سٹریٹ فائٹرکی ان کہی داستان، قسط نمبر 54
میں نے بورڈ کے عہدیداروں سے کہا کہ میں استعفیٰ دے دیتا ہوں۔آپ کو نیا کپتان چننے میں مشکل نہیں ہو گی۔ جب لڑکے میری قیادت میں کھیلنے کو تیار نہیں تو میں کیوں ان کے سروں پر مسلط رہوں۔میں نے استعفیٰ دے دیا۔ یہ میری زندگی کا ایک تلخ لمحہ تھا۔ دنیا کی رنگینیوں سے لطف لینے والے وسیم اکرم کا دل ٹوٹ گیا۔ ایسے وقت میں میری بیوی ہما نے مجھے تسلی دی۔میرا حوصلہ بڑھایا۔ میں اس وقت تک بھی یہ سمجھ نہیں پایا تھا کہ آخر میرے خلاف بغاوت کیوں ہوئی میں تو دوستانہ ماحول میں ٹیم کو چلا رہاتھا۔ میں نے کسی کو حکم ماننے پر مجبور نہیں کیا۔ہمیشہ سم جھا بجھا کر کام چلانے کی کوشش کی۔ پھر میرے خلاف یہ سازش کیوں ہوئی۔۔۔اب میں سوچتا ہوں کہ سب کچھ تقدیر کا فیصلہ ہوتا ہے۔برا وقت بھی کبھی آپ کے سامنے آکھڑا ہوتا ہے۔کل تک جو اپنے تھے آج بیگانے ہو گئے۔وقت سدا ایک جیسا نہیں رہتا۔شاید میں یہ بھول گیا تھا۔
قسط نمبر 53 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
مایوسی کے ان ایام میں میری بیوی نے مجھے بہت سمجھایا۔ میرا حوصلہ بڑھایا۔ اگر وہ نہ سجھاتی تو شاید میں کرکٹ چھوڑ دیتا۔ عمران خان نے تو مجھے یہ مشورہ دیا تھا کہ میں ٹیم کی مدد کے لئے نیوزی لینڈ نہ جاؤں، ان کو کھیلنے دوں۔۔۔مگر میری بیوی نے مجھے سمجھایا کہ اصل چیز مُلک ہے۔۔۔اپنے ملک کے لئے کھیلنا اہم ہے۔پاکستان کو فتح دلوادو یہ بڑی بات ہے۔قیادت کی کوئی اہمیت نہیں یہ آنی جانی چیز ہے۔جو چیز ہمیشہ یادرکھی جائے گی وہ تمہاری کارکردگی ہے۔تمہارے ساتھیوں کو تمہاری سربراہی کی ضرورت نہیں ہے تو کوئی بات نہیں لیکن پاکستان کو تمہاری صلاحیتوں کی ضرورت ہے۔تم پاکستان کو فتحیات کراسکتے ہو۔اس لئے کیسے بھی حالات ہوں اپنے وطن سے منہ نہ موڑو۔ان باتوں سے میرے اندر دنیا حوصلہ پیدا ہوا۔نئی قوت پیدا ہوئی اور میں پاکستان ٹیم کے نیوزی لینڈ پہنچنے کے پانچ دن کے بعد وہاں پہنچا۔
ٹیم کے ساتھیوں کے پاس میرے لئے جگہ نہیں تھی۔ سخت تناؤ محسوس کررہا تھا۔ لیکن میری قوت میرا ملک تھا۔ میں ٹیم کے ممبران کے لئے ن ہیں اپنے ملک کے لئے کھیلنے آیا تھا۔اپنا فرض پورا کرنے آیا تھا۔ میں نے انہیں جتلا دیا کہ کپتانی میرے لئے اہم ن ہیں ہے اس سوچ نے میرے اندر جوش بھر دیا تھا چنانچہ میں نے تین ٹیسٹ میں25وکٹیں حاصل کیں۔وہ لمحات میں بھول نہیں سکتا جب میں کوئی وکٹ لیتا تو ٹیم کا کوئی رکن میری کامیابی پر شاباش دینے نہ آتا۔میں آہستہ آہستہ اپنے بولنگ کے نشان پر جاتا اور نئے بیٹسمین کے کریز پر آنے کا انتظار کرتا لیکن میرے جوش، میرے حوصلے میں کمی نہیں آئی بلکہ ہر وکٹ کے بعد میری قوت بڑھ جاتی کیونکہ میں پاکستان کے لئے فتح حاصل کرنا چاہتا تھا۔ پہلے ٹیسٹ میں9اور دوسرے ٹیسٹ میں11وکٹیں لیں۔دونوں ٹیسٹ پاکستان نے جیتے۔دونوں میں’’مین آف دی میچ‘‘ میں تھا۔ اس لئے کہ میں پاکستان کے لئے کھیل رہا تھا۔خدا نے ایک بار پھر سرخرو کر دیا۔ مجھے مایوسی کے اندھیروں میں دھکیلنے والوں کو شرمندگی ہوئی۔ میں نے دنیا کو بتا دیا کہ وسیم اکرم کو کپتانی سے نہیں ملک کی فتح سے پیار ہے۔
دوستوں کی مخالفت کا عذاب میں نے حوصلے کے ساتھ جھیلا۔ جوں جوں کامیابی ملیں میری مایوسی کم ہوتی گئی۔میرے مخالف ایک بار پھراپنے کئے پر شرمندہ ہوئے۔دوستی کے بندھن پھر سے مضبوط ہوئے۔ایک بار پھر میں کپتان بنا۔لیکن کپتانی کا تاج دراصل کانٹوں بھرا ہوتا ہے۔بہت چبھتاہے چنانچہ کپتان بننے کے بعد ایک بار پھر اذیتیں میرا مقدر بنیں۔میچ فکسنگ کا الزام عائد ہونے لگا۔یہ اس طرح کا الزام تھا کہ میں پریشان ہو گیا۔
شارجہ کے ایک میچ میں الزام لگا کہ میں نے19گیندوں پر صرف4رنز بنائے اور جان بوجھ کر ٹیم کو ہروادیا۔بنگلور میں تکلیف کے باعث میں نہ کھیل سکا۔ٹیم ہار گئی تب بھی مجھ پر الزام آگیا میں نہیں کھیلا اس لئے ٹیم ہار گئی۔ آپ ہی بتائیںں کوئی کیا کہے کھیلتا ہوں تب بھی الزام نہ کھیلوں تو تب بھی الزام۔ میری دیانتداری پر کیچڑا چھالی گئی۔مجھ پر جان بوجھ کر ہارنے کا الزام لگایا دیا گیا۔ میرے گھر پر پتھراؤ کرادیا گیا۔ گھر والوں کو فون پر دھمکیاں دی گئیں۔بنگلور میں نہ کھیلنے پر طوفان اٹھا دیا گیا۔ زندگی کے کسی حصے میں میں نے اپنے فن اور ملک سے بے وفائی نہیں کی۔ مجھے ملک نے بہت کچھ دیا، عزت، شہرت، وقار سب کچھ ملا مجھے کسی شے کی ضرورت نہیں تھی۔مگر میرے مخالف مجھے بدنام کرنے پر تلے ہوئے تھے۔کچھ صحافی اس میں پیش پیش تھے۔ وہ نامعلوم کس بات کا بدلہ لے رہے تھے۔انہوں نے میرے خلاف من گھڑت افواہیں پھیلا دیں۔بہت سے جھوٹے قصے گھر ڈالے ،طرح طرح کی منطق کے ذریعے مجھے غدار ثابت کرنے پر تل گئے۔میں نے اپنے ملک کیلئے جو کامیابیاں حاصل کی تھیں ان کو فراموش کرکے وہ مجھے بدنام کرنے پر تل گئے تھے۔میں پریشان ہو گیا کس کس الزام کی تردید کرتا، کن کن صحافیوں کی خوشامد کرتا الزامات کا طوفان کھڑا کر دیا گیا۔
جاری ہے۔
قسط نمبر 55 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
دنیائے کرکٹ میں تہلکہ مچانے والے بائیں بازو کے باؤلروسیم اکرم نے تاریخ ساز کرکٹ کھیل کر اسے خیرباد کہا مگرکرکٹ کے میدان سے اپنی وابستگی پھریوں برقرار رکھی کہ آج وہ ٹی وی سکرین اور مائیک کے شہہ سوار ہیں۔وسیم اکرم نے سٹریٹ فائٹر کی حیثیت میں لاہور کی ایک گلی سے کرکٹ کا آغاز کیا تو یہ ان کی غربت کا زمانہ تھا ۔انہوں نے اپنے جنون کی طاقت سے کرکٹ میں اپنا لوہا منوایااور اپنے ماضی کو کہیں بہت دور چھوڑ آئے۔انہوں نے کرکٹ میں عزت بھی کمائی اور بدنامی بھی لیکن دنیائے کرکٹ میں انکی تابناکی کا ستارہ تاحال جلوہ گر ہے۔روزنامہ پاکستان اس فسوں کار کرکٹر کی ابتدائی اور مشقت آمیز زندگی کی ان کہی داستان کو یہاں پیش کررہا ہے۔