بنگلہ دیشی انقلاب اور تاریخ کا سبق
تاریخ ہمارے لیے اپنے دامن میں بہت سے سبق سمیٹے ہوئے ہوتی ہے۔ اب یہ انسان پر ہے کہ وہ تاریخ کی حقیقتوں سے سبق سیکھتا ہے یا ان حقیقتوں کو نظر انداز کر دیتا ہے۔ بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ ہر گزرنے والا دن، اور دن کا ہر لمحہ، ہر پل ایک نئی تاریخ رقم اور نئے سبق تیار کر رہا ہوتا ہے۔ دن آتے اور جاتے ہیں لیکن تاریخ اپنی جگہ قائم رہتی ہے۔ عام رویہ اور طرز عمل یہی ہے کہ تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھتا اور جو سبق نہیں سیکھتا پھر تاریخ اسے سبق سکھاتی ہے۔
تاریخ کا تازہ ترین سبق بنگلہ دیش میں پیدا ہونے والی صورت حال ہے۔ پانچ اگست کی صبح شیخ حسینہ واجد بنگلہ دیش کی وزیر اعظم تھیں، لیکن اسی روز شام تک وہ مستعفی ہو کر ملک سے نکل جانے پر مجبور ہوگئیں۔ ان کی اگلی منزل کیا ہے اس بارے میں وثوق کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا، لیکن یہ چیز سب کو نظر آ رہی ہے کہ ان کے جانے کے بعد بنگلہ دیش کے عوام بہت خوش ہیں، اور شیخ حسینہ کے مستعفی ہونے اور محمد یونس کی سربراہی میں عبوری حکومت قائم ہونے کو آزادی قرار دے رہے ہیں۔
آپ نے سوچا کہ بنگلہ دیش پر 20 سال تک حکومت کرنے والی شیخ حسینہ واجد سے آخر ایسا کیا ہو گیا کہ انہیں مستعفی ہو کر جلا وطن ہونا پڑا؟ اور اس حقیقت کے باوجود کہ انہوں نے اپنے ادوار حکومت میں بنگلہ دیش کو معاشی لحاظ سے ایک مستحکم طاقت بنا دیا تھا۔ اس سوال کا جواب ہے: ایک جمہوری ملک میں، ایک جمہوری حکومت کو آمرانہ طریقے سے چلانے کی کوشش۔ پورے بنگلہ دیش میں ہونے والے احتجاج سے انہوں نے جس طرح نمٹنے کی کوشش کی وہی ان کے زوال کا باعث بن گیا۔ احتجاج ہو رہے تھے بنگلہ دیش میں جاری کوٹہ سسٹم کے خلاف، لیکن ان کو پولیس اور فوج کے ذریعے طاقت کے ساتھ جتنا دبانے کی کوشش کی گئی یہ اتنا ہی بھڑکتے اور ابھرتے چلے گئے۔ بنگلہ دیش کا کوٹہ سسٹم کیا ہے؟ اس بارے میں آپ اب تک بہت کچھ جان چکے ہوں گے۔ تھوڑا سا میں بھی بیان کر دیتا ہوں۔
1971ء میں سقوط ڈھاکہ کے بعد بنگلہ دیش بن گیا تو جنگ کے دوران لڑنے والوں کو بنگلہ دیش کا ہیرو قرار دیا گیا اور ان کے لیے خصوصی مراعات کا اعلان کیا گیا۔ ان جنگی ہیروز کے خاندانوں کو سرکاری نوکریوں بالخصوص سول سروسز میں مخصوص کوٹہ سے نوازا جاتا رہا اور یہ سلسلہ کئی دہائیوں تک جاری رہا۔اگر سلسلہ بنگلہ جنگی ہیروز تک محدود رہتا تو شاید بنگلہ دیشی عوام اسے برداشت کر لیتے لیکن مراعات کا سلسلہ لا محدود تھا۔ ان ’ہیروز، کو خصوصی کوٹے کے تحت اعلیٰ نوکریاں ملیں، پھر ان کے بچوں کو ملیں اور پھر ان کے بچوں کے بچوں کو مل رہی تھیں کہ 2018ء میں طلبہ کے پُر زور احتجاج پر اس کوٹے کو ختم کر دیا گیا، لیکن تب صرف فرسٹ اور سیکنڈ کلاس ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کو منسوخ کیا گیا یعنی کوٹہ سسٹم مکمل طور پر منسوخ نہیں ہوا تھا۔ اس حکومتی فیصلے کے خلاف 2018ء ہی میں عدالت میں ایک درخواست دائر کر دی گئی تھی، عدالت نے امسال5 جون کو اس پرانی درخواست کا فیصلہ سناتے ہوئے مخصوص کوٹہ بحال کر دیا تھا، اس فیصلے کے اگلے ہی دن یعنی 6 جون کو طلبہ نے ڈھاکہ یونیورسٹی میں احتجاجی ریلی نکالی۔ احتجاج کرنے والوں کا کہنا تھا کہ کوٹہ نظام حق تلفی اور میرٹ کے خلاف ہے، تمام لوگوں کو ان کی محنت کے مطابق سرکاری نوکریاں ملنا چاہئیں۔ اس لیے کوٹہ سسٹم مکمل طور پر ختم کیا جائے۔ یہ احتجاج آہستہ آہستہ زور پکڑتا چلا گیا۔ 15 جولائی تک طلبہ کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ حکومت آئینی اصلاح کرتے ہوئے اس قانون کو مکمل طور پر منسوخ کرے، لیکن پھر شیخ حسینہ واجد سے ایک ایسی غلطی ہوئی جس نے سب کچھ ملیا میٹ کر کے رکھ دیا۔ سابق بنگلہ دیشی وزیر اعظم نے احتجاج کرنے والوں کو رضا کار قرار دے دیا۔ یاد رہے کہ بنگلہ دیش میں رضا کار ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جنہوں نے 1971ء کی جنگ میں پاکستانی افواج کا ساتھ دیا تھا۔ بنگلہ دیش میں ان لوگوں کے خلاف نفرت پائی جاتی ہے اور ایسا کہلانا اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ شیخ حسینہ واجد کی جانب سے اس ایک لفظ کی ادائیگی کے بعد احتجاج کا رخ کوٹہ سسٹم کے مکمل خاتمے سے ہٹ کر حسینہ واجد کے مستعفی ہونے کے مطالبے پر مرتکز ہو گیا۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔
بات پھر وہیں پہ آ جاتی ہے کہ جمہوری ملک میں جمہور کی بات ہونی چاہیے۔ جمہور کے مسائل کے حل کے بارے میں سوچا جانا چاہیے۔ جمہور کی ترقی کی منصوبہ بندی ہونی چاہیے، لیکن جب عوام کی منتخب کردہ کوئی حکومت عوام کے ہی حقوق کا خیال رکھنا ترک کر دے اور حکمران عوام کے مسائل اور ان کے مصائب کے بارے میں سوچنا بند کر دیں تو پھر اس کا نتیجہ ایک انقلاب کی صورت میں ہی نکل سکتا ہے، جیسا ان دنوں بنگلہ دیش میں ہمیں دیکھنے اور سننے کو مل رہا ہے۔
دوسرا یہ کہ اپنے ملک کی خود مختاری، آزادی، ساکھ اور سالمیت کو برقرار رکھنا کسی بھی حکومت اور حکمران کی اولین ذمہ داری ہوتی ہے، لیکن شیخ حسینہ واجد کی حکومت میں یہ ذمہ داری پوری طرح نہیں نبھائی گئی۔ انہوں نے بنگلہ دیش کو ایک لحاظ سے بھارت کی کالونی بنا دیا تھا۔ مودی حسینہ گٹھ جوڑ کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب حسینہ واجد کو اپنے ملک سے فرار ہونا پڑا، انہوں نے نیپال بھوٹان، پاکستان یا کسی دوسرے مسلم ملک میں پناہ لینے کی بجائے بھارت جانا زیادہ مناسب خیال کیا، اور ایک خبر یہ ہے کہ وہ اب تک نریندر مودی سے دو ملاقاتیں کر چکی ہیں۔ ان ملاقاتوں میں کیا باتیں ہوئیں، اس بارے میں تو ابھی کچھ پتا نہیں لیکن ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ اگر شیخ حسینہ واجد کو کہیں اور جانے کی اجازت نہ ملی تو وہ بھارت میں ہی رہنے کا پکا ارادہ کر لیں، لیکن کیا نریندر مودی یہ بوجھ برداشت کر سکیں گے؟
بنگلہ دیش کے حوالے سے تاریخ کا سبق یہ ہے کہ عوام پر اتنا ہی بوجھ ڈالنا چاہیے اور عوام کے احتجاج اور مطالبات کو روکنے کے لیے طاقت کا اتنا ہی استعمال کرنا چاہیے جتنا وہ برداشت کر سکیں۔ جو بھی اس حوالے سے توازن برقرار نہیں رکھے گا تو تاریخ اسے دوسروں کے لیے نیا سبق بنا دے گی۔