پاکستانیوں کی زندگیاں سب سے ارزاں کیوں ہیں؟
اگر پوری دنیا کے لوگوں سے یہ سوال کیا جائے کہ دنیا میں سب سے قیمتی چیز کیا ہے۔ تو میرے خیال کے مطابق شاید 95 فیصد لوگوں کا جواب ”زندگی“ہو گا، ویسے یہ جواب تو 100 فیصد لوگوں کا ہونا چاہئے، کیونکہ ہر کوئی اپنی اور اپنے بچوں کی زندگی سے بڑھ کر کسی شے کو زیادہ قیمتی نہیں سمجھ سکتا، لیکن اس دنیا کی آٹھ ارب سے زائد کی آبادی کا تقریباً 2۔3 فیصد پاکستانی ہیں، جن کے لئے انسانی زندگی سے ضروریات زندگی مہنگی ہو چکی ہیں۔ پاکستان میں اگر کوئی چیز سستی ہے تو وہ انسانی جان ہے۔ ہمارے ملک کی اشرافیہ 10 فیصد ہے جن کی جانیں قیمتی ہیں اور وہ اپنی جانوں کی حفاظت کی خاطر باقی 90 فیصد ارزاں لوگوں کی زندگیوں کو ہر وقت داؤ پر لگا سکتے ہیں، کیونکہ 90 فیصد ویسے ہی جسم و جان کے رشتے کو قائم رکھنے کی تگ و دو میں اپنی جانوں کی بھی پرواہ نہیں کرتے۔ پاکستان کے علاوہ بھی کئی ممالک ایسے ہیں،جہاں انسانی زندگی کی قدر کم ہے اس لئے راقم نے 95 فیصد کا جواب زندگی لکھ دیا ہے اگر ہم اپنے ملک میں انسانی زندگی کی حفاظت کے حوالے سے کیے گئے انتظامات کا جائزہ لیں تو پھر یہ اندازہ بخوبی ہو جاتا ہے کہ پاکستان میں سب سے ارزاں چیز انسانی زندگی ہے۔ ہمارے ہاں غریب بچے پیدا کرنے میں کنجوسی نہیں کرتے، مگر اپنے ہی بچوں کی پرورش اور ان کی حفاظت میں سب سے زیادہ کنجوس ہو جاتے ہیں،بلکہ وہ بچوں کو پیدا ہی اپنے مفاد یا اپنی کمائی کے لئے کرتے ہیں۔ ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ سڑکوں پر جگہ جگہ ہفتوں اور مہینوں کے بچوں کو اُٹھائے خواتین مانگ رہی ہوتی ہیں، کیونکہ انہیں یقین ہوتا ہے کہ لوگ معصوم بچے کی حالت دیکھ کر خیرات دیتے ہیں۔ پھر جب بچے ابھی پانچ سال کے بھی نہیں ہوتے تو انہیں کام پر لگا دیا جاتا ہے۔ یا پھر مدرسوں میں بھیج کر ان کی روٹی کا بندوبست کرنے کے ساتھ ساتھ والدین اپنی بخشش کا ذریعہ بھی بناتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے بچے ورکشاپوں، دکانوں اور گھروں میں کام کرتے ہیں اور کچھ سڑکوں پر مختلف چیزیں فروخت کرتے نظر آتے ہیں، یعنی ان بچوں کا بچپن دوسروں کی نظر ہو جاتا ہے۔ بات یہاں تک بھی نہیں رکتی، ہمارے ہاں حادثات میں جتنی اموات ہوتی ہیں ان اموات کی وجوہات کو دیکھتے ہوئے صاف پتا چلتا ہے کہ ہماری زندگیوں کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ ہمارے ہاں سب سے زیادہ زندگیاں سڑکوں پر ہونے والے حادثات میں گل ہو جاتی ہیں اور یہ سب ہماری لاپرواہی کا نتیجہ ہوتا ہے۔ دہشت گردی سے شہید ہونا تو چلو مجبوری ہے، لیکن ہمارے کسی بھی کام کرنے کی جگہ پر انسانی زندگی کی حفاظت کا درست بندوبست نہیں ہوتا، بجلی کا کام ہو یا کسی کارخانے میں کام کرنے والے ہوں یا عمارتی کام کرنے والے مزدو ہوں کسی بھی جگہ محفوظ بندوبست نہیں ہے، لیکن آج ہم صرف سڑکوں پر ہونے والے حادثات کا جائزہ لیتے ہیں اور یہ دیکھتے ہیں کہ ہماری حکومت ان حادثات کی روک تھام کے لئے کیا کر رہی ہے؟ دنیا میں کسی بھی ملک کے لوگوں کے شعور کو جانچنے میں سب سے پہلے اس ملک کی سڑکوں پر ٹریفک اور صفائی کی صورتحال کو دیکھا جاتا ہے۔ اور یہ خاکسار آج تک جتنے ممالک میں گیا ہے اس کو سامنے رکھتے ہوئے پورے یقین سے لکھ رہا ہے کہ ہم ان دونوں چیزوں میں سب سے پیچھے ہیں۔ پاکستان کی ٹریفک کی بے ترتیبی اور قانونی خلاف ورزی کی اڑتی دھجیاں اپنی جگہ، لیکن حفاظتی انتظامات بالکل نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ہمارے ملک کی سڑکوں پر سب سے زیادہ تعداد موٹر سائیکلوں کی ہے اور ان میں 70 فیصد بغیر ہیلمٹ سوار ہوتے ہیں۔ موٹر سائیکلوں پر اطراف میں دیکھنے والے شیشے ہوتے ہیں نہ پیچھے سے نظر آنے والی لائٹ ہوتی ہے۔ پھر سوار سمجھ رہا ہوتا ہے کہ اس کے پاس اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کا یہی وقت ہے، کیونکہ اپنا جسم جتنا بھی کمزور ہو لیکن موٹر سائیکل میں بہرحال پیٹرول ہوتا ہے۔ میں نے اپنے آبائی علاقے بھمبر آزاد کشمیر میں صرف ایک سڑک پر 10 کلومیٹر کے فاصلے میں پچھلے 12 برس میں بیسیوں حادثات ہوتے دیکھے ہیں جس میں 95 فیصد پلے پوسے نوجوانوں کی زندگیوں کے چراغ گل ہوئے اور ان میں 5 حادثات ایسے تھے جہاں دو سگے بھائیوں کی اموات ہوئیں اور ایک حادثے میں ماں بیٹے کی جان گئی ہے۔ یہ تمام حادثات تقدیر سے نہیں،بلکہ ہم سب کی لاپرواہی سے ہوئے ہیں۔ اس طرح کا حادثہ ہوتے ہی لوگ جوق در جوق افسوس، جنازے اور فاتحہ کے لیے امڈ آتے ہیں، جن میں ایک بھی بندہ یا لیڈر ایسا نہیں ہوتا جو اس حادثے کی وجوہات اور آئندہ ایسے حادثات کی روک تھام پر بات کرے۔ بس سب بخشش کی دُعا اور اپنا فرض ادا کر کے آئندہ حادثے کا انتظار کرنے لگتے ہیں۔ راقم نے چونکہ زندگی کا بڑا حصہ یورپ کے اس ملک میں گزارہ ہے جہاں ہر سال ٹریفک حادثات میں مرنے والوں کی تعداد کا جائزہ لے کر اگلے سال تک اس میں نمایاں کمی کی جاتی ہے۔ ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں ایک سال میں صرف ایک بندہ ٹریفک حادثے کا شکار ہوا،جس کی عمر 60 سے زیادہ تھی۔اس سال بھی ناروے کی حکومت، پارلیمنٹ اور میڈیا میں یہ بحث ہو رہی تھی کہ آئندہ کیا اقدامات کئے جائیں کہ ایک بھی بندہ ٹریفک حادثات میں ضائع نہ ہو۔ اِس لئے اس خاکسار نے پچھلے سات سال سے اپنے علاقے میں یہ کوشش کی کہ اس نقارخانے میں کوئی طوطی کی آواز سنے اور ان حادثات کی روک تھام کے لئے کسی مہم کا آغاز ہو سکے، لیکن انتظامیہ کو اس کی پرواہ نہیں بلکہ وہ میری کوشش کو اپنے کام میں ناجائز مداخلت سمجھتے ہیں اور عام لوگ مجھے دیوانہ سمجھتے ہیں کہ یہ کون سا کام کرنا چاہتا ہے۔
گزشتہ روز اندھیرے میں کھڑی ایک لوڈ ٹرالی کے ساتھ موٹر سائیکل کی ٹکر سے ایک بار پھر دو سگے بھائی موقع پر ہی ہلاک ہو گئے ہیں۔یہ خاکسار ان کے جنازہ میں جانے کا حوصلہ نہیں کر سکا تو اپنی انگلیوں کو جنبش دینے بیٹھ گیا، شاید کہ کسی صاحب اختیار پر اثر ہو جائے۔ تو کم از سڑکوں پر اس طرح ٹرالیوں کو کھڑا کرنے کی ممانعت اور بغیر ہیلمٹ موٹر سائیکلوں کو سڑک پر چڑھنے سے روکا جا سکے۔