لڑائی لڑائی معاف کیجیے ۔۔۔
تحریر:ڈاکٹر محمد اعظم رضا تبسم
یہ جملہ بطور عنوان پڑھ کر ایک مرتبہ آنکھوں میں چمک آتی ہے اور بندہ ماضی کی اس دلربا یاداشت پر ٹھنڈی آہ بھرتا ہے ۔ بچپن کے دن کتنے اچھے تھے جب لڑاتے ہوئے یہ لڑائی چھڑوانے والے کی یہ آواز کانوں میں رس گھولتی
لڑائی لڑائی معاف کرو اللہ کا گھر صاف کرو ۔
آپ اس وقت بھی یہ جملہ پڑھ کر ماضی کی کسی بات کو یاد کر کے مسکرائے ہوں گے ۔ خیر اللہ آپ کی مسکراہٹیں سلامت رکھے ۔
مائیں سمجھاتی تھیں کہ اچھے بچے لڑا نہیں کرتے ۔ لڑائی کرنے والے سے اللہ ناراض ہو جاتا ہے ۔ لڑو گے تو مرو گے ۔ لڑو گے تو بھرو گے ۔ یعنی نقصان اٹھاؤ گے ۔ تم کوئی گندے بچے ہو جو لڑتے ہو ۔
کوئی کسی کو سوری نہیں کہتا تھا نا کسی کے لیے کہلوایا جاتا تھا مگر دل ان جملوں کے بعد بالکل پر سکون صاف ستھرے ہو جاتے ۔انتقام کی سوچ تو جیسے اس دور میں ابھی پیدا ہی نہ ہوئی ہو ۔ لہٰذا یہی جملے دوائی مرہم تسلی اور دلاسہ ہوا کرتے تھے ۔
دراصل یہ جملے ہینڈ سم پرسنلٹی کی تخلیق کے لیے بنیادی اجزاء کا کام کرتے تھے اس پر کھڑی کی جانے والی عمارت میں کبھی غصہ سے زلزلہ برپا نہیں ہوتا تھا ۔ ایسے دل اور ایسے کان جو ان جملوں سے لبریز ہوں ان کے گریبان کسی نے نہ تھامے ہوں گے ان کی جوانی بے داغ ہو گی اور کسی کے گریبان انہوں نے نہ تھامے ہوں گے ۔ ان کی زندگی شرافت کا بھرپور استعارہ ہوگی ۔ جی ہاں اگر آپ بھی پر سکون زندگی جینا چاہتے ہیں تو آج اس جملہ کو پلے سے باندھ لیں ۔
لڑائی لڑائی معاف کرو اللہ کا گھر صاف کرو۔
چلیے تصور کیجیے کہ آپ کو ایک سانپ کاٹ لیتا ہے اب اگر آپ سوچیں کہ اس سانپ نے مجھے کاٹا میں اس سے ابھی بدلہ لوں گا ۔جیسے جیسے آپ اس کے پیچھے بھاگتے رہو گے ویسے ویسے اس کا زہر اور زیادہ آپ کے اندر بڑھتا جائے گا اور آپ زیادہ دیر سروایو survive نہیں کر پاؤ گے اس طرح آپ اپنی اچھی خاصی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھو گے ۔ سانپ سے بدلہ بھی نا لے پائیں گے اور دنیا سے آپ کا کنکشن بھی کٹ جائے گا ۔ لہٰذا آپ کے لیے ضروری ہے جان بچانا ۔ ورنہ مر کر بھی آپ پر ترس اور رحم کی بجائے بے وقوفی کا لیبل لگا دیا جائے گا ۔
زندگی میں بھی کئی سانپ ایسے آتے ہیں جن سے ہم ڈسے جاتے ہیں مگر ہم ان سے سبق سیکھ کر آگے بڑھنے کی بجائے انتقام کی فکر میں پڑے رہتے ہیں نتیجہ یہ ہوتا ہےکہ وہ اپنی زندگی میں مزے کرتے رہتے ہیں اور ہم ایک مار تو ان سے کھا چکے ہوتے ہیں دوسرا اندر ہی اندر خود کو اذیت دئیے رکھتے ہیں نتیجہ دیکھیے ہر دو صورت نقصان ہمارا ہوتا ہے ۔لہٰذا سبق سیکھیے اور نظر انداز کر کے آگے بڑھنے کی پالیسی اپنائیے ۔ کوشش کیجیے معاف کر کے اللہ پر معاملہ چھوڑ دیں ۔کیونکہ معاف کرنے سے شخصیت خوبصورت بنتی ہے ۔ معاف کرنے کے مثبت اثرات زندگی کو بدل دیتے پیں ۔ پانچ بڑے اثرات تو یہ ہیں۔
1. روحانی بلندی: معاف کرنے کا عمل انسان کو روحانی طور پر بلند کرتا ہے۔ یہ عمل اللہ کی خوشنودی کا باعث بنتا ہے اور دل کو سکون اور راحت فراہم کرتا ہے۔
2. اخلاقی عظمت: معاف کرنے سے انسان کا اخلاق بلند ہوتا ہے اور وہ دوسروں کی نظر میں ایک مثالی کردار بن جاتا ہے۔ یہ ایک ایسی خوبی ہے جو شخصیت کو نکھارتی ہے اور احترام میں اضافہ کرتی ہے۔
3. ذہنی سکون: جب انسان دل سے معاف کرتا ہے تو دل کے بوجھ اور غصے سے نجات ملتی ہے، جس سے ذہنی سکون اور اطمینان پیدا ہوتا ہے۔ یہ اندرونی سکون شخصیت میں نرمی اور خوش مزاجی لاتا ہے۔
4. رشتوں میں بہتری: معاف کرنے سے رشتے مضبوط ہوتے ہیں اور تعلقات میں محبت اور اعتماد بڑھتا ہے۔ اس سے خاندان اور دوستوں کے ساتھ رشتے زیادہ خوشگوار اور پائیدار ہو جاتے ہیں۔
5. مثبت سوچ: معاف کرنے کی عادت انسان میں مثبت سوچ اور رویہ پیدا کرتی ہے۔ جب آپ دوسروں کی غلطیوں کو معاف کرتے ہیں، تو آپ زندگی میں مثبت پہلوؤں کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں، جس سے شخصیت میں خوش مزاجی اور کامیابی کا رجحان بڑھتا ہے۔
ہماری تاریخ فتح مکہ کی عام معافی سے شروع ہوتی ہے جس کے بعد ہر فاتح نے اپنے مذہب سے علاوہ لوگوں کو معاف کیا بلکہ انہیں زندگی کے بنیادی حقوق عطا کیے ۔ ان عظیم معافیوں نے بہت سے لوگوں کے دلوں کو اسلام کی طرف مائل کیا ۔ آئیے معافی درگزر کرنا شروع کیجیے یہ حسین معاشرے کی بنیاد ثابت ہو گا ۔ اپنے بچوں کو اس کا سبق دیجیے تا کہ معاشرے میں برداشت کا رویہ عام ہو۔
نوٹ: ادارے کا مضمون نگار کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں