وہ جذباتی اور تاریخی حوالوں کیساتھ شدید تکنیکی حملے کر رہا تھا،میری طرف سے بھی جوابی گولے داغے جا رہے تھے، ہم دونوں ہی بری طرح تھک چکے تھے
مصنف: محمد سعید جاوید
قسط:24
پہلے تو بات چیت محض تاریخی حوالوں اور دلیلوں تک ہی محدود رہی تاہم بعدازاں اس میں جھنجھلاہٹ اور غصے کا عنصر شامل ہوتا گیا اور کھلم کھلا ایک دوسرے کے ملکوں اور قومی رہنماؤں کوبرا بھلا کہا جانے لگا۔ اس کے منھ سے جھاگ جاری تھی اور وہ مجھ پر جذباتی اور تاریخی حوالوں کے ساتھ شدید قسم کے تکنیکی حملے کر رہا تھا۔ میں بھی کانپتے ہونٹوں اور بلند آواز میں اپنے وطن کی حرمت کا بھرپور دفاع کر رہا تھا اور اسی رفتار سے میری طرف سے جوابی کارروائی کے گولے داغے جا رہے تھے۔ ہم دونوں ہی اس چیخ و پکارسے اب بری طرح تھک چکے تھے اور اس بے کار اور لاحاصل بحث سے نجات پانا چاہتے تھے۔
پھر اچانک وہ کسی روٹھے ہوئے دوست کی طرح وہاں سے اٹھ کر چپ چاپ باہر چلا گیا۔ وہ اتنا جلا بھنا ہوا تھا کہ اس نے رخصتی کے وقت روایتی الوداعی کلمات بھی نہ کہے تھے۔ میں بھی اٹھ کر کاؤنٹر تک گیا اور وہاں سے تازہ اور ٹھنڈے جوس کا ایک اور گلاس اٹھا لایا اور اپنے آپ کو معتدل رکھنے کی کوشش کرنے لگا۔
اہرام مصر
ہوٹل والوں نے ایک معاہدے کے تحت آج مجھے ایک گائیڈ مہیا کرنا تھا جس نے باقاعدہ ایک پروگرام کے مطابق مجھے قاہرہ اور اس کے مضافات میں لے جانا تھا۔ میرا آج کا دن بڑا ہی مصروف ہونے جا رہا تھا اور میں نے ذہن میں کئی پروگرام ترتیب دے رکھے تھے۔ آج مجھے گیزہ (Giza) جانا تھا،جو قاہرہ کے وسطی علاقے سے کوئی پندرہ بیس کلو میٹر دور دریائے نیل کے اس پار بیک وقت ایک قدیم او ر جدید شہر تھا۔ جس کی آبادی تو کوئی بیس پچیس لاکھ ہو گی، تاہم اس کا شمار دنیا کے چوٹی کے تین گنجان آباد شہروں میں ہوتا تھا۔
یہ علاقہ ایک وقت میں فرعونوں کا پایہئ تخت تھا اور ان کے مدفن، اہرام، معبد اور دوسری ساری عبادت گاہیں یہاں ہی ہوا کرتی تھیں۔ حالانکہ اسی پائے کا ایک شہر انہوں نے وسطی مصر میں بھی بسا رکھا تھا جس کا آج کل کا نام ا لأقصر (Luxor) تھا۔ اور یہاں وسیع پیمانے پر ان کے محلات، عبادت گاہیں اور مدفن تھے۔ ا لأقصر عربی میں محل کو ہی کہتے ہیں۔ اس لئے اس جگہ کو یہ نام ملا۔ یہ صحیح معنوں میں فرعونوں کا مسکن تھا تاہم اس کا تفصیل سے ذکر اس وقت تک اٹھا رکھتے ہیں جب تک کہ ہم وہاں پہنچ نہیں جاتے۔
جب میں اپنا لباس تبدیل کرکے نیچے استقبالیہ پر آیا تو وہاں بیٹھی ہوئی خوبرو مصری حسینہ نے نزدیک بیٹھے ہوئے اپنے ہی ایک ہم عمر نوجوان لڑکے کو بلوا کر اس سے میرا تعارف کروایا،جس کو اگلے تین دن کے لئے میرا راہبر بننا تھا۔
اس کاپورا نام تو عبدالفتاح تھا لیکن میں بھی دوسرے مصریوں کی طرح اسے صرف عبدو کہہ کرہی پکاروں گا اور اس نے بھی اعتراض نہیں کیا تھا کیونکہ یہ مصر میں ایک بہت ہی مقبول نام تھا۔ وہ اچھی خاصی ادبی قسم کی انگریزی بول رہا تھا اور سیاحوں کو ان کی دکھتی رگوں سے پکڑنا خوب جانتا تھا۔ اس نے مجھے بھی ٹھیک وہیں سے پکڑ لیا اور خالص مصری انداز میں ہونٹوں پر انگلیاں لگا لگا کر اور کچھ میٹھی میٹھی باتیں کرکے چند منٹوں میں مجھے اپنا گرویدہ بنا لیا۔
اس نے مجھ سے ایک دن کے 15 پونڈ بطور محنتانہ طلب کئے جو اس وقت کے مصری معیار کے مطابق ایک اچھی خاصی رقم تھی۔ تب ان کا پاؤنڈ بھی بڑا ہی مضبوط ہوا کرتا تھا،ڈالر سے بھی کہیں زیادہ۔ بہرحال میں نے یہ معاوضہ معقول سمجھ کر فوراً ہی حامی بھر لی۔اس نے مجھے ایک کاغذ تھمایا جس پر میرا اگلے 3دن کا پروگرام تحریر تھا، میں وہیں کھڑا رہ کر اس کو سمجھنے کی کوشش کرنے لگا۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں