مولا بھاگ لائی رکھے۔۔۔

مولا بھاگ لائی رکھے۔۔۔
مولا بھاگ لائی رکھے۔۔۔

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


میں خوش ہوں امریکی انتخابات میں ”ساڈا بابا“ اوپر آگیا ہے چہتر سالہ جو بائیڈن اب تقریباً صدر بن چکے ہیں۔جگنیاں گانے والے،ودھائیاں  لینے والے اور مولا بھاگ لائی رکھے کہنے والے وائٹ ہاؤس کے گرد جمع ہو چکے ہیں اور میرا ڈونلڈ ”ادھا تیتر ادھا بٹیر“بن چکا۔ایک طرف سے وہ آپ کو پاکستان اینگری ینگ مین عرف ٹارزن کی واپسی لگے گا جب وہ کہے گا آپ چار حلقے کھولیں اور دوسری طرف سے وہ آپ کو نیلسن منڈیلا جونیئر لگے گا جب وہ کہے گا ووٹ کو عزت دو۔خیر ”آپیا جانے تے وا پیا جانے“ ہم نے دانے ہی بھوننے ہیں۔لیکن ٹرمپ کی شکست سے بڑے بھیا کو ایک بات سمجھ لینی چاہیے کہ اسٹیبلشمنٹ سے پنگا کبھی چنگا نہیں ہو گا۔پاکستانی میڈیا الحمداللہ آزاد ہے اور ہم کھل کر امریکی اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کر سکتے ہیں۔پینٹا گون نے نجانے کیسے ٹرمپ کو پانچ سال تک برداشت کیا۔کیونکہ ہم نے جان ایف کینڈی  کے انجام سے یہ سیکھا تھا کہ پینٹا گون سے متھا لگانے والے کے اہل خانہ نے ہمیشہ ویہن ہی پائے ہیں۔پینٹا گون آوا گون کا موقع بھی نہیں دیتا۔حجام سنتا سنگھ گاؤں میں خوشی سے بڑھکیں مارتا پھر رہا تھا کسی نے وجہ پوچھی تو بولا ”چودھریاں دا منڈا وڈا“افسر بن گیا ہے،پوچھا تم خوش کیوں ہو تو وہ بولا اس دی پہلی جھنڈ میں ہی لائی سی (اس کی پہلی ٹنڈ میں نے ہی کی تھی)۔کچھ  پاکستانی دانشور جوبائیڈن کی کامیابی پر سنتا سنگھ ہی کی طرح خوش ہیں لیکن میں احتیاطً عرض کردوں ڈیموکریٹس کا مسلم دشمنی کے حوالے سے ٹریک ریکارڈ ٹرمپ سے بھی برا ہے۔دنیا میں دہشت گردی کی آگ لگانے میں ڈیموکریٹس،ایڈ وولف ہٹلردی گریٹ سے بھی آگے ہیں۔مسیولینی تو باراک اوباما کے سامنے کاکا منا لگتا ہے۔باراک نے جنکا پورا نا باراک حسین اوباما ہے جس طرح شام،عراق،افغانستان،پاکستان میں آگ کو مزید ہوا دی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔میرا خیال ہے کہ مسلمان زرا جذبات کی گڈی کی بریک پر پیر رکھیں،خواہشات کاکلچ آہستہ آہستہ چھوڑیں ایسا نہ ہودل کے ارمان اتھرؤں میں بہہ جائیں  اور نہاتے دھوتے رہ جائیں کھیڑے ڈولی چک کر رفو چکر ہوجائیں۔


سنتا سنگھ سے کسی نے پوچھا آپ کو سبزی کون سی پسند ہے،وہ بولا شملے کی مرچ جس کے نیچے پیزاا ہوتا ہے۔آپ بھی بھولے بادشاہ ہو سمجھئے پیپلز پارٹی نیلسن منڈیلا جونیئر عرف قائد جمہوریت عرف باغی عرف بڑے بھیا کے بیانئے میں ان کے ساتھ ہے۔چناں رات آپ جتھے مرضی گذاریں لیکن دل کی دلیلوں کو خواہش کی غلیل نا بنائیں۔پیپلز پارٹی کبھی ن لیگ کے بیانئے کی میڈیا پارٹنر نہیں بنے گی۔ہاں آصف زرداری نے شریف سے انہیں گلیوں میں گھسیٹنے کا بدلہ لے لیا ہے پہلے انہوں نے نواز شریف اور مریم نواز کو موڈا دیا بھوئیں چاڑھا انہی سے پھوُکی بڑھکیں لگوائیں اور جب وہ بند گلی میں پہنچے تو انکا گٹا کھینچ کر دڑکی لگا دی۔یقیناً اب مریم بی بی کو کراچی میں پیپلز پارٹی کی تعریف اور زرداری سے محبت کے اظہار پہ دکھ ہو رہا ہو گا۔میں نے پہلے بھی عرض کی تھی کہ آپ بلاول کی معصومیت اور کھچی مچی اردو پر نہ جائیں اس کے خون میں سیاست دوڑتی ہے وہ ذوالفقار علی بھٹو کا نواسہ ہے۔نواز شریف یہ سمجھتے رہے کہ وہ پیپلز پارٹی کے موڈے پر سوار ہو کر اقتدار کی راجھدانی پہنچ جائیں گے۔جبکہ بلاول بھٹو ”وچوں وچ“اسٹیبلشمنٹ کے اچھے بچے بنتے گئے  انہوں نے کراچی آئی جی کارڈ کو خوب کھیلا جس کے بعد پیا نے رنگون سے فون بھی کھڑکا دیا۔اگر وہ کر کرے کو تڑ ٹرے کہتے ہیں تو آپ ”دندیاں نہ کڈیں“ انہوں نے جلد آپ کی وکھیاں سیک دینی ہیں۔سنتا سنگھ بولا بیگم تم نے یہ کیسا گوبر جیسا کھانا پکایا ہے، اس کی بیگم سر پر ہاتھ رکھ کر بولیں اف اللہ ”بندے نے کی کی چکھیا ہویا اے“۔بھائی جی ہم نے ساری پارٹیوں کے مزاج چکھے ہیں پیپلز پارٹی اندر سے جتنی کڑِ نواز شریف سے کھاتی ہے اتنی تو وہ عمران خان سے نہیں کھاتے۔کپتان کا نہیں پتہ ہے بس غصہ کڈ کے فارغ ہو جائے گاہونا وہی ہے جو پیا کے من بھانا ہے۔


اسے کہتے ہیں دھماکے دار انٹری،جہانگیر ترین جس خاموشی سے گئے تھے اتنی ہی دبنگ انٹری کے ساتھ واپس آئے ہیں۔اسلام آباد اور خصوصاً ایوان وزیر اعظم کی درودیوار سے آوازیں آرہی ہیں۔”بنے چاہے دشمن زمانہ ہمارا،سلامت رہے دوستانہ ہمارا“۔سنا ہے جہانگیر ترین کی موجودہ کامیاب ترین واپسی میں ان کے دیرینہ دوست عمران خان کا بہت ہاتھ ہے ویسے تو پاکستانی فلموں میں بگڑے بچوں کی آنکھیں آخری سین میں کھلتی ہیں لیکن وزیر اعظم ہاؤس نے کپتان کی آنکھیں شاید وقت سے پہلے کھول دیں ہیں۔ان کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان سے کوئی پوچھے ان پر کیا گذررہی ہے۔فردوس عاشق آپا پر کرپشن کے الزام لگائے وہ نوی نکور ہو کر پنجاب کی وزیر بن گئیں۔جہانگیر ترین کے خلاف الزام لگائے وہ گج وج کے واپس آچکے ہیں۔میرا خیال ہے اعظم خان کو اپنی پوزیشن کلیئر کرنی چاہیے بے شک برائٹ سب وائٹ کر دیتا ہے۔لیکن  اعظم خان ہر بار لیفٹ کو رائٹ نہیں کر سکتے۔بے شک وہ رمکے رمکے گائیں ”جنے میرا دل لٹیا،تے جنے مینوں مار سٹیا“۔لیکن یہ کھیل اب بند ہونا چاہیے،منصف کو انصاف کرنا چاہیے،ذاتی خواہشات پر چولیں نہیں مارنی چاہئیں۔یہ پسند نا پسند پر اقتدار کی ڈنڈا ڈولی بند ہونی چاہیے،نجانے وہ سورج کب نکلے گا ہماری تو آنکھیں چندھیا گئیں۔

مزید :

رائے -کالم -