حقوق نسواں کامردِ مجاہد
فرانس کا عظیم ادیب بالزیک لکھنے کے فن کو اتنا مقدس سمجھتا تھا کہ جب وہ لکھنے بیٹھتا تو پادریوں والی کالی عبا پہن لیتا تھا۔ بالزیک کی طرح دنیا کے کسی بھی ملک کا کوئی ادیب اگر قلم کے تقدس کو سمجھتا ہے تو ہمیشہ سچائی اور جرا¿ت کی عبا پہن کر ہی لکھتا ہے۔ پروفیسر وارث میر بھی ایسے ہی ادیبوں میں سے ایک تھے جن کی تمام عمر سچائی کی عبا پہن کر آزادی ¿ فکر اور انسانی حقوق کے لئے لکھنے میں گزری۔ پروفیسر وارث میر کے اس جہاں فانی سے کوچ کرجانے کے بعد سے لے کر اب تک ان پر بہت کچھ لکھا گیا، لکھا جارہا ہے اور لکھا جائے گا۔ ان کی شخصیت اورنظریات پر غور کیاجائے تو پتہ چلتا ہے کہ وہ سیدھے سادھے اور منافقت سے پاک انسان تھے۔ وارث میر لبرل، ڈیموکریٹک اور ترقی پسند نظریات رکھتے تھے۔ ان کے قلم سے نکلنے والی تحریروں نے پاکستان میں دوطبقوں کو خصوصاً متاثر کیا ایک خواتین اور دوسرے نوجوان طبقے کو۔ضیا مارشل لا کے دوران وارث میرنے جمہوری اقدامات کی پامالی کے خلاف شدت سے لکھنا شروع کیا تو آمریت کے مخالف سیاسی و غیرسیاسی حلقوں میں انہیں خوب پذیرائی حاصل ہوئی لیکن مذہبی اور سیاسی عناصر کا ایک مخصوص طبقہ جس نے مارشل لا کا ساتھ دیا اور مذہبی جنونیت پھیلانا چاہی وارث میرکا سخت دشمن ہو گیا۔ جامعہ پنجاب میں استاد کی حیثیت سے وارث میرکو سخت مشکلات کاسامنا کرنا پڑا لیکن انہوں نے بے خوفی کے ساتھ اپنی بات کہنے کی روایت قائم رکھی۔
اپنے نظریات اور مقاصد کے ساتھ مخلص رہنے والے عظیم انسانوں کی زندگیوں پر غور کیا جائے تو ان میں بہت سی باتیں مشترک نظر آتی ہیں۔ ژاں پال سارتر فرانس کا نوبل انعام یافتہ ادیب تھا۔ اس نے تمام عمر حق اورانصاف کے لئے لکھا۔ اس کا کہنا تھا کہ لکھنے والوں کو اپنے دور کے مسائل میں دلچسپی لینی چاہئے نیز یہ کہ ظلم و ستم کی کھل کر مخالفت کرنی چاہئے۔ سارترنے اپنے نظام فکر میں کئی بار ترمیم کی لیکن ”وجودیت“ کے بنیادی نظریے سے منکر نہ ہوا۔ وارث میر نے بھی تمام عمر حق و انصاف کی بات کی۔ انہو ں نے اپنے دور کے ہر بڑے مسئلے پر لکھا۔ اپنی بات کہنے کےلئے انہوں نے جس پلیٹ فارم سے آغاز کیا اس پلیٹ فارم پر کچھ حلقے اعتراض کرسکتے ہیں لیکن ان کی جمہوریت پسندی اور عوامی حقوق کے لئے جدوجہد شروع سے لے کر آخر تک برقرار رہی۔ اچھا ادیب اپنے دور کے مسائل کو بیان کرتے ہوئے مستقبل پر ان کے اثرات کا بھی ذکر کرتا ہے۔ وارث میر نے غیر جماعتی انتخابات، ریفرنڈم، شریعت بل اور آئینی ترامیم کے متعلق جو کچھ بھی کہا تھا وہ آج سچ ثابت ہو رہا ہے.... والٹر لپ مین امریکہ کا مشہور کالم نگار تھا س کا کالم ”آج اور کل“ بڑے شوق سے پڑھا جاتا تھا۔ اس نے بھی ہمیشہ سماجی انصاف او ر انسانوں میں مساوات کی بات کی۔ والٹر لپ مین کا امریکہ کی حکومت اور اپوزیشن دونوں احترام کرتے تھے۔ پروفیر وارث میرنے جب روزنامہ جنگ میں لکھنا شروع کیا تو ان کے کالم ”نوید فکر“ نے بہت مقبولیت حاصل کی۔ وارث میراپنے کالموں میں جن نکات پر بحث کرتے وہ بڑی سنجیدہ نوعیت کے حامل ہوتے تھے۔ چنانچہ نہ صرف حکومت کے مخالفین ان کے کالموں سے رہنمائی حاصل کرتے بلکہ حکومت کے لوگوں کو بھی اپنی خامیوں کا پتہ چلتا اور احتساب کا موقع ملتا تھا۔
اپنے نظریات اور مقاصد کے ساتھ مخلص رہنے والے عظیم انسانوں کی زندگیوں پر غور کیا جائے تو ان میں بہت سی باتیں مشترک نظر آتی ہیں۔ ژاں پال سارتر فرانس کا نوبل انعام یافتہ ادیب تھا۔ اس نے تمام عمر حق اورانصاف کے لئے لکھا۔ اس کا کہنا تھا کہ لکھنے والوں کو اپنے دور کے مسائل میں دلچسپی لینی چاہئے نیز یہ کہ ظلم و ستم کی کھل کر مخالفت کرنی چاہئے۔ سارترنے اپنے نظام فکر میں کئی بار ترمیم کی لیکن ”وجودیت“ کے بنیادی نظریے سے منکر نہ ہوا۔ وارث میر نے بھی تمام عمر حق و انصاف کی بات کی۔ انہو ں نے اپنے دور کے ہر بڑے مسئلے پر لکھا۔ اپنی بات کہنے کےلئے انہوں نے جس پلیٹ فارم سے آغاز کیا اس پلیٹ فارم پر کچھ حلقے اعتراض کرسکتے ہیں لیکن ان کی جمہوریت پسندی اور عوامی حقوق کے لئے جدوجہد شروع سے لے کر آخر تک برقرار رہی۔ اچھا ادیب اپنے دور کے مسائل کو بیان کرتے ہوئے مستقبل پر ان کے اثرات کا بھی ذکر کرتا ہے۔ وارث میر نے غیر جماعتی انتخابات، ریفرنڈم، شریعت بل اور آئینی ترامیم کے متعلق جو کچھ بھی کہا تھا وہ آج سچ ثابت ہو رہا ہے.... والٹر لپ مین امریکہ کا مشہور کالم نگار تھا س کا کالم ”آج اور کل“ بڑے شوق سے پڑھا جاتا تھا۔ اس نے بھی ہمیشہ سماجی انصاف او ر انسانوں میں مساوات کی بات کی۔ والٹر لپ مین کا امریکہ کی حکومت اور اپوزیشن دونوں احترام کرتے تھے۔ پروفیر وارث میرنے جب روزنامہ جنگ میں لکھنا شروع کیا تو ان کے کالم ”نوید فکر“ نے بہت مقبولیت حاصل کی۔ وارث میراپنے کالموں میں جن نکات پر بحث کرتے وہ بڑی سنجیدہ نوعیت کے حامل ہوتے تھے۔ چنانچہ نہ صرف حکومت کے مخالفین ان کے کالموں سے رہنمائی حاصل کرتے بلکہ حکومت کے لوگوں کو بھی اپنی خامیوں کا پتہ چلتا اور احتساب کا موقع ملتا تھا۔
وارث میر، ژاں پال سارتر الٹر لپ مین میں مشترک خصوصیات کا ذکر تو ہوگیا، اب ذرا یہ دیکھیں کہ وارث میر کے نظریات نے خاص طور پر خواتین اور نوجوانوں کو کیوں متاثر کیا؟ دراصل وارث میر کی فکر کاماخذ سرسیداحمد خان، علامہ اقبالؒ اور قائداعظم ؒکے نظریات تھے یہی وجہ تھی کہ ان کی تحریروں میں سرسید احمد خان کی سی فصاحت و بلاغت، اقبالؒ کی سی گہرائی اور جناح ؒ جیسے لبرل رجحانات نظر آتے تھے۔ خواتین کے حقوق اور مسائل کے سلسلے میں ان کی تحریریں ہمیشہ زندہ رہیں گی۔ انہوں نے شریعت بل کی آڑ میں عورت کی حیثیت کو آدھا قرار دینے کی کوشش کی زبردست مخالفت کی۔ اس سلسلے میں ان کی کتاب ”کیا عورت آدھی ہے؟“ شائع ہوئی جس میں وارث میر نے ثابت کیا ہے کہ اسلام ے عورت اورمرد کو برابر حیثیت و مرتبہ دیا ہے۔ عورت کی گواہی اور دیت کو مرد کے مقابلے میں نصف قرار دینے کو انہوں نے غلط ثابت کیا۔ وارث میر نے مذہب پر سائنسی نکتہ نظر سے غور کیا۔ انہوں نے مذہب کے انقلابی پہلو پر روشنی ڈالی اور رجعت پسندوں کی طرف سے مذہب کے استعمال کرنے کی کوششوں کو بے نقاب کیا انہوں نے ثابت کیا کہ اسلام ایک ترقی پسند مذہب ہے جس نے اپنے ظہور کے بعد قدیم روایات کو منسوخ کیا۔ اسلام نے انسانی مساوات اور دولت کی منصفانہ تقسیم کی تحریک کا آغاز کیا۔ ان کا خیال تھا کہ جب تک طبقات کی بالادستی اور غریبوں کی بے بسی ختم نہیں ہوتی فلاحی معاشرہ قائم نہیں ہوسکتا۔
نوجوانوں میں وارث میر کے افکار کی مقبولیت کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اجتہاد کے داعی وارث میر نے موجودہ نظام کے خلاف بغاوت کی تھی۔ ان کی تحریریں پسے ہوئے اورمظلوم طبقات کے دلوں کی آواز تھیں۔ نظام تعلیم اور ذریعہ تعلیم کے متعلق ان کے خیالات بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ وہ پاکستان میں امیر اور غریب طبقوں کے علیحدہ علیحدہ تعلیمی اداروں کے سخت مخالف تھے۔ ان کا خیال تھا کہ پاکستان بھر کے سکولوں، کالجوں اوریونیورسٹیوں میں انگریزی کی تعلیم پر زیادہ زور دینا چاہئے کیونکہ انگریزی پر دسترس حاصل کئے بغیر ہماری قوم جدید علوم سے آشنائی حاصل نہیں کرسکی۔ وہ انگریزی کو ذریعہ تعلیم قرار دینے کے حق میں تھے۔ مختصراً یہ کہ وارث میر ایک تحریک کا نام تھا جس کی تحریروں سے شعوری رہنمائی حاصل کرنے والوں کی پود میں سے ابھی بہت سارے قلمی مجاہد اور پیدا ہوں گے۔