عقل اور عشق
عقل عربی زبان میں روک لینے کو کہتے ہیں عرب عقال اْس رسی کو کہا کرتے جس سے اْونٹ کی ٹانگ کے نچلے حصے کو موڑ کر اسکی پنڈلی کے ساتھ باندھ دیا جاتا، عقل ایک ایسا غیرمرئی جوہر ہے جس کے ذریعے انسان طبع اور مابعدالطبع (Physics and Metaphysics) کا تجزیہ کرتا ہے اور طبیعات و نظریات کو باہم منقسم کرکے اس کے بنیادی سٹرکچر کے بارے آگہی حاصل کرتا ہے بس یہی عقل کا کام اور یہی عقل کی حد ہے جیسا کہ معروف تھیوریٹکل فزیسٹ البرٹ آئن سٹائن لکھتے ہیں کہ " ہم نے تلخ تجربات کے بعد یہ سیکھا ہے کہ معاشرتی زندگی کی گتھیاں تنہا عقل کی رو سے نہیں سلجھ سکتیں اس لئے ہمیں تنہا عقل کو اپنا خدا نہیں بنانا چاہئے، کیونکہ اس خدا کے عضلات (Muscles) تو بہت مضبوط ہیں، لیکن اس کی ذات (Personality) نہیں ہے عقل اسباب و ذرائع پر تو خوب نگاہ رکھتی ہے مگر مقاصد و اقدار کی طرف سے اندھی ہو جاتی ہے" یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ عقل نہ تو حل پیش کرتی ہے نہ ہی کسی چیز یا انسان کی مقصدیت و افادیت تک پہنچاتی ہے ہمارے صوفی بزرگ بھی ہر زمانے میں عقل کی بے ثباتی اور تہی دامنی پر عام و خاص کو متنبہ کرتے رہے کہ کبھی عقل کے دجل میں نہ آ جانا کیونکہ عقل صرف توڑنا جانتی ہے جوڑنا عقل کے بس کی بات نہیں سیدی رومی فرماتے ہیں :
عقل آمد دین و دنیا شد خراب
عشق آمد در دو عالم کامیاب
اس سب کے برعکس اس حقیقت میں بھی کوئی شبہ نہیں ہے کہ جب عقل کسی شے یا سوچ کو توڑ کر ٹکڑوں میں بانٹ دیتی ہے تو اس کے نتیجے میں ہم اس شے یا سوچ کو سمجھنے کے قابل ہو جاتے ہیں عقل کا یہ بنیادی کام یقیناًقابلِ ستائش ہے مگر عقل صرف ایک راستہ ہے منزل نہیں، نیکی کو برائی سے دور رکھنے میں عقل کا کردار شاندار ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن میں متعدد مقامات پر عقل کی تحسین کی گئی ہے اور انسان کو عقل سے کام لینے کو کہا گیا ہے، مگر یہاں ایک دقیق نکتہ یاد رکھنے کے قابل ہے کہ عقل فی نفسہ ایک آلہ ہے، جس کے ذریعے انسان اشیاء اور نظریات کو سنوارتا ہے ان کو باہم ممیز کرتا ہے اور حسن و قبح (Beauty and Hideous) کی تعیین کرتا ہے، مگر ساتھ ہی اس نکتہ کا بھی لحاظ رہے کہ عقل اس تمام مرحلے میں کسی فیصلہ کن نتیجے تک نہیں پہنچ سکتی، کیونکہ یہ عقل کے دائرہِ کار سے باہر کی چیز ہے انسان شعور سنبھالتے ہی ذہانت کا تعاقب کر رہا ہے، مگر آج تک حتمی شعور کو عبور نہ کر سکا، بلکہ خدا کی اسکیم ہی یہی ہے کہ انسان بتدریج اپنے شعور میں جدت و سہولت پیدا کرتا جائے یہی وجہ ہے کہ انسان جب فیصلہ کرتا ہے تو اْسے ذہانت کی بجائے تیقن (Conviction) کی طرف کوچ کرنا پڑتی ہے یہ تیقن ہی دراصل عشق کا بنیادی خمیر ہے یہاں پر یہ نکتہ انتہائی محیر العقول و مرجعِ لطائف ہے کہ عقل اپنی ذات میں تدریج و ارتقاء سے بالاتر ہے یقیناً یہ اَمر خود عقل کو بھی مبہوت کرکے رکھ دیتا ہے کہ آخر عقل ارتقاء سے ماوراء کیوں ہے، جبکہ عقل کی تجرباتی صورت (Practical Formation) یعنی شعور بظاہر تو بڑھتا چلا جاتا ہے، حالانکہ شعور نہ بڑھتا ہے نہ ہی گھٹتا ہے، شعور کی بنیاد میں کھڑا تیقن ہی دراصل ایک زبردست متحرک حالت میں جاری رہتا ہے۔
تیقن انسان کے اندر دراصل ایک باطنی تحریک پیدا کرتا ہے وہ باطنی تحریک انسانی عقل کو روشن و واضح کرتی چلی جاتی ہے پھر انسان گمان کرنے لگتا ہے کہ اس کی عقل ارتقاء کے عمل سے گزر رہی ہے حالانکہ ارتقاء تو تیقن میں جاری رہتا ہے، جس کی انتہائی صورت عشق ہے عشق کے لغوی معنی تو پھٹ جانے کے ہیں، مگر متصوفانہ اصطلاح میں عشق کی تعریف دراصل تیقن کے انتہائی مقام کی صورت میں کی جاتی ہے عشق کے مفہوم کو واضح کرنے کیلئے تصوف کا علاقہ اس لئے مستعار لیا گیا کہ عشق کی وضاحت پر سب سے زیادہ علمی کام اب تک صوفیاء ہی کر سکے ہیں۔
ایک صوفی عشق کو کچھ یوں بیان کرتے ہیں کہ " عشق اْس آگ کا نام ہے جو عاشقوں کے دل اور سینے میں جلتی رہتی ہے اور خدا کے سوا جو کچھ ہے اْسے جلا کر خاکستر کر دیتی ہے" بالکل یہی کیفیت ایک انسان کی دوسرے انسان کے لئے بھی بیدار ہو سکتی ہے، جسے صوفیانہ اصطلاح میں عشقِ مجازی کہا جاتا ہے، اگر عمومی قرائن پر نظر رکھی جائے تو معلوم پڑتا ہے کہ کسی بھی انسانی معاشرے کے عاشق اور شاعر غیرمعمولی ذہانت کے حامل ہوتے ہیں، جبکہ ان کے برعکس وہ لوگ جو صرف عقل کی ٹوہ میں لگے رہتے ہیں حقیقی دانش سے محروم ہی رہتے ہیں عقل اور عشق کا باہم موازنہ کرکے اگر ہم پوری دنیا کے علمی ذخیرے پر نظر دوڑائیں تو ہمیں صوفیاء کی کتب میں عشق کے مدارج تو مل جائیں گے، مگر عقل کے مدارج کہیں بھی نظر نہیں آئیں گے، جس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ شعور ہی تیقن کی پیروی کرتا ہے باالفاطِ دیگر عقل ہی عشق کی پیروی کرتی ہے عموماً یہ قدیم جملہ سننے کو مل جاتا ہے کہ عقل جذبات کی غلام ہے جبکہ جذبہ اور کچھ بھی نہیں دراصل تیقن کی شدید ترین صورت ہے صوفیاء نہ صرف عقل کی مخالفت کرتے ہیں، بلکہ اسے انسانیت کیلئے سمِ قاتل بھی بتاتے ہیں۔
جیسا کہ ہم نے اوپر سیدی رومی کا ایک بیت عرض کیا جبکہ فلاسفہ عقل کی حاکمیت پر مصر ہیں کہ دراصل عقل ہی تمام تر احوال کی حرکتِ اوّل ہے اس قضیہ کو حل کرنے کے لئے صرف ایک ہی نکتہ پر غور کرنے کی ضرورت ہے اور وہ نکتہ یہ ہے کہ آپ جہاں سے بھی شروع کریں کسی نہ کسی بنیاد سے ہی آغاز کریں گے تو پس وہ بنیاد تیقن ہے عشق ہے، اس میں کسی بھی شبہ کی گنجائش موجود نہیں کہ آغاز سے آگے عقل اپنے بہترین جوہر کا اظہار کرتی ہے مگر حاصلِ بحث یہ ہے کہ وہ بنیاد جس پر عقل براجمان ہو کر اتقاء کا دعویٰ لئے بیٹھی ہے دراصل عشق ہے بالکل اسی انتہائی دقیق نکتہ کے ادراک سے عاری قرآن کے معترضین اس لایعنی قیاس مع الفارق (Paradox) کو اْٹھا لیتے ہیں کہ لاریب فیہ کی شرط کے ساتھ افلا تعقلون کیا معنی رکھتا ہے، چنانچہ اْنہیں یہ نکتہ سمجھنے کی حاجت ہے کہ عقل اگر آوارگی پر مقیم ہے تو وہ تشکیک و تجزیہ پیدا کرے گی، جس کے بعد فیصلے کی قوت انسان سے فرار حاصل کر لیتی ہے پس ضروری ہے کہ لاریب فیہ کی روشنی سے پہلے تیقن پیدا کر لیا جائے جب تیقن پیدا ہو جائے گا تو پھر تعقل کبھی ٹھوکر نہیں کھائے گا۔