج ریکارڈ کروانے میں کامیاب ہو جائے گی۔مگر ایسا نہیں ہو سکا اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ سب سے پہلی اور اہم وجہ تو یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف پنجاب سمیت لاہور کی قیادت شہر لاہور میں احتجاج کی کال دینے کے بعد روپوش ہو گئی۔بتایا گیا ہے کہ روپوش ہونے والی قیادت میں پی ٹی آئی پنجاب کے قائم مقام صدر حماد اظہر، پی ٹی آئی لاہور کے صدر شیخ امتیاز، میاں اسلم اقبال اور دیگر شامل ہیں، قیادت کے روپوش ہونے کی وجہ سے پی ٹی آئی کے کارکن کنفیوز رہے کہ وہ بغیر قیادت کے کس طرح احتجاج کیلئے مینار پاکستان پہنچیں گے اور احتجاج کی قیادت کون کرے گا۔دوسری بڑی وجہ پولیس افسران بالخصوص آئی جی پولیس اور لاہور پولیس کے افسران کو وزیر اعلی پنجاب مریم نواز کی جانب سے سختی سے یہ احکامت جاری کیے گئے تھے کہ احتجاج کسی صورت بھی کامیاب نہیں ہونا چاہیے۔کیونکہ اسی طرح کے احکامات 21 ستمبر کو لاہور میں پی ٹی آئی کے ہونے والے جلسے کے حوالے سے بھی وزیر اعلی پنجاب مریم نواز نے آئی جی اور لاہور پولیس کے افسران کو جاری کیے تھے۔جلسے میں کثیر تعداد میں عوام کی شرکت اور وزیر اعلی کے پی کے علی امین گنڈا پورکے لاہور میں داخل ہونے پر وزیر اعلی پنجاب نے پولیس افسران کی سرزنش کی تھی لاہور پولیس کے افسران بالخصوص ڈی آئی جی آپریشنز فیصل کامران کو اس احتجاج کو ناکام بنانے کا ٹارگٹ سونپا گیا جنہوں نے وزیر اعلی پنجاب کی سوچ سے بھی ذیادہ اچھے اقدامات کرکے نہ صرف لاہور پولیس کی لاج رکھ لی بلکہ وزیر اعلی پنجاب مریم نواز کے ساتھ پنجاب پولیس کے کمانڈر ڈاکٹر عثمان انور اور لاہور پولیس کے سربراہ بلال صدیق کمیانہ کو بھی سرخرو کردیا۔یہ سب کچھ کیسے ہوا اس کی تفصیل میں جانے سے پہلے یہ بھی عرض کردوں کہ اس دفعہ ڈی آئی جی عمران کشور کو لاہور کی قیادت کو گرفتار کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی اور کہا گیا کہ سانحہ 9مئی کا اشتہاری مجرم لاہور جلسے میں سٹیج پرخطاب کرتا رہا نہ اسے آتے ہوئے اور نہ ہی جاتے ہوئے اور نہ ہی سٹیج سے گرفتار کیا گیا وہ چھلاوا بن کر آیا اور غائب ہو گیا بعداذاں وہ فیصل آباد میں بھی نمودار ہو ا اور اسے کسی کو گرفتار کرنے کی جرات نہ ہوئی وزیر اعلی پنجاب مریم نواز کا کہنا تھا کہ اگر اس دفعہ لاہور میں کہیں احتجاج کرتے ہوئے اس کی تصویر نظر آگئی تو پھر لاہور پولیس کی خیر نہیں ہو گی جس کے لیے ڈی آئی جی عمران کشور نے حماد اظہر کو گرفتار کرنے سمیت دیگر قیادت کی گرفتاری کے لیے شہر کے مختلف علاقوں میں فیلڈنگ لگا رکھی تھی۔ڈی آئی جی عمران کشور اس فیلڈنگ کی نگرانی کے ساتھ خود بھی بھیس بدل کر آزادی چوک حماد اظہر کی گرفتاری کے متظر رہے۔تاثر یہ پیدا کیا گیا ہے کہ شہر کے داخلی اور خارجہ راستوں کی بندش، دفعہ 144 کا نفاذ اور بھاری نفری کی تعیناتی سے پی ٹی آئی کا احتجاج ناکام ہوا ہے جس کے تحت جلسے جلسوں وغیرہ پر پابندی لگادی گئی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ عوام کے دلوں میں مقدمات کا خوف بھی ہوگا لیکن ایسے مقدمات جو سیاسی بنیادوں پر قائم کیے جاتے ہیں عوام کو معلوم ہے کہ ان کی کوئی حیثت نہیں ہوتی اور ہم نے دیکھا کہ گزشتہ روز کینٹ کچہری کے ایک جوڈیشل مجسٹریٹ نے گرفتار ہونے والے 70 کارکنوں کو مقدمات سے ڈسچارج کرتے ہوئے رہا کر دیا ہے اور دیگر تمام کارکنان کو فوری رہا کرنے کا حکم بھی دے دیا۔شہر میں ٹریفک کے رواں دواں ہونے اور پی ٹی آئی کا بڑا ووٹ بنک ہونے کے باوجود ان کی ناکامی کی اصل وجہ لاہور پولیس نے 7روز قبل ہی اس کی منصوبہ بندی کرلی تھی۔شہر کے کھلے ہوٹلوں پر پولیس کی چیکنگ، شہر سے باہر سے تعلق رکھنے والوں کی گرفتاریاں،سرگرم کارکنوں کے گھروں پر چھاپے، ان کیی گرفتاریاں اور قیادت کو روپوش ہونے پر مجبور کردینا یہ وہ پلاننگ تھی جو لاہور پولیس کے ڈی آئی جی آپریشنز فیصل کامران انکی ٹیم،ڈی آئی جی عمران کشور اور ان کی ٹیم نے کی جس کی بدولت وہ کامیاب رہی اور یہاں وہ احتجاج نظر نہ آسکاجو پنجاب کے دیگر شہروں میں ہوا ہے۔لاہور پولیس نے احتجاج کے تناظر میں مختلف تھانوں میں عمران خان اور مرکزی قیادت سمیت درجنوں کارکنوں کے خلاف سنگین دفعات کے تحت 22 مقدمات بھی درج کیے ہیں۔ تاہم توجہ طلب بات یہ ہے کہ شہری سڑکوں سے زیادہ‘ انٹرنیٹ اور موبائل سروس کی بندش سے پریشان رہے موجودہ صورتحال کے حوالے سے غور کریں۔ بستم‘ بستم‘ بستم‘ دل بند‘ جگر بند‘ نظر بند‘ زبان بند۔ یہ مخالفین کی بندش کیلئے کامیاب عمل سمجھا جاتا ہے۔ اسی کو دیکھ کر شاید حکمرانوں نے یہ شہروں کو بند کرنے کا کام شروع کیا ہے۔ ہمارے ہاں سیاسی احتجاج اور دھرنے پر یہی عمل کچھ یوں کیا جاتا ہے۔ سڑک بند‘ گلی بند‘ چوک بند شہر بند۔ جابجا رکاوٹیں کھڑی کرکے اچھے بھلے شہر کو گھوسٹ سٹی بنا دیا جاتا ہے۔ یہ آج کی بات نہیں‘ ہر حکومت کے دور میں اپوزیشن کے حوالے سے یہی پالیسی اختیار کی جاتی ہے جس کا سارا نزلہ عوام پر گرتا ہے۔ وہ بے چارے خوار ہوتے ہیں۔ مظاہرین تو نکلے ہی اس لئے ہوتے ہیں کہ خود بھی خوار ہوں گے اور دوسروں کو بھی خوار کریں گے۔ نتیجہ چاہے کچھ بھی نکلے۔ یہ نہ کھیلیں گے نہ کھیلنے دیں گے والی پریکٹس عرصہ دراز سے ہماری سیاست میں داخل ہے۔ لوگوں کو اب اس تماشے کی عادت ہو گئی ہے۔ مگر سب سے زیادہ جو چیز اب ان پر گراں گزر رہی ہے‘ وہ ہے موبائل سروس اور انٹرنیٹ کی بندش۔ یہ لوگوں کیلئے سخت گراں مرحلہ ہوتا ہے۔ موبائل اور انٹرنیٹ کے عادی تو چند لمحے انکے بغیر گزار نہیں سکتے۔ ان پر غشی طاری ہونے لگتی ہے۔ لگتا ہے جان کنی کے عذاب میں مبتلا ہیں۔ اب یہ ایک موثر حربہ بھی ہے جو حکومت استعمال کرتی ہے تاکہ مظاہرین کا کسی اور سے رابطہ ہی ممکن نہ رہے۔ مگر عام آدمی اس پابندی کی زد میں زیادہ آتے ہیں۔ جن کے لئے یہ باقی بندشوں کی نسبت زیادہ تکلیف کا باعث بن جاتی ہے۔