جاگ اٹھا ہے سارا وطن

قارئین،کینیڈا میں ہوں، منگل کے روز وزیراعظم کینیڈا مارک کارنی کی واشنگٹن ڈی سی میں امریکی صدر ٹرمپ سے ملاقات تھی، ٹیرف کے تناظر میں تمام کینیڈا کی نگاہیں اس ملاقات پر لگی ہوئی تھیں، میں بھی اس ملاقات پر نگاہیں جمائے بیٹھا تھا اور سارا دن اس میٹنگ،پریس ٹاک اور اس پر تبصرے سنتا رہا، وزیر اعظم کارنی اور صدر ٹرمپ کی باڈی لینگوئج بھی بہت کچھ بتا رہی تھی، خیال تھا کہ اس پر ہی لکھوں گا،ٹورنٹو کینیڈا اور پاکستان کے وقت میں نو گھنٹوں کا فرق ہے جمعرات کو چھپنے والے کالم کو مجھے کینیڈا سے منگل کی رات گئے تک ہی لاہور آفس میں بھجوانا پڑتا ہے، کالم ذرا لیٹ ہو جائے تو ہمارے ایڈیٹر ایڈیٹوریل چودھری خادم صاحب کا فون آ جاتا ہے کہ خیر اے تسی لیٹ نہیں ہو گئے؟ میں اپنے ذہن میں کالم کا خاکہ بنا ہی رہا تھا کہ،پاکستان پر رات کے وقت بھارت کے بزدلانہ حملے کی خبر آ گئی تو پاکستان کے ساتھ ساتھ کینیڈا کے پاکستانی بھی جاگ اٹھے اور ایک دوسرے سے فون پر رابطے شروع ہو گئے۔
سب ایک دوسرے سے پوچھ رہے تھے کہ مہذب دنیا میں مودی کی دہشت گردی بند نہیں ہو سکتی،ہماری بہادر افواج نے تا دم تحریر بہترین جواب دے دیا ہے جس سے بھارت کے دانت کھٹے ہو چکے ہیں، بھارت کا یہ حملہ بین الاقوامی قوانین،اقوامِ متحدہ کے چارٹر اور ممالک کی خود مختاری کے اصولوں کی صریح خلاف ورزی ہے، اقوامِ متحدہ کا بنیادی اصول یہ ہے کہ کوئی ملک کسی دوسرے ملک کی خودمختاری میں مداخلت نہیں کر سکتا، چاہے کسی بھی وجہ سے ہو، بھارت نے نہ صرف اس اصول کی خلاف ورزی کی، بلکہ اپنے پڑوسی ملک کو جنگ کی طرف دھکیلنے کی کوشش کی، عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ بھارت کی اس حرکت کا نوٹس لے اور اسے ایک ذمہ دار ریاست کی حیثیت سے برتاؤ کرنے پر مجبور کرے۔
پاکستان نے اس جارحیت کے بعد نہ صرف فوجی محاذ پر بلکہ سفارتی محاذ پر بھی بھرپور جواب دے دیا ہے، دفتر خارجہ نے فوری طور پر دنیا کے اہم ممالک کو بریفنگ دی، اقوامِ متحدہ میں احتجاج درج کرایا اور تمام بین الاقوامی تنظیموں کو بھارت کے عزائم سے آگاہ کیا، پاکستان کا موقف بالکل واضح رہا ہے“ ہم جنگ نہیں چاہتے، اگر جنگ مسلط کی گئی تو ہر پاکستانی اپنی مٹی کا دفاع کرے گا۔”پاکستان کی یہ حکمتِ عملی دنیا بھر میں سراہی گئی، جس سے ہماری قیادت کی بالغ نظری ظاہر ہوتی ہے۔پاکستان اور بھارت کے تعلقات ہمیشہ سے پیچیدہ اور نازک نوعیت کے حامل رہے ہیں، جن میں وقتاً فوقتاً کشیدگی، تصادم اور مذاکرات کے دور آتے رہے ہیں۔ تاہم بھارت کی جانب سے رات کی تاریکی میں کیا گیا حملہ نہ صرف بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے بلکہ جنوبی ایشیا کے خطے کے امن و استحکام کے لئے ایک سنگین خطرہ بھی ہے۔ یہ اقدام اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ بھارت، داخلی مسائل سے توجہ ہٹانے کے لئے پاکستان دشمنی کا سہارا لیتا ہے، مگر پاکستان نے ہمیشہ کی طرح اس جارحیت کا جواب نہایت سنجیدگی، ذمہ داری اور موثر انداز میں دیا۔
بھارت کا یہ حملہ رات کے اندھیرے میں کرنا اس کی بزدلی اور خوف کی علامت ہے، ایک طرف وہ دنیا کے سامنے خود کو سب سے بڑی جمہوریت اور امن پسند ملک ظاہر کرتا ہے، دوسری طرف اپنے ہمسایہ ملک پر بغیر کسی اشتعال انگیزی کے حملہ کرتا ہے یہ حملہ فوجی لحاظ سے کسی کامیابی کا حامل نہیں تھا، بلکہ اس کا مقصد صرف بھارت کے اندرونی عوامی جذبات کو بھڑکانا اور انتہا پسند ووٹرز کو خوش کرنا تھا۔ بھارت کی موجودہ حکومت، خاص طور پر نریندر مودی کی قیادت میں، اپنی سیاسی ناکامیوں کو چھپانے کے لئے ہمیشہ جنگی جنون کا سہارا لیتی ہے۔
پاکستان نے ہمیشہ دنیا کے سامنے خود کو ایک ذمہ دار ریاست کے طور پر پیش کیا ہے، قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک، پاکستانی قیادت نے ہر بحران میں صبر، برداشت اور مذاکرات کا راستہ اپنایا ہے مگر پاکستان کی امن پسندی کو اکثر بھارت نے غلط سمجھا، پاکستان کا تحمل اور امن کی بات کرنا اس کی کمزوری نہیں،بلکہ ایک بالغ نظر ریاست کا ثبوت ہے، موجودہ حملے کے بعد بھی پاکستان نے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ وہ خطے میں جنگ نہیں چاہتا، لیکن اگر دشمن حملہ کرے تو پاکستان اپنی سرزمین، اپنے عوام اور اپنے وقار کا دفاع کرنا بخوبی جانتا ہے۔بھارت کی جارحیت کے جواب میں پاکستان نے جس پیشہ ورانہ انداز میں اپنا دفاع کیا، وہ قابلِ تحسین ہے۔ پاک فضائیہ، بری فوج، بحریہ اور انٹیلی جنس ادارے مکمل ہم آہنگی کے ساتھ حرکت میں آئے اور دشمن کے عزائم کو خاک میں ملا دیا، پاکستان کی دفاعی تیاری، جدید ٹیکنالوجی، اور جنگی حکمتِ عملی نے یہ ظاہر کر دیا کہ ہم کسی بھی غیر متوقع صورتحال کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں۔
اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ بھارت کی حکومت اس وقت داخلی سطح پر شدید دباؤ کا شکار ہے، بڑھتی ہوئی بیروزگاری، مہنگائی، اقلیتوں پر ظلم، کسانوں کے مظاہرے، اور عوامی بے چینی نے مودی حکومت کی ساکھ کو سخت نقصان پہنچایا ہے، ایسے میں ایک“خارجی دشمن”تخلیق کر کے عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانا ایک آزمودہ سیاسی حربہ ہے، جسے مودی حکومت بار بار استعمال کرتی ہے، یہ ایک خطرناک کھیل ہے جو نہ صرف بھارت بلکہ پورے خطے کے لئے تباہ کن نتائج پیدا کر سکتا ہے۔
جہاں تک پاکستانی قوم کا تعلق ہے وہ ہر آزمائش میں اپنی افواج کے شانہ بشانہ کھڑی ہے، اس بار بھی عوام نے اتحاد، حب الوطنی اور یکجہتی کا عملی مظاہرہ کیا،سوشل میڈیا ہو یا عوامی اجتماعات، ہر طرف افواجِ پاکستان کے حق میں آواز بلند ہوئی، پاکستانی عوام نے یہ واضح کر دیا کہ وہ اپنی آزادی، خود مختاری اور سرحدوں کی حفاظت کے لئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔ قوم اور فوج کے اس اتحاد نے دشمن کو ایک اور پیغام دیا کہ پاکستان صرف ایک ملک نہیں،بلکہ ایک نظریہ ہے جو لاکھوں قربانیوں سے حاصل کیا گیا ہے۔
حالیہ حملے میں بھارتی میڈیا نے ایک بار پھر زہر افشانی، جھوٹ اور پروپیگنڈا کا سہارا لیا، بھارتی میڈیا نے نہ صرف عوام کو گمراہ کیا بلکہ بین الاقوامی رائے عامہ کو بھی مسخ کرنے کی کوشش کی، اس کے برعکس پاکستانی میڈیا نے ذمے داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے مصدقہ اور مدلل موقف دنیا کے سامنے رکھا، معلومات کی اس جنگ میں بھی پاکستان سرخرو رہا اور عالمی میڈیا نے بھارتی بیانیے پر سوالات اٹھانا شروع کر دیے، جو ایک بڑی سفارتی کامیابی ہے۔
آخر میں ایک اور بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کسی بھی قسم کا جنگی تصادم، صرف دونوں ملکوں کے لئے ہی نہیں بلکہ پورے خطے اور دنیا کے لئے خطرناک ہو سکتا ہے، دونوں ممالک ایٹمی طاقتیں ہیں اور جنگ کے اثرات دور رس ہوں گے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ بھارت عقل و ہوش سے کام لے اور جارحیت کا راستہ چھوڑ کر مذاکرات اور تعاون کی طرف بڑھے، پاکستان ہر وقت امن کے لئے تیار ہے، مگر دفاعِ وطن پر کبھی سمجھوتہ نہیں ہو گا۔