اکیسویں قسط، شہنشاہ بالی ووڈ دلیپ کمار کی کہانی
ترجمہ : راحیلہ خالد
آغا جی نے وکیلوں،ڈاکٹروں اور پروفیسروں کو دوست بنایا ہوا تھا جو ان کی پھلوں کی دکان پر آتے تھے اور جب وہ ہمارے گھر آتے تھے تو وہ بہت فخر محسوس کرتے اور جب وہ مجھ سے ہمکلام ہوتے تو میں ان ہی کے تلفظ میں آزادانہ طور پر ان سے بات کرتا تھا۔
آغا جی مجھے بہترین پھل دے کر ان کے گھر بھیجتے تھے اور ان کی بیویاں انہی برتنوں میں گھر کی بنی ہوئی مٹھائیاں،بریانی یا دوسری گھر کی بنی ہوئی چیزیں ڈال کے دے دیتی تھیں۔ ان لوگوں اور آغا جی کے تمام جاننے والوں،جو یقیناً آغا جی کو ایک فروٹ بیچنے والے سے زیادہ سمجھتے تھے،کے برتاؤ میں آغا جی کے لئے جو عزت و احترام تھا وہ محسوس کرنے میں مجھے کوئی دقت نہیں ہوتی تھی۔
حالانکہ آغا جی نے کبھی رسمی تعلیم حاصل نہیں کی تھی،کیونکہ ان کے لڑکپن اور جوانی کے زمانے میں پشاور میں تعلیم کا حصول عام نہیں ہوتا تھا،پھر بھی وہ مقامی حکمت و دانائی اور ثقافت سے آشنا انسان تھے۔ توازن،وقار،پُر خلوص انداز و رویے اور فکر و خیال کی دانائی میں آغا جی ان سب لوگوں کے برابر تھے۔ حالانکہ آغاجی بمبئی کے رہائشی نہیں تھے اور ایک لحاظ سے اجنبی تھے،وہ ایک ایسے معاشرتی ماحول سے تعلق رکھنے والے انسان تھے جو شہری زندگی کی نفاست اور دوسری شہری چیزوں سے بہت کم میل کھاتا تھا،پھر بھی آغا جی،زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے اپنے دوستوں کی صحبت میں ہمیشہ پُر یقین اور پُر اعتماد رہتے تھے۔
شہنشاہ بالی ووڈ دلیپ کمار کی کہانی۔۔۔بیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
وہ اپنی دلکش و پُر کشش شخصیت کی وجہ سے اپنے دوستوں کے درمیان منفرد و نمایاں دکھائی دیتے تھے۔ آغا جی کی جسمانی وضع قطع اور تنے ہوئے اونچے سر کے ساتھ چال ڈھال ہی تھی جو دوسروں کو ان کا احترام و لحاظ کرنے پہ مائل کرتی تھی۔ آغا جی پٹھانوں والی مضبوطی و طاقت اور دلکشی سے بھرپور تھے اور جب ہم دوپہر کے وقت،کرافورڈ مارکیٹ کے قریب مسجد میں اپنی نمازِ جمعہ کی ادائیگی کیلئے اکٹھے ہوتے تو وہ مقامی مسلمانوں میں اسی مضبوطی و دلکشی کی وجہ سے نمایاں نظر آتے تھے۔ جس میں ہم رہتے تھے وہ چار منزلوں پر مشتمل تھی،ہم وہاں سے قریبی دو منزلہ عمارتوں کی چھتوں کا نظارہ کر سکتے تھے اور اسی طرح جمعہ مسجد بھی ہمیں نظر آتی تھی جو ہماری رہائشی عمارت کے قریب تھی۔
جس علاقے میں ہم رہتے تھے وہ بنیادی طور پر مسلمانوں کا علاقہ تھا لیکن آغا جی کے ہندو اور عیسائی دوست تھے جن کے دفاتر اور دکانیں قریبی جگہوں پہ تھیں جیسا کہ بھینڈی بازار،محمد علی روڈ،مسجد بندر اور پائیدھونی مارکیٹ۔ آغا جی کا ایک اچھا پارسی دوست تھا جس کی دکان کرافورڈ مارکیٹ کے گردونواح میں تھی،وہاں سے ہم اپنے گھر اور پشاور میں اپنے رشتہ دوروں کے لئے کھانے پینے کی اشیاء خریدتے تھے۔ وہ ایک ملنسار اور خوش مزاج انسان تھا جو آغا جی کی صحبت پسند کرتا تھا اور جن دنوں مارکیٹ بند ہوتی تھی وہ اکثر ہمارے گھر آتا تھا۔
آغا جی کا ایک اور دوست بھی تھا جس کی پتنگوں کی دُکان تھی جہاں تمام سائزوں اور رنگوں کی پتنگیں فروخت کی جاتی تھیں۔ وہ علاقے کے لڑکوں کو بھاؤ تاؤ کرنے اور پتنگیں کوڑیوں کے داموں خریدنے کی آزادی دیتا تھا۔ اس کی اور دکانیں تھیں اور دوسرے کاروبار بھی تھے اور وہ ایک اچھا خاصا کھاتا پیتا خوشحال آدمی تھا۔
جنوری کے مہینے میں اس کی دکان میں نئی پتنگیں آتی تھیں اور ہم پتنگ بازوں کے گروپ تشکیل دینے میں وقت ضائع نہیں کرتے تھے۔
شام میں چھتیں جوشیلے و پُر جوش پتنگ بازوں سے بھری ہوئی ہوتی تھیں اور میں ہمیشہ پتنگوں کی ان فضائی جنگوں میں شرکت کر کے بہت لطف اندوز ہوتا تھا۔ جب میں اپنے مخالف کی پتنگ کو ماضی کا حصہ بنا دیتا اور پتنگ بازی میں مہارت دکھانے کے سخت امتحان سے گزر کر اپنے مخالف پتنگ باز کی پتنگ کو کاٹ کر زمین بوس کرنے میں کامیاب ہو جاتا تو مجھے کامیابی کا ایک سنسناتا ہوا احساس گھیر لیتا تھا۔ ہر بار میری فتح پر میری تعریف کی جاتی تو میں حد درجہ خوشی و مسرت سے پھولے نہ سماتا۔
میری پتنگوں اور پتنگ بازی کے ساتھ محبت ایک مصروف اداکار بننے کے بعد بھی جاری رہی اور تب بھی جب ہمارا خاندان جنوبی بمبئی کے علاقے باندرہ کے ایک مکان میں منتقل ہو گیا تھا۔ ہمارے گھر کے تہہ خانے میں رکھے صندوقوں میں سے ایک صندوق میں خوبصورت پتنگیں رکھی ہوئی ہیں جو میں نے گجرات،راجستھان،تامل ناڈو اور آندھراپرادیش کے چھوٹے شہروں سے خریدی تھیں۔
جاری ہے۔ بائیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں