9 مئی کا معمہ اور پاکستان میں کمیشنوں، کمیٹیوں کا کھیل!
خبر ہے کہ 9 مئی سانحہ پر نگران وفاقی کابینہ نے وزیر انصاف و قانون کی سربراہی میں ایک کابینہ کمیٹی تشکیل دی ہے جو اس سانحہ پر تحقیقات کر کے سانحہ کے محرکات، سانحہ کے کرداروں، ماسٹر مائنڈ اور آئندہ ایسے سانحات کی روک تھام کا تعین کرے گی۔ اب جبکہ اس سانحہ کو 8 ماہ ہو چکے اور کئی پلوں کے نیچے سے پانی گزر چکا اور کئی پل بھی پانی میں ڈوب چکے تو اب نگران حکومت کو یہ خیال آیا کہ کابینہ کمیٹی تشکیل دی جائے؟ اب تو وقت ہے کہ ساری توجہ عام انتخابات پر مرکوز کی جاتی اور انتخابات کو منصفانہ اور شفاف بنانے کے لیے تمام ضروری اقدامات کیے جاتے، اگر کسی ایسی کمیٹی یا کمیشن کا قیام ناگزیر تھا تو یہ کام ایک عدالتی کمیشن کے ذریعے بھی ہو سکتا تھا۔ ویسے پاکستان کی 76 سالہ تاریخ میں ہم ان کمیٹیوں اور کمیشنوں کی کارکردگی دیکھ چکے ہوئے ہیں۔
جب سے پاکستان معرض وجود میں آیا ہے۔ اس وقت سے 9 مئی 2023 تک پاکستان میں جتنے سانحات یا اہم واقعات ہوئے ان کی تحقیقات کے لیے کمیشن اور کمیٹیاں بھی بنتی رہیں۔ لیکن آج تک کسی کمیشن یا کمیٹی کی تحقیقات کے نتائج سامنے آ سکے نہ ایسے سانحات اور واقعات کی روک تھام کے لیے کوئی قانون سازی یا بندوبست ہو سکا۔ ملک ٹوٹنے سے بڑا کوئی سانحہ نہیں ہو سکتا، پاکستان سے 56 فیصد آبادی کا الگ ہو جانا اور اس دوران لاکھوں اموات اور ہزاروں عزتوں کا پامال ہو جانا، 95 ہزار نفوس کا دشمن ملک کی قید و بند کی صعوبتوں کا سامنا کرنا، اس سے بڑا کوئی سانحہ بھی ہو سکتا ہے؟ اس سانحہ کی تحقیقات اور ذمہ داروں کا تعین کرنے کے لیے جسٹس حمود الرحمن کے نام سے جو کمیشن بنا تھا، اس کا نتیجہ کیا نکلا تھا؟ کسی حکمران، کسی عدالت یا کسی فوجی سربراہ نے یہ معاملہ کیوں نہ اٹھایا کہ کمیشن اپنی رپورٹ مرتب کر چکا تو اسے عوام کے سامنے لایا جائے یا کم از کم کسی اعلی عدالت میں ہی پیش کیا جائے۔36 برس بعد دشمن ملک بھارت کی طرف سے حمود الرحمن کمیشن رپورٹ کے مندرجات کو میڈیا میں شائع کیا گیا تو ہمیں علم ہوا کہ اس کمیشن نے کوئی رپورٹ بھی مرتب کر رکھی تھی۔ اور اس میں صرف ان کرداروں کا ذکر سامنے آیا جو اللہ کو پیارے ہو چکے تھے۔ اس سے پہلے اور اس کے بعد بھی کئی سانحات اور واقعات پر کمیشن اور کمیٹیاں بنتی رہیں لیکن کبھی کسی معاملے کی درست تحقیقات سامنے آئیں، نہ کسی ذمہ دار کا تعین ہو کر اسے سزا دی جا سکی تو پھر عوام کا ان کمیشنوں اور کمیٹیوں سے اعتبار اٹھ جانا عجیب تو نہیں ہے۔ اس وقت ملک میں 8 ماہ سے ایک نئے سانحہ9مئی کی گرد میں ملک کے تمام مسائل اوجھل ہیں۔ ملکی آئین کی پامالی کھلے عام ہوئی ہے۔ انسانی حقوق کی دھجیاں بکھیری جا چکی ہیں۔ اور اس سانحہ سے کئی اور سانحات جنم لے چکے ہیں۔ پہلے سے تباہ حال ملکی معیشت مزید ڈوب رہی ہے۔ سیاسی صورتحال پر ایک ایسی دھند چھائی ہوئی ہے کہ کسی کو کچھ سجھائی نہیں دے رہا ہے۔ عوام اور پاک فوج کے درمیان خلیج گہری ہو رہی ہے۔ سیاسی جماعتوں کے بیچ گفتگو و شنید کے رابطے مخدوش ہو گئے ہیں۔ میڈیا اور سوشل میڈیا میں کبھی نہ ختم ہونے والی افواہیں عروج پر ہیں۔ ملکی اداروں کے اعتبار کو ایسی ٹھیس پہنچ چکی جس کے زخموں کو مندمل ہونے میں شاید دہائیاں لگیں گی۔ ملک میں آئین سے ماوراء نگران حکومتیں اپنے مینڈیٹ سے تجاوز کرتے ہوئے بڑے بڑے اقدامات کر رہی ہیں۔ پاک فوج کو سرحدوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ بیسیوں دوسرے اداروں کے کام سنبھالنے پڑ رہے ہیں۔
لیکن کسی کی سمجھ میں یہ بات نہیں آ سکی کہ یہ سانحہ کیا تھا اور کس طرح آنا فانا پیش آیا؟ سمجھ کس طرح آ سکتی تھی۔ جب آپس میں کسی نے بات کی نہ سارے معاملات عدالتوں کے سپرد کیے، نہ کوئی عدالتی کمیشن بنا نہ میڈیا نے غیر جانبداری سے تحقیقات کی رپورٹ مرتب کی، جو ملک دو دہائیوں سے پراکسی وار اور دہشت گردی کا شکار ہو، کیا وہ ملک اس طرح کے سانحات کا متحمل ہو سکتا ہے؟ پھر کیوں حالات اس نہج تک پہنچے؟ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا ہم یہ تصور کر سکتے ہیں کہ ہمارے ملک کا کوئی جنرل، کوئی سیاستدان یا کوئی جج غدار ہے؟ سیاسی بیانات میں اس طرح کے الزامات تو لگائے جاتے رہے ہیں لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ کوئی بھی فرد ملک کے ساتھ غداری نہیں کرتا۔ ہمارے سانحات کے پیچھے اختیارات کے ناجائز حصول، ضد اور ہٹ دھرمی کے سوا کچھ بھی نہیں تھا۔ جب کوئی فرد یا ادارہ خود کو عقل کل سمجھ بیٹھے یا آمرانہ سوچ سے تمام فیصلے کرنا چاہے تو پھر انارکی پھیلتی ہے۔ غصے اور ضد میں انسان اپنے ہوش بھی کھو بیٹھتا ہے۔ یہ دو افراد یا چند افراد تک کی بات ہو تو الگ ہے لیکن ملکوں کو اس طرح چلایا جا سکتا ہے نہ قائم رکھا جا سکتا ہے۔ ملک کو قائم رکھنے، مضبوط اور کامیاب بنانے کے لیے تمام فیصلے ملکی مفادات کے زیر اثر کرنے ہوتے ہیں۔ ذاتی خواہشات اور مفادات سے بالاتر سوچ کے ساتھ ہی بڑے فیصلے ہوتے ہیں۔ ہمارے سامنے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں جب بھی کہیں کوئی مشکل پیش آتی ہے۔ یا شخصیات کا ٹکراؤ ہوتا ہے۔ کسی پارلیمنٹ میں کسی معاملہ پر ڈیڈلاک ہوتا ہے تو ہمیشہ کوئی شخصیت مستعفی ہو کر ایک طرف ہو جاتی ہے تاکہ ملکی اور قومی مفاد کو نقصان سے بچایا جا سکے۔ لیکن ہمارے ہاں اپنی انا اور اپنی ضد پر اڑ کر قومی مفاد کو نقصان پہنچانے سے ذرا گریز نہیں کیا جاتا ہے۔
اب 9 مئی کے معاملے پر غور کیا جائے تو پاک فوج اور پاکستان تحریک انصاف آمنے سامنے ہیں۔ پاک فوج بھی پاکستان کی ہے۔ تحریک انصاف کے لوگ بھی پاکستانی ہیں۔ عوام اور پاک فوج کو الگ کیسے کیا جا سکتا ہے۔ جو لوگ 9 مئی واقعہ میں ملوث تھے۔ یہ زیادہ مشکل تو نہیں تھا کہ اس معاملے کی شفاف تحقیقات کر کے سب سے پہلے یہ تعین کر لیا جاتا کہ معاملہ یہاں تک پہنچا کیسے اور اب اس سے نکلنے کا راستہ کس طرف ہے؟ اگر سب فریقین اپنی اپنی ضد پر قائم رہیں گے تو پھر ایسے سانحات کی روک تھام نہیں ہو سکے گی۔