ہمارے اسلامی تہوار

ہمارے اسلامی تہوار
ہمارے اسلامی تہوار

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

شب ِ برأت آئی اور خاموشی سے گزر گئی، کچھ مسجدوں کے درو دیوار بطور خاص قمقموں سے آراستہ نظر آئے، دور سے آتی لاؤڈ سپیکروں پر واعظوں کی آوازیں سنائی دیں اور بس…… تب ہمیں گزری ہوئی شب ِ برأتیں شدت سے یاد آئیں، نوجوان تھے،لیکن اس کے باوجود گھر والے ہمسائے سب چھوٹے بڑے شب ِ برأت کی نیکیاں سمیٹنے کی کوشش کرتے تھے اور تمام لوگ اپنی اپنی بساط کے مطابق اشیاء تقسیم کرتے تھے،مسجدوں میں یا مخصوص جگہوں پر عشاء کی نماز سے لے کر اذانِ فجر تک محفلیں جاری رہتیں،حالات بدلتے گئے۔

یہ اس سے پہلے کی بات ہے،جب پاکستان میں پولیس نے پھلجھڑیاں اور پٹاخے بیچنے والوں کی پکڑ دھکڑ شروع کی تھی،مولوی حضرات ان پولیس والوں کی کمک پر تھے جو کہتے تھے، یہ جو بچے بڑے شب ِ برأت کے موقع پر پھلجھڑیاں اور پٹاخے چلا کر خوش ہوتے ہیں، تالیاں بجاتے ہیں،یہ غلط ہے۔

ایسی مبارک تقریب پر لہو و لعب، جس میں قوم کی دولت بھی ضائع ہوتی ہے اور جانوں کے ضیاع کا بھی اندیشہ رہتا ہے، لوگوں کو بھی رفتہ رفتہ اس کا یقین آ گیا، بچے بھی سہم کر پیچھے ہٹ گئے، سو شب ِ برأت کا تہوار اپنی گہما گہمی، اپنی چہل پہل سے محروم ہو گیا، بچوں اور ان کے ساتھ ساتھ سب گھر والوں کے لئے جو خوش ہونے کے لمحات میسر آتے تھے،وہ غائب ہو گئے،مگر کیا یہ واقعہ شب ِ برأت کے ساتھ گزرا، ہمیں تو لگتا ہے کہ ہمارے جو بھی تہوار تھے ان پر اُوس پڑ گئی ہے۔یوں بھی مسلمانوں میں تہوار کون سے زیادہ ہوتے ہیں۔

موسمی تہواروں کو تو ویسے بھی ہم نے کبھی اہمیت نہیں دی، مذہبی تہوار گنے چُنے ہیں۔ عید، بقر عید، شب ِ برأت، ماہِ رمضان ایمان کا جزو سب سے بڑھ کر عید پر چہل قدمی ہوا کرتی تھی، کتنے اہتمام کے ساتھ رمضان المبارک کی تیاری ہوتی تھی اور پھر عید پر بچے بچیوں کے لئے نئے جوڑوں کا بندوبست شروع ہو جاتا تھا۔
نمازِ عیددینی فریضہ ہونے کے ساتھ ایک تہذیبی تقریب بھی بن گئی تھی، لوگ نیا جوڑا پہن کر خوشی خوشی گھر سے نکلتے ہیں۔عید گاہ کی طرف رُخ ہے، پہلے تو عید کی نماز مسجدوں میں کم ہوتی تھی، بستی سے باہر کھلے میدانوں میں قائم عید گاہوں میں ہُوا کرتی تھی،نمازِ عید پڑھی، ایک ایک نمازی سے گلے ملے، مصافحہ کیا،بے شک ذاتی طور پر اسے نہ بھی جانتے ہوں۔ عید گاہ سے نکلے تو دیکھا کہ باہر تو میلہ لگا ہوا ہے۔

بچوں کا تقاضا ہے کہ غبارے خریدیں گے، پھٹ پھٹ کرتی ہارن بجاتی گاڑی خریدیں گے۔ یہ کھلونا خریدیں،وہ خریدیں گے، گڑیا خریدیں گے اور جب ان کھلونوں کو خرید کر گھر واپس آنے لگے تو پتہ چلا کہ گلی میں پہلے ہی شور پڑا ہے، ہر طرف بچے سیٹیاں بجا بجا کر خوش ہو رہے ہیں اور بزرگ لوگ ان کو منع کرنے پر لگے ہیں، لیکن ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے جو ہمارے درمیان سب سے بڑھ کر خوشی کا تہوار تھا۔ اس پر اوس پڑ گئی، کیونکہ ایک ایک کر کے کچھ لوگ ان کو غلط رنگ دینے لگے اور کچھ معزز لوگ اپنے عقیدے کے مطابق خاص نام دینے لگے،اس میں سویاں کھانا بھی شامل ہے۔ ہم تو بے سوچے سمجھے مزے لے لے کر سویاں کھاتے چلے جا رہے تھے۔

یہ نسل دَر نسل طریقہ رائج ہے، کچھ اس کو بُرا سمجھتے ہیں، کچھ معزز کہلوانے والے لوگ اپنی مرضی کے اسلامی اصول نافذکروانا چاہتے ہیں، خیر اِن شاء اللہ ماہِ رمضان کے بعد عید گزر جائے گی، لیکن معاملہ کچھ شک کا شکار ہونے لگا ہے، ہم اپنے قومی پرچم کے احترام میں کھڑے ہوتے ہیں تو عین ممکن ہے کچھ لوگوں کو بُرا لگتا ہو کہ شرک کے مرتکب ہو رہے ہیں، انڈہ کھاتے ہیں تو کچھ لوگ شک ڈال دیتے ہیں کہ انڈہ حلال ہے یا حرام۔

یہ جو ہمارے یار بسنت کے موقع پر پتنگیں اُڑاتے تھے تو ہم بھی خوش ہوتے تھے،یہ جانے بغیر کہ یہ سارا کھیل فضول خرچی کے زمرے میں آتا ہے،جو پتنگ اُڑاتا ہے وہ تو فضول خرچی اور عیاشی کے زمرے میں آتا ہو گا،مگر جو پتنگ کو اُڑتا دیکھ کر خوش ہوتا ہے وہ بھی فضول خرچی کرتا ہے۔

اس کے بعد نیا گُل کھلایا کہ یہ ہندوؤں کا کھیل ہے کہ بسنت ہندوؤں کا تہوار ہے، …… پھر ایک گُل اور کھلا کمبخت منافع خور بیوپاریوں نے ڈور کی جگہ تار کا استعمال شروع کر دیا۔ اس خول نے قیامت برپا کر دی، حادثے ہونے لگے، کھیل کھیل میں جان کے لالے پڑ گئے۔یہاں سے انتظامیہ کا فریضہ شروع ہوتا ہے کہ اس غیر قانونی حرکت پر روک ٹوک کرے ایسے کاروباریوں کی پکڑ دھکڑ کرے،ان کے کارخانوں پر چھاپے مارے، مگر پکڑ دھکڑ کس کی ہوئی، پولیس والے پتنگ لوٹنے والے اور اُڑانے والے بچوں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں، حالانکہ ہر تھانہ کے علاقے میں،جو بھی غلط یا صحیح فیکٹری، کارخانے ہیں، ان کو پتہ چلے، مطلب تھانہ کی انتظامیہ نااہل،انتظام کی صلاحیت سے عاری اور دِل میں کھوٹ دکھانا مقصود کہ ہم پکڑ دھکڑ کر رہے ہیں ……کن کی دکانداروں کی، لیکن پتنگ باز قطعی طور پر باز نہیں آ رہے، حالانکہ یہ کھیل کسی طرح بھی سود مند نہیں،روزگار کمانے کے دوسرے طریقے بھی ہیں،حکومت نے پتنگ بازی کو ممنوع قرار دے دیا ہے کہ ”نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری“…… لیکن اس کے باوجود پنجاب کے کئی حصوں میں یہ کھیل ہوتا ہے،مرے کو مارے شاہ مدار۔ بچی کھچی تھوڑی خوشی جو باقی تھی اس کو دہشت گردی کے اندیشے نے برباد کر دیا۔

یہ اندیشہ ہمارے لئے جان لیوا بن گیا، اب جہاں چار دوست جمع ہوتے ہیں تو یہ اندیشہ چپکے چپکے دِل میں آنا شروع ہو جاتا ہے کہ کیسی عید، کہاں کی بقر عید، اب ہمارے سب تہوار سب خوشی کے مواقع دہشت گردی کے اندیشے کا شکار ہیں۔ عید کی صبح جب ہم فریضہ ئ نماز کے لئے گھر سے نکلتے تھے تو مسجدوں کی طرف جاتے راہوں پر کیا چہل پہل نظر آتی تھی، نونہالوں نے نیا لباس،نیا جوتا نئی ٹوپی پہنی ہوتی ہے، دوڑے چلے جا رہے ہیں مسجد کی طرف، اب ایسا منظر کم کم نظر آتا ہے، بمشکل فریضہ ئ نماز ادا کرتے ہیں، بچوں کو کیوں مشکل میں ڈالیں۔ہم جب مسجد کے قریب پہنچتے ہیں تو سیکیورٹی والے کتنی شک بھری نظروں سے ہمیں دیکھتے ہیں، سر سے پیر تک کا جائزہ لیتے ہیں کہ کہیں اسلحہ تو نہیں چھپا رکھا،جب ہم اس آزمائش سے گزر لیتے ہیں تو خود ہم دوسروں کو شک کی نظر سے دیکھنا شروع کر دیتے ہیں، عید کی نماز سے وابستہ یہ دستور چلا آتا ہے کہ جب نماز ختم ہوتی ہے،جو آپ کے دائیں بائیں بیٹھے ہیں، بے شک آپ ان کو جانتے بھی نہیں،مگر آپ ان سے مصافحہ کرتے ہیں،عید کی مبارکباد دیتے ہیں،لیکن اب دماغ میں شک داخل ہو گیا ہے کہ کیا خبر ہمارے دائیں بائیں کوئی کھڑا ہو جائے اور دھماکہ کر دے اور کتنے نمازیوں کو اپنے ساتھ لے جائے تو بس اب اِن شاء اللہ ہم پہلے سحری کی خوشیاں منائیں گے۔

رمضان شریف کے روزے رکھیں گے،اگر زندگی ہوئی تو پھر تمام شکوک و شبہات کے ہوتے ہوئے عیدالفطر بھی پڑھیں گے، حالات کچھ بھی ہوں اِن شاء اللہ ماہِ رمضان کی رحمتیں اور برکتیں ضرور حاصل کریں گے، اپنے ملک اور عوام کے لئے اللہ کے حضور دُعائیں گے،اپنے ملک کے عوام کی فلاح و بہبود کے لئے اللہ کے حضور بابرکت ماہِ رمضان میں دُعائیں کریں گے، ملک سلامت رہے۔

مزید :

رائے -کالم -