تاریک سائے
وطنِ عزیز گوناں گوں مسائل سے دوچار ہے۔ فی الوقت تشدد کی لہر ہے جو اگرچہ وقتی طور پر تھم چکی ہے مگر بہت ہی عمیق اور خطرناک رجحان کے ساتھ موجود ہے۔ اس گھمبیر صورت حال نے ملکی سلامتی کو تقریباً داﺅپہ لگا دیا ہے۔ پوری قوم اس سے اس قدر پریشان ہے کہ مستقبل پر خدانخواستہ تاریکی کے سائے پھیلتے ہوئے محسوس ہورہے ہیں۔ دہشت گردی کی حالیہ کارروائیوں نے ہماری قومی زندگی کی چولیں ہلاکر رکھ دی ہیں اور انتظامیہ کو کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ یوں لگتا ہے جیسے حکومت کی رٹ بالکل معدوم ہوچکی اور وہ بے بس ہے۔ دہشت کی ان کارروائیوں کا دائرہ اس قدر وسیع ہوچکا ہے کہ اسے کنٹرول کرنا حکومت کے بس سے باہر دکھائی دیتا ہے۔ ماضی میں یہ کارروائیاں قبائلی علاقوں تک محدود تھیں جبکہ ان کا دائرہ کار بڑے شہروں تک پھیل چکا ہے۔ شہری علاقوں خصوصاً کراچی جیسے شہر میں ان متشدّد حملوں کو نہ روکا گیا تو آگے چل کر ان کے آگے بندباندھنا مشکل بلکہ ناممکن ہوگا۔
ملک میں اب تقریباً ساٹھ ہزار جانوں کا نذرانہ دیا جاچکا ہے۔ اب یہ کارروائیاں اتنی بڑھ گئی ہیں کہ قومی رد عمل میں بے حسی درآئی ہے۔ درجنوں انسانی جانوں کی قربانی روزانہ کا معمول بن گیا ہے۔ ہمیں اس کا فوری تدارک کرنا ہوگا ورنہ اس کی بھاری قیمت ادا کرنی ہوگی۔ اگرچہ یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ کیا ہماری موجودہ پالیسی ایسا کرسکے گی۔ اس لئے اب وقت آگیا ہے کہ ریاستی پالیسی ایسے مرتب کی جائے کہ اس کا فوری خاتمہ ممکن نہیں تو کم از کم اس لہر میں خاطر خواہ کمی واقعہ ہو جائے۔ ریاستی اداروں کو فوری ایسے اقدامات کرنے چاہئیں، جن کی وجہ سے قوم کے اعتماد میں اضافہ ہو اور عوام کی بے چینی میں کمی آئے۔ دہشت گردی کے لئے اٹھائے گئے اقدامات کرنے سے پیشتر ہمیں یہ بھی غور کرلینا چاہیئے کہ اس عفریت نے کیوں اور کیسے سراٹھایا؟۔ شمال میں واقعہ افغانستان کے اندر ہونے والے واقعات سے اس کی ابتداءہوئی جس کی بنیاد ہماری اپنی غلط خارجہ پالیسی تھی۔ ہم نے خوامخواہ دو متحارب قوتوں کی جنگ میں کود کر اس فتنے کی ابتداءکی۔ ان متحارب گروہوں میں سے چند ایک کی پشت پناہی کرکے جہاد افغانستان کے نام پر ہم اس پرائی جنگ میں کود پڑے۔
روسی شکست کی صورت میں امریکی مفادات تو ضرور پورے ہوگئے لیکن وطن عزیز کا امن اب تک پارہ پارہ ہے۔ امریکہ نے اپنے مفادات عزیز رکھتے ہوئے امن کے لئے کوئی مستقل فارمولا مرتب نہ کیا اور اس خطے کو آگ میں جلتا ہوا چھوڑ کر چلا گیا۔ آگ کا یہی الاﺅ آج ہماری قومی زندگی کو بھسم کرنے کے درپے ہے اور جن جنگجو گروپوں کو ہم نے پالا پوسا وہی لوگ ہمارے ساتھ برسرِ پیکار ہیں اور بیرونی طاقتوں سے حاصل کیا گیا اسلحہ جو باہمی جنگ کے لئے استعمال ہورہا تھا اس کا رخ آج ہماری طرف ہوچکا ہے۔ پہلے پہل ان عسکری گروہوں نے جن کی جنگی تربیت ہم اپنے ہاتھوں سے کرچکے تھے وہ اسلحہ ہمارے خلاف استعمال کیا جو انہیں غیر ملکی طاقتوں نے اپنے مفادات کی تکمیل کے لئے دیا تھا جب اس کی ترسیل میں کمی ہوئی تو اپنے وسائل پیدا کرنے کے لئے انہوں نے غیر قانونی سرگرمیوں کا سہارالیا جس کے لئے بھی ہماری ہی سرزمین استعمال ہوئی اس طرح پاکستانی قوم کو دہرے عذاب سے دوچار ہوناپڑا۔
لاقانونیت کی یہ لہر قبائلی علاقوں سے ہوتی ہوئی ہمارے شہری علاقوں تک پھیل گئی اس پر مستزاد یہ کہ انتظامیہ کی خاموش رہنے کی پالیسی نے اس کو مہمیز دی اور آج یہ کیفیت ہے کہ ہماری ریاست کمزور پوزیشن سے ان دہشت گرد تنظیموں کو کنٹرول کرنے کے لئے سعئی لا حاصل کررہی ہے۔ یہی گروہ اب اس قدر طاقتور ہوچکے ہیں کہ وہ ریاست کی ہمسری کے دعوے دار ہیں اور برابری کی بنیاد پر بات چیت چاہتے ہیں۔ اس گھمبیر مسئلے سے نمٹنے کے لئے ہمارے پاس وسائل ہیں اور نہ ہی کوئی پالیسی اس لئے اس سے نپٹنے کی استعداد پر سوالیہ نشان ہیں۔ہماری حکومت ایک دہری گرہ میں بندھی نظر آرہی ہے اور یوں لگتا ہے کہ ہم ایک بند گلی میں پھنس چکے ہیں جس سے نکلنے کی کوئی سبیل نظر نہیں آتی۔ مزید برآں اس مسئلے کے حل کے لئے جس سوجھ بوجھ کی ضرورت ہے اس کا بھی فقدان نظر آتا ہے۔
اب وقت آگیا ہے کہ ایسی قومی پالیسی ترتیب دی جائے جس میں جملہ سیاسی اور عسکری عناصر ایک صفحے پر ہوں جب تک ایسا نہیں ہوگا اس دیوہیکل مسئلے کا حل ممکن نہیں کیونکہ فی الحال اس نازک ترین مسئلے پر سب سیاسی عناصر پوائنٹ سکورنگ میں مصروف نظر آتے ہیں۔ دہشت گردی کا عفریت اس وقت بڑے شہروں تک پہنچ چکا ہے لیکن یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ آگ ہمیں بھسم کرسکتی ہے ہم اس کے ساتھ کھیلنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ہم سب کو قومی مفاد کو آگے رکھنا ہوگا اور ایک ایسی پالیسی مرتب کرنی پڑے گی جو اس آگ کو ٹھنڈا کرسکے اس کے لئے ہمیں لمبے عرصے کے لئے اقدامات کرنے ہوں گے لیکن سب سے اہم بات یہ ہوگی کہ پوری قوم یکجا ہوکر اپنی ایک حکمت عملی پر عمل پیرا ہو کیونکہ اگر ہم ایسا نہ کرسکے تو یادرکھئے کہ آنے والی نسلوں کو سوائے شرمندگی کے ہم کوئی چیز منتقل نہیں کرسکیں گے کیونکہ دہشت گرد بیرونی اشاروں پر ان کی امداد کے سہارے جہاد کے نام پر ہمارے امن کوتہ وبالا کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ کیا ہم اسی گومگو کی حالت میں رہیں گے؟ لیکن یادرہے کہ ہمارے پاس بہت کم وقت رہ گیا ہے اور اگر اب بھی ہم بے عملی کا شکار رہے تو تاریک سائے اور گہرے ہوتے جائیں گے اور پھر پچھتاوے کا وقت بھی نہیں رہے گا۔