دولت کی دوڑ اور اللہ کا حکم
قرآن مجیدکی سورہ تکاثرکی پہلی آیت کا مفہوم ہے کہ تم کو زیادہ کی حرص نے غفلت میں رکھا یہاں تک کہ تم نے قبریں جادیکھیں۔ اسی حقیقت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طر ح بیان کیا ہے کہ ابن آدم کے پاس مال و دولت سے بھری دو وادیاں ہوں تب بھی وہ تیسری کی خواہش کرے گا۔ ابن آدم کا پیٹ قبر کی مٹی کے سوا کوئی چیز نہیں بھرتی، (بخاری، رقم 6436)۔
ہم میں سے ہر شخص دوسروں کو اپنے سامنے مرتا ہوا اور دفن ہوتا ہوا دیکھتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ کفن میں جیب نہیں ہوتی اور قبر میں مٹی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ مگر اس کے باوجود ہماری غفلت ختم نہیں ہوتی۔ ہماری حرص و ہوس ختم نہیں ہوتی۔ ہم مال کو رشوت، حرام، دھوکے اور جھوٹ سے کماتے ہیں۔ ہم مال کو سینت سینت کررکھتے ہیں۔ ہم مال کو دوسروں پر خرچ نہیں کرتے۔ ہم مال کو اسراف اور نمود ونمائش پر اڑاتے ہیں۔ ہم مال کی محبت میں متوالے ہوئے جاتے ہیں۔
مگر قرآن یہ کہتا ہے کہ سوف تعلمون تم عنقریب جان لوگے کہ جس مال کے پیچھے تم نے آخرت کو گنوایا، جس مال کے پیچھے خدا کے غضب کو بھڑکایا، جس مال کے پیچھے اللہ کے احکام کو نظر انداز کیا، جس مال کے پیچھے مظلوموں کی بددعائیں لیں، جس مال کے پیچھے حقداروں کے حقوق دبائے؛ وہ مال برباد ہوگیا۔ آخرت کی حقیقی دنیا میں اس کی اہمیت کچھ نہیں۔
یہ وقت بہت سے لوگوں پر آچکا ہے۔ بہت جلد ہم پر بھی آنے والاہے۔ مگر ہم کلام خدا کی پکار سننے کے لیے تیار نہیں۔ ہم رسول خداﷺکی پکار سننے کے لیے تیار نہیں۔ ہم خود کو حلال تک محدود کرنے کو تیار نہیں۔ ہم حقداروں پر مال خرچ کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ہم نمود و نمائش، اسراف اور بخل چھوڑنے پر تیار نہیں۔ مگر عنقریب موت ہمیں بھی بتادے گی کہ مال کچھ نہیں تھا۔ دنیا کچھ نہیں تھی۔ اصل فلاح اور اصل کامیابی آخرت کی کامیابی تھی، مگر اْس وقت بہت دیر ہوچکی ہوگی۔
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔